بہاولپور میں مسلم لیگ (ن) کے چیدہ چیدہ کارکنوں سے خصوصی خطاب میںوزیر اعظم فرماتے ہیں کہ ''حکومتیں عوام کے ووٹوں سے بنتی ہیں اور توڑکوئی اور دیتا ہے اب یہ سلسلہ ختم ہوجا نا چاہئے ‘‘۔ اس فقرے کو کچھ اس طرح بھی لکھا جا سکتا ہے کہ ''انتخابات کے روز عوام لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہنے کے بعد اپنے ووٹوں سے کِسی اور کو منتخب کرتے ہیں لیکن صبح یہ جان کر سر پکڑ لیتے ہیں کہ ان پر حکومت کوئی اور کررہاہے۔۔۔۔ اوریہ سلسلہ صرف2013ء کے انتخابات تک ہی نہیں بلکہ1990ء سے چلا آ رہا ہے‘‘ ۔چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین کی وہ پریس کانفرنس ریکارڈ پر ہے جس میں انہوں نے کہا تھا''2008ء کے انتخابات کے دوران امریکہ کے نائب صدر اور سفیر نے ان کے گھر آ کر کہا تھا کہ آپ اگر یہ الیکشن جیت بھی جاتے ہیں تو امریکہ اسے تسلیم نہیں کرے گا‘‘ اس سے یہ صاف ظاہر نہیں ہوتا کہ حکومتیں عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ کسی اور کی مرضی سے ان پر مسلط کر دی جاتی ہیں۔
وقت کیا کیا نشانیاں چھوڑ جاتا ہے اور لوگوں کو سمجھانے کیلئے کیا کیا ان ہونیاں دکھا نے لگتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ1990 ء میں بے نظیر بھٹو حکومت کس نے ختم کرائی،93ء میں نواز حکومت کس نے ختم کرائی اور96 ء میں بے نظیر بھٹو حکومت کو کس نے ختم کرایا اس کیلئے صرف اتنا اشارہ ہی منا سب ہو گا کہ یہ حکومت ختم ہونے سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ کی مسز رابن رافیل نے مری میں میاں نواز شریف سے پانچ گھنٹے کی ایک طویل ملاقات کی تھی اور ان کے مری سے جاتے ہی میاں صاحب نے اپنے سکیورٹی سٹاف سے بے ساختہ یہ جملہ کہا تھا'' منڈیو ہن تیار ہو جائو‘‘ (لڑکو اب تیاری کر لو)۔کاش کہ دو سے زائد دہائیوں سے لٹکے اصغر خان کیس کا فیصلہ ا نصاف کے ضمیر سے ہو جاتا تو میاں نواز شریف کو بہاولپور میں کارکنوں کے سامنے دکھ بھرے الفاظ کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ سیا سی تقریریں اپنی جگہ لیکن یہ بات اب تسلیم کر لینی چاہئے کہ پاکستان میں اقتدار کی منتقلی کسی حساس یا غیر حساس ا یجنسی امریکہ ‘برطانیہ سمیت کسی عرب ملک کی مرضی سے نہیں ہونی چاہئے ۔ ہر تبدیلی اب عوام کے حقیقی ووٹوں کے ذریعے ہی کی جانی چاہئے۔ اگر عوام کی رائے کااحترام نہ کرتے ہوئے جب زبردستی کی کوئی حکومت ان پر مسلط کر دی جائے اور دھاندلی کی پیدوار کو باہر کا راستہ دکھانے کیلئے وہ انصاف کی سلاخوں سے ٹکڑا ٹکرا کر تھک جائیں تو پوچھا جا سکتا ہے کہ پھر وہ یعنی عوام کیا کریں؟ ملک میں جب بھی انتخابات ہوئے، پولنگ کے دن عوام، جن میں عورتیں‘ بوڑھے اور بیمار بھی شامل تھے، تپتی دھوپ اور کڑکراتی ہوئی سردیوں میں گھنٹوں بھوکے پیاسے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر ضمیر کے مطابق ووٹ کاسٹ کر تے ہیں لیکن صبح انہیں پتہ چلتا ہے کہ ان کے ضمیر کو کسی بے ضمیر نے اور ان کے ووٹ اور رائے کو دھوکہ بازوں نے فریب دہی سے چرا لیا ہے تو پھر وزیر اعظم صاحب!عوام کس طرح اس بات پر یقین کریں گے یا ان کے اس نظریئے کی حمایت کریں گے کہ اقتدار صرف عوام کی مرضی سے منتقل ہوتا ہے؟۔ اس ملک کے عوام سے ان کا حق رائے دہی کتنی بار اور کس طرح چھینا گیا ۔ کسی بیرونی طاقت کی مرضی اور ایجنڈا کس طرح تھونپا گیا۔ ہر الیکشن گواہ ہے‘ کہ انتخابات ہوتے ہی بڑی سیا سی جماعتوں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور؟اقتدار آنے والوں کے خلاف کبھی تحریک نجات شروع کی تو کبھی لانگ مارچ کا سہا را لیا گیا۔۔۔ ہر انتخاب کے بعدکبھی نوا ز شریف نے تو کبھی بے نظیر بھٹو نے یہی الزام لگایا کہ زبردست دھاندلی ہوئی ہے اور یہ کہ نتائج انجینئرڈ تھے۔
پاکستان میںعوام کی مرضی سے اقتدارکی منتقلی ہوتا دیکھنا سہاناخواب ہی ہو سکتا ہے کیونکہ جمہوریت اور انسانیت کا احترام کرنے والا اس کے تصور ہی میں کھو کر رہ جاتا ہے ۔ باشعور شہری جب11مئی2013ء کے نتائج کی طرف دیکھتا ہے تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے کہ اس کی مرضی کہاں گئی؟ جیسے جیسے گیارہ مئی کی شب گزرتی رہی انتخابی نتائج مُنہ چڑاتے رہے۔ بارہ مئی کی صبح سامنے آنے والے انتخابی نتائج کو کوئی بھی ماننے کو تیار نہ تھا سب سیا سی جماعتیں پنجاب سے سندھ اور خیبر پختونخوا سے بلوچستان تک شدت سے ایک دوسرے پر یہی الزام لگارہی تھیں کہ انتخابات صاف اور شفاف بالکل نہیں تھے اور نہ ہی غیر جانبدارانہ تھے۔ان الزامات سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مرکز سمیت کسی بھی صوبے کی حکومت عوام کی مرضی سے نہیں بلکہ زور زبردستی اور دھاندلی یا آپس کی وقتی مصلحت سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔
آصف زرداری سے خورشید شاہ اور اعتزاز احسن تک محمود خان اچکزئی سے اسفندیار ولی خان تک مولانا فضل الرحمن سے شیر پائو تک سب یہی کہتے رہے ہیںکہ گیارہ مئی کے انتخابات میں زبر دست دھاندلی کی گئی لیکن جیسے ہی عمران خان نے اسلام آباد میں عوام کی مرضی کو قانونی تحفظ دلانے کیلئے دھرنا دیا تو یہ سب ایک ہی سانس سے بولنا شروع ہو گئے کہ جعلی انتخابات سے بننے والی اس پارلیمنٹ اور وزیر اعظم سے کسی کا باپ بھی استعفیٰ نہیں لے سکتا؟۔ وزیر اعظم نے بہاولپور میں اپنی حکومت کیلئے محسوس کئے جانے والے خدشات کیلئے '' بہاولپور‘‘ کا جو مقام منتخب کیا ہے بعض قائدین کے خیال میں اس کے پس پردہ ان کا نیا ضیاء الدین بٹ ہے۔ اسے آپ اس تقریر سے تشبیہ دے سکتے ہیں جو غلام اسحاق خان کو سنانے کیلئے'' ڈکٹیشن‘‘ کے نام سے کی گئی تھی لیکن یہ بات طے ہونی چاہئے کہ اقتدار کی کرسی ہمیشہ عوام کی مرضی سے ہی منتقل ہونی چاہئے نہ کہ اندرونی اور بیرونی کسی بھی طاقت کی زور زبردستی سے۔ آسمان آج بھی پوچھ رہا ہے کہ گیارہ مئی2013ء کو پاکستان کے پولنگ سٹیشنوں کے باہر وہ لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ووٹروں کے ووٹ کدھر گئے؟