تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     05-03-2016

انسانیت کے لئے آگ چْرانے والا

پرومیتھس (Prometheus) یونانی دیومالا کا ایک انسانیت نواز کردار ہے۔ قدیم یونانی کہانیوں کے مطابق اس نے خداؤں کے منع کرنے کے باوجود جنت سے آ گ چرائی اور انسان کو پیش کر دی مگر خداؤں کے خدا‘ زیوس نے اسے کڑی سزا دی اور ایک گدھ کو اس کا سینہ نوچنے کے کام پر لگا دیا۔ وہ آج تک اس کام پر لگا ہوا ہے۔ ہر منظم مذہب کے ساتھ ایک مائی تھالوجی ترقی پاتی ہے‘ جو اس کا سہارا بنتی ہے۔ میں انتظار حسین (1923-2016ء) کو اردو ادب کا پرومیتھس کہتا ہوں۔ انہیں بھی اپنی مائی تھالوجی سے دلچسپی تھی۔ ان کے افسانوں کے بہت سے کردار دیومالا کی روشنی میں تراشے گئے ہیں؛ تاہم وہ مذہب اور مائی تھالوجی کو الگ الگ رکھتے تھے۔ اکثر لوگ دونوں میں امتیاز نہیں کرتے یا نہیں کرنا چاہتے مگر انتظار حسین کو فرق معلوم تھا۔
میں نے قلم پکڑنا سیکھا تھا۔ انتظار حسین ایک تجربہ کار صحافی اور افسانہ نویس تھے مگر سعادت حسن منٹو کی طرح ادب کو ذریعہ معاش بنانے سے قاصر۔ انہوں نے روزنامہ آفاق میں نوکری کر لی۔ یہ اخبار صنعت کار سعید سہگل نے نکالا تھا اور میر نور احمد‘ جو پنجاب کے محکمہ تعلقات عامہ سے ریٹائر ہوئے تھے‘ اس کے ایڈیٹر تھے۔ ادارہ تحریر میں انتظار حسین‘ علی سفیان آفاقی‘ برہان الدین حسن‘ سردار فضلی اور زکریا ساجد وغیرہ شامل تھے۔ میں سب ایڈیٹر تھا اور رات کی شفٹ میں خبروں کا ترجمہ کرتا تھا۔ انتظار صاحب بچوں کا صفحہ مرتب کرتے تھے اور آخر میں ''چچا جان‘‘ کے الفاظ کے ساتھ سائن آؤٹ کرتے تھے۔ اس بنا پر از راہ تفنن آفاقی صاحب اور کئی دوسرے انہیں چچا جان کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ یہ اخبار گزوں کے حساب سے فروخت ہوتا تھا اس لئے بہترین صحافیوں کی خدمات حاصل ہونے کے باوصف جلد ہی اس کے چراغ ٹمٹمانے لگے اور بالآخر میں نے اسے پیٹرومیکس کی دھندلی روشنی میں پریس جاتے دیکھا۔
عنایت اللہ نے روزنامہ کوہستان چھوڑ کر مشرق نکالا تو انتظار صاحب مشرق میں چلے گئے اور اخبار کا فکاہیہ کالم لکھنے لگے۔ عنایت صاحب کو جوہر قابل کی پہچان تھی اور وہ بڑے ایجاد پسند واقع ہوئے تھے۔ ان کی آمد سے اْردو اخبار نویسی کے سب انداز بدل گئے۔ اس تبدیلی اور ترقی میں انتظار حسین اور دوسرے اخبار نویسوں کا کیا حصہ تھا؟ مجھے معلوم نہیں۔ میں اس وقت روزنامہ امروز میں تھا اور ہم لوگ اپنے اخبار کی ثقاہت پر فخر کرنے کے باوجود مشرق کی بڑھتی ہوئی تعداد اشاعت پر حسد کرتے تھے۔ مجھ سے بہت پہلے انتظار حسین امروز سے وابستہ رہے تھے اور ایڈیٹر چراغ حسن حسرت کے ہمراہ الگ ہو گئے تھے۔
دہلی دروازہ سے رحمٰن پورہ منتقل ہوا تو معلوم ہوا کہ انتظار صاحب بھی وہاں رہائش پذیر ہیں۔ وہ دو یا ڈھائی منزل کے ایک مکان میں کرائے دار تھے جو اس کالونی کے وجود میں آنے سے پہلے بھی اپنی جگہ پر تھا۔ یہ ڈی ٹائپ کالونی تھی جو مہاجروں کے سیلاب کی شدت کم کرنے کے لئے فیروز پور روڈ پر پنجاب کی صوبائی حکومت نے تعمیر کرائی تھی۔ اس محکمے میں محمد آصف خان‘ جو نیم سرکاری پنجابی ادبی اکیڈمی کے سیکرٹری بنے اور بہت سا تحقیقی کام کیا‘ ہیڈ کلرک تھے۔ وہ بے گھر صحافیوں کو چن چن کر اس کالونی میں کوارٹر الاٹ کرتے تھے اور قسطیں وصول کرنے کے لئے انہیں ڈھونڈتے پھرتے تھے۔ بہت سے اخبار والوں کو ٹیپ واٹر کی فراوانی اور فلش سسٹم کی موجودگی بھلی لگتی تھی۔ اس وقت ہر کوارٹر دو کمروں پر مشتمل تھا اور اسے پہلی جرنلسٹ کالونی کہا جا سکتا تھا۔ اے بلاک میں پہلے نمبر پر پاکستان ٹائمز کے خواجہ مشتاق کاشمیری کا گھر تھا‘ اور اس نے بہت سی سرکاری زمین پر قبضہ کر رکھا تھا۔ سرے پر میرا مکان تھا اور سڑک کی زمین پر تسلط جمانے میں‘ میں بھی دوسروں سے کم نہیں تھا۔ بی بلاک میں نوائے وقت کے بشیر احمد ارشد اور کچھ فاصلے پر ریڈیو پاکستان کے ابوالحسن نغمی رہتے تھے۔ نغمی یہاں واشنگٹن کے مضافات میں بھی میرے ہمسائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انتظار حسین نے ''چراغوں کا دھواں‘‘ یا ''جستجو کیا ہے؟‘‘ میں رحمٰن پورہ میں اپنی طویل رہائش کا ذکر نہیں کیا‘ مگر ایک مشترکہ دوست احمد مشتاق کا‘ جو ہیوسٹن ٹیکسس میں رہائش پذیر ہیں‘ استدلال ہے کہ یہ ان کی سوانح عمریاں نہیں تاثرات ہیں جو انہوں نے قلم بند کئے۔
بلند شہر اتر پردیش سے لاہور آتے ہی انتظار حسین کی کہانیوں کا مجموعہ ''گلی کوچے‘‘ شا ئع ہو گیا تھا۔ جنرل محمد ایوب خان کی حکومت قائم ہوئی اور پھر نیشنل پریس ٹرسٹ معرض وجود میں آیا۔ اب امروز اور مشرق‘ دونوں ٹرسٹ کے اخبار تھے۔ میں نے '' ترقی کے عشرے‘‘ کا خیر مقدم کیا مگر انتظار صاحب نے اپنا دامن سیاست سے آلودہ نہ ہونے دیا۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین سے بھی دور رہے‘ جو ادب میں زندگی کے نکھار کے امکانات دیکھتے تھے۔ وہ حلقہ ارباب ذوق کے‘ جو ''ادب برائے ادب‘‘ کا قائل تھا‘ ہر اجلاس میں شریک ہوتے۔ آج دونوں گروپ تتربتر ہو چکے ہیں۔ 1983ء میں نقل وطن کے بعد اہل لاہور سے میرا روزمرہ کا رابطہ کٹ گیا‘ لیکن جستہ جستہ انتظار حسین کو پڑھتا رہا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ اساطیری کرداروں کو نئی زندگی دے رہے ہیں۔ ہر اہل قلم‘ حالات حاضرہ کا جبر محسوس کرتا ہے‘ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ادب اور صحافت ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔
انتظار حسین سے میری ایک روبرو ملاقات 2007ء میں اسلام آبا د میں ہوئی۔ نعیم طاہر‘ علم و فن کے مرکزی ادارے‘ کونسل آف دی آرٹس کے سربراہ تھے اور میں ان سے ملنے گیا تھا۔ نعیم نے کہا: تھوڑی دیر رک جاؤ‘ یہاں ایک ادبی جلسہ ہونے والا ہے‘ لاہور کے دوستوں سے ملاقات ہو جائے گی۔ جلد ہی بہت سے اہل قلم جمع ہو گئے۔ ان میں انتظار حسین بھی تھے۔
اے حمید بستر مرگ پر تھے اور میں تقریباً روزانہ انہیں فون کرتا تھا۔ ایک دن انہوں نے بتایا کہ عطاالحق قاسمی نے آرٹس کونسل میں ان کے اعزاز میں ایک جلسہ کیا‘ جس میں انتظار حسین نے ایک مضمون پڑھا اور کہا کہ بیسویں صدی نے تین رومانی اہل قلم اردو کو دیے؛ ناصر کاظمی‘ منیر نیازی اور اے حمید۔ وہ انتظار کے اس مشاہدے پر بہت خوش تھے۔ جدید اردو ٹیلیوژن نے مرنے کے بعد انتظار حسین کا ایک انٹرویو نشر کیا‘ جس میں وہ بتاتے ہیں کہ ان کی کتاب ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوتی ہے۔ گویا وہ اب بھی ادب کو ذریعہ معاش بنانے کے قابل نہیں تھے۔
سرکاری تحویل میں اخبار نہیں چلتے۔ رفتہ رفتہ امروز اور مشرق دم توڑ گئے۔ میں نے امروز اور انتظار نے مشرق سے ہینڈ شیک وصول کیا۔ اس وقت یہ رقوم خاصی بھاری تھیں‘ مگر لامتناہی نہ تھیں۔ چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں۔ انتظار نے پرومیتھیس کی طرح جنت سے آگ چْرائی اور روزنامہ ڈان کے ذریعے ٹھنڈے ٹھار انسانوں میں زندگی کی حرارت بانٹتے رہے۔ 2013ء میں مجھے اردو ٹیلی وژن سے معلوم ہوا کہ انہیں The Man Booker International Prize کے لئے نامزد کیا گیا ہے۔ بڑی خوشی ہوئی۔ 95 ہزار ڈالر کا یہ برطانوی انعام‘ ادب کے نوبل پرائز کے برابر ہے اور اس میں بین الاقوامی سیاست کی کارفرمائی کم ہوتی ہے۔ بلا تاخیر یہ خبر پروفیسر ستیہ پال آنند تک پہنچائی‘ جو ایک ماہ قبل نیو دہلی کی ایک ادبی تقریب میں انتظار کے ساتھ تھے اور واپسی پر احباب کو اس تقریب کا احوال سنا رہے تھے۔ سن کر کہنے لگے: ''کاش انتظار شارٹ لسٹ ہو جائیں۔‘‘ لسٹ دس اہل قلم پر مشتمل تھی اور اس میں روس‘ امریکہ‘ فرانس‘ کینیڈا‘ سوئٹزرلینڈ اور بھارت کے فکشن رائٹرز بھی شامل تھے۔ یہ ایوارڈ‘ جو ہر دو سال بعد دیا جاتا ہے‘ ایسے قلم کاروں کے لئے کھلا ہے جو انگریزی میں لکھتے ہیں یا جن کی تخلیقات‘ انگریزی میں دستیاب ہیں۔ انتظار حسین کے کم از کم دو ناول‘ نیا گھر اور بستی‘ اور بہت سی کہانیوں کے انگریزی تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں۔
سنتے ہیں کہ ربع صدی تک بند رہنے کے بعد پاک ٹی ہاؤس پھر کھل گیا ہے۔ اس پر انتظار سے زیادہ خوشی کس اہل قلم کو ہو سکتی تھی؟ وہ اسے میٹرو بس کے بعد پنجاب حکومت کا دوسرا بڑا کارنامہ کہتے تھے۔ ایک اخبار میں اپنے کالم ''بندگی نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں: ''یہ ساری خوشی اپنی جگہ اور اس کارنامے پر فخر اپنی جگہ مگر ہم سوچ رہے تھے کہ زمانہ کتنا بدل گیا ہے اور اس کوچے کی شکل کیا سے کیا بن چکی ہے۔ ہم نے لاہور میں اس کوچے میں قدم رکھا تھا اور اس چائے خانے میں‘ جو اس وقت انڈیا ٹی ہاؤس تھا‘ چائے پی تھی مگر جلد ہی ہم نے دیکھا کہ انڈیا ٹی ہاؤس کا بورڈ اتر چکا ہے۔ اب وہ انڈیا ٹی ہاؤس کو تیاگ کر پاک ٹی ہاؤس بن چکا ہے اور حلقہ ارباب ذوق کی ٹولی قیوم نظر کی قیادت میں اتوار کے اتوار حلقے سے نبٹ کر وائی ایم سی اے سے نکلتی ہے۔‘‘
پاک ٹی ہاؤس اور حلقہ ارباب ذوق کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور شاید اسی وجہ سے سراج صاحب کے صاحبزادے زاہد نے تنگ دست ادیبوں کے چائے خانہ کی لیز ایک ٹائر بیچنے والے کے ہاتھ فروخت کر دی تھی۔ اب وزیر اعلیٰ نے ایک معقول مشورے پر اسے دوبارہ کھول دیا ہے مگر کیا وہ اہل قلم کو بورڈ روم میں واپس لا سکیں گے؟ انتظار کے کالم میں اس سوال کا جواب نہیں ملتا۔ شاید اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ زمانہ بقول انتظار حسین ''بدل چکا ہے‘‘ حالانکہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف ایک کہانی بھی لکھ دی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved