سندباد ایک دیو مالائی کہانی ہے۔وہ اپنے دور میں دستیاب ذرائع سے لامحدود سفر کیا کرتا۔ اس کے ہر سفر سے ایک کہانی وابستہ ہے۔ ہمارے رحمن ملک بھی اپنے خطے کے سندباد ہیں۔ انہوں نے بے حد سفر کئے اور ہر سفر کی ایک تحیرخیز کہانی ہے‘ جو وہ منظرعام پر نہیں آنے دیتے۔ گزشتہ روز مصطفی کمال نے بقول بی بی سی‘ سٹار پلس کا ڈرامہ یا پریس کانفرنس کی۔ڈاکٹر فیصل رانجھا نے کہا ''یہ پریس کانفرنس کم‘ سٹارپلس کا ڈرامہ لگ رہا ہے۔ صرف میوزک کی کمی ہے۔‘‘ میوزک سے خالی سٹارپلس کے اس ڈرامے میں‘ مصطفی کمال نے ایک زبردست انکشاف کیا‘ جو رحمن ملک کے سندبادی دوروں کی ایک نامکمل کہانی ہے۔ ان کے پُراسرار دورے‘ بے حد مشہور ہیں۔ بہت سی کہانیوں کی جھلکیاں بھی میڈیا کی زینت بنیں۔ لیکن ملک صاحب اپنے پراسرار دوروں کی اندرونی کہانیاں کبھی منظرعام پر نہیں لائے۔ اگر وہ اپنے ہر سفر کی کہانی لکھنا یا لکھوانا شروع کر دیں‘ تو پاکستانی سیاست کے بہت سے اسرارورموز منظر عام پر آ سکتے ہیں۔ ملک صاحب کی مشکل یہ ہے کہ ان کے ہر سفر کا تعلق پاکستان کی کسی نہ کسی اہم شخصیت کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ ان شخصیات کے بھرم رکھنے کے لئے سختی کے ساتھ ‘رازداری کے پابند رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے‘ وقت آنے پر جب وہ مصطفی کمال کی طرح ‘چلا ہوا کارتوس بن کر رہ جائیں‘ تب یہ راز کھولیں۔ مگر اس وقت تک‘ زمانہ خود ہی بہت سے راز کھول چکا ہو گا۔ ان کے رازوں کا تعلق جناب آصف زرداری‘ جناب الطاف حسین‘ شہید بے نظیر بھٹو جو کہ اس دنیا میں نہیں ہیں اور پاکستان کے ان گنت دیگر لیڈروں سے ہے۔ محترمہ بے نظیر شہید کے بارے میں‘ تو بہت سی کہانیاں منظرعام پر آ چکی ہیں۔ ان کی شہادت سے لے کر‘ سیاسی مذاکرات تک ‘آدھے پونے راز بھی منظرعام پر آگئے ہیں۔
بدنصیبی سے ان میں سے بیشتر رازوں کا تعلق پرویزمشرف اور نوازشریف سے ہے۔ یہ دونوں حضرات‘ ان کے سیاسی مخالفین میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ان کی طرف سے کہانیوں کے جو حصے بھی منظرعام پر لائے جائیں گے‘ ان میں کوئی بھی فریق‘ اپنی سیاسی کوتاہی ظاہر نہیں کرے گا اور جہاں جہاں بے نظیرشہید کی خوبی یا قائدانہ صلاحیتوں کا ذکر آئے گا‘ وہاں متعلقہ لیڈرحقیقت کو چھپا لے گا۔ ہماری قومی تاریخ کی جتنی بھی کہانیاں منظرعام پر لائی گئی ہیں‘ وہ اگر دوسرے فریق کے ذریعے منظرعام پر آئی ہوں‘ تو ہم حقائق کو نہیں جان سکتے۔ اس لئے ہم قومی تاریخ کے انتہائی اہم واقعات کی سچائی سے ہمیشہ بے خبر رہیں گے۔ ہمیں تو ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ 1971ء کے سانحے کے اصل کرداروں کی حقیقت کیا ہے؟ یحییٰ خان‘ پاکستانی قوم کے اس المیے کے خالق ہیں۔ پاکستانی روایت کے عین مطابق ‘وہ اپنے آپ کو کبھی ہماری قومی تاریخ کے عظیم سانحے کا ذمہ دار قرار نہیں دیں گے۔ حالانکہ فیصلہ سازی کا اختیار‘ ان کے ہاتھ میں تھا۔ وہ چاہتے‘ تو انتخابی نتائج قبول کر کے‘ بحران سے نکلنے کے حل کی ذمہ داری ‘منتخب قومی اسمبلی کے سپرد کر دیتے۔ پاکستانی قوم اتنی بانجھ بھی نہیں تھی کہ اس کے منتخب نمائندے‘ اپنے سیاسی بحران کا کوئی نتیجہ خیز حل نہ ڈھونڈ سکتے۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد بھی‘ صورتحال میں ابتری کم نہیں تھی۔
فوجی قیادت بے بس ہو چکی تھی۔ اس کا ایک بہت بڑا حصہ‘ بھارتی قید میں تھا۔ مشرقی پاکستان میں شکست کے بعد‘ فوج اپنے اثرورسوخ سے محروم ہو چکی تھی۔ کسی سیاستدان کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ باقی ماندہ قومی اسمبلی پر اپنے فیصلے نافذ کر سکے۔ یہی صورتحال ‘مجیب اور بھٹو کے دور میں پیدا ہو گئی تھی۔
ان دونوں پر پاکستان کے لئے نئے آئین کی ذمہ داری آ چکی تھی۔ پاکستان کے پاس منتخب نمائندوں کا تیار کردہ کوئی آئین موجود نہیں تھا۔ 1956ء کا آئین مسترد کیا جا چکا تھا اور 1970ء کے بعد کے حالات میں عوام نے‘ آئینی بحران حل کرنے اور مستقبل کی حکومت چلانے کے لئے جو نمائندے منتخب کئے تھے‘ بدقسمتی سے انہیں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا موقع نہیں ملا۔ ورنہ میں آج بھی یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر درمیان میں یحییٰ خان کی ہڈی نہ ہوتی‘ تو مسئلہ حل ہو سکتا تھا۔ بھٹو اور مجیب کے سامنے‘ جب بھی آئینی بحران کا کوئی قابل اتفاق حل آتا‘ تو درمیان میں یحییٰ خان کی ہڈی پھنس جاتی‘ جو ہر نئے آئین میں اپنے لئے کردار مانگتے تھے اور یہ کردار نہ صرف صدر مملکت کا تھا بلکہ ایک بااختیار صدر مملکت۔ ایسی صورت میں ذوالفقار علی بھٹو کے لئے نئے آئین اور نئی حکومت میں کوئی جگہ نہیں نکل رہی تھی۔ یہ ایک ایسا ناقابل عبور راستہ تھا‘ جس پر چلنے کا نتیجہ ‘جنگ تھا یا خانہ جنگی۔مجھے یہ لکھتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے کہ یحییٰ خان کے زیرقیادت فوج‘ بحران کو حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکی تھی۔ فوج کے خلاف مزاحمت کے لئے بنگالی عوام کے مسلح دستے تیار ہو چکے تھے اور اگر بھارتی فوج مداخلت کر کے کنٹرول حاصل نہ کرتی‘ تو ایسی خانہ جنگی ہونا تھی‘ جس میں دونوں طرف سے پاکستانیوں کا خون بہایا جاتا۔ یہ ایک عبرتناک منظرہوتا۔ تاریخ جب اپنے فیصلے کرتی ہے‘ توان سے مفر کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ مشرقی پاکستان کے بحران کا جو تباہ کن انجام سامنے آیا‘ اس سے ہم نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔
سبق حاصل کیا ہوتا‘ تو آج پنجاب کی حکمرانی اور حکمران افراد و طبقات کے طرزعمل کے نتیجے میں‘ ہم جس منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ خدانخواستہ اسی طرح بڑھتے رہے‘ تو پھر اللہ اللہ خیرسلا۔ نے ہاتھ باگ پر ہے‘ نہ پا ہے رکاب میں۔ایم کیو ایم اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے اور الطاف حسین کے بعد‘ سندھ اور کراچی میں امن قائم کرنے کے امکانات ہرگز روشن نہیں۔ ہمارے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خاں کے حوالے سے رحمن ملک کا یہ انکشاف ‘ ہم اہل پاکستان پر لازم کرتا ہے کہ ہم برطانوی حکومت کے شکرگزار ہوں۔ اپنی بات کہنے کے لئے مجھے ادھر ادھر کی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے آگے بڑھنا پڑا اور تھک ہار کے جہاں میں پہنچا ہوں‘ وہ خوفناک خیالات کا ایک جمگھٹا ہے‘ جس میں سے کوئی راہ نکلتی دکھائی نہیں دے رہی اور جو دھندلا سا منظر سامنے آتا ہے‘ اس میں پاکستانی عوام کا بھلا نظر نہیں آ رہا۔ اگر رحمن ملک کے انکشاف کو حقیقت سمجھ کر تسلیم کر لیا جائے‘ تو انہوںنے خیرسگالی پر مبنی ایک سچائی سامنے رکھ دی ہے کہ چوہدری نثار نے ایم کیو ایم کی قیادت کے بارے میں‘ برطانوی حکومت سے کہا کہ الطاف حسین کے بارے میں حقائق کو منظر عام پرنہ لایا جائے۔ اگر یہ ہولناک سچائی سامنے آگئی‘ تو پاکستان میں امن و امان بحال رکھنا محال ہو جائے گا۔ ظاہر ہے‘ اس درخواست کی روشنی میں برطانوی حکومت نے حالات کا تجزیہ کر نے کے بعد‘ جو نتیجہ اخذ کیا ہو گا‘ وہ یہی ہے کہ الطاف حسین اپنے بھرم کے ساتھ زندہ رہیں اور پاکستان بدامنی اور خونریزی سے محفوظ رہ جائے۔ ابھی تک ہم محفوظ چلے آ رہے ہیں۔ گویا پاکستان کے امن کی کنجی‘ برطانیہ کے ہاتھ میں ہے۔برطانوی حکومت کی مہربانی سے اگر ہمیں کچھ عرصے کے لئے ڈگمگاتا ہوا امن حاصل ہو بھی جائے‘ تو وفاقی حکومت پر پنجاب کی بالادستی ہمیں کسی بھی طرف لے جا سکتی ہے۔ نریندر مودی‘ نوازشریف سے اظہار محبت کر کے‘ کیا نشانہ لگانا چاہتے ہیں؟ اقتصادی راہداری سے کون کون سی پگڈنڈیاں‘ کس کس طرف کو نکلیں گی؟ مشرقی پاکستان میں مسلح مداخلت برپا کرنے کے لئے تو طویل تیاریوں کی ضرورت تھی۔ یہاں تیاریوں کی ضرورت ہی نہیں۔ اسلحہ بھی ہر طرف ہے۔ چلانے کے لئے تربیت یافتہ قوتیں بھی دستیاب ہیں۔ پاکستان میں اپنی اپنی حکومتیں قائم کرنے کے لئے‘ بے تاب گروہوں کی بھی کمی نہیں۔ فرقہ پرستانہ عزائم رکھنے والے بھی بہت ہیں۔ ان کے عزائم سے بعض عالمی طاقتوں کے خدشات کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ گزشتہ روز مجھ سے‘ ایک ٹی وی چینل نے دریافت کیا کہ ''پاکستان اور امریکہ کے مابین جو سٹریٹجک ڈائیلاگ ہو رہا ہے‘ اس کے بارے میں میری رائے کیا ہے؟ ‘‘میں نے جواب میں عرض کیا تھا ''ڈائیلاگ پاکستان کر رہا ہے اور سٹریٹجی امریکہ کی ہے۔‘‘