پاکستانی ٹیم کوتنکوں کی بکھرتے دیکھنا کبھی بھی خوشگوار تجربہ نہیں رہا، خاص طور پر اُس وقت جب آپ غیر ملکی دوستوں کے درمیان بیٹھے ہوں۔ جب شاہد آفریدی کی ٹیم بنگلہ دیش میں کھیلے جانے والےT20 ایشیا کپ سے باہر ہورہی تھی تو میری خواہش تھی کہ کاش میرے بھارتی اور انگریز دوست کم از کم اس وقت میرے ساتھ بیٹھے ٹی وی نہ دیکھ رہے ہوتے ۔اُس وقت ، میچ کے دوران، احباب میرے ساتھ جس ہمدردی کا اظہار کررہے تھے، اُس سے تو ننگی مذمت یا کھلا مذاق کہیں بہتر اور قابل ِ برداشت ہوتا۔
جب آف سٹمپ سے باہر جاتی ہوئی ایک گیند کے ساتھ حفیظ نے عقل وغیرہ کا بوجھ سر سے اتارتے ہوئے چھیڑ خانی( جو یقینا نامناسب بات ہے) کی اور اس نیم دلی سے کی گئی کوشش میں آئوٹ ہوئے تو ساتھ بیٹھے ہوئے جیمز کے منہ سے نکلا،''اوبری قسمت، بڑے میاں کی‘‘۔ آفریدی نے بہترین فیلڈر کے ہاتھ میں گیند ہونے کے باجود رنز لینے کے لیے دوڑ لگادی اور رن آئوٹ ہوئے تو بھارتی دوست، رینو ، نے کہا،''بے چارا، بہت محنت کی اس نے واپس آنے کی۔‘‘ہمدردی کے بول میرے دل پر نشتروں کی طرح چبھ رہے تھے ، میں بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا اور کم و بیش اتنی ہی تیزی سے ہمارے بلے کریز تک آرہے تھے اور مضحکہ خیز، بلکہ توہین آمیز طریقے سے آئوٹ ہو کر واپس جارہے تھے کہ بچوں کے سر بھی شرم سے جھک جاتے۔ کریز پر مختصر قیام کے دوران جب کبھی کیمرہ اُن کے چہرے کو قریب سے دکھاتا تو اس پر خوف کی جھلک نمایاں نظر آتی۔مبالغہ آرائی نہیں، ان کی باڈی لینگوئج سے اُن کی پریشانی کا واضح اظہار ہوتا تھا ، تو اس دوران میں سوچ رہا تھا کہ میانداد کا شوخ انداز، انضمام کا پراعتماد انداز اور سعید انور کے بلے کی روانی کہا ں چلی گئی؟ہمارے ساتھ کوئی اظہار ہمدردی کرے، اُس کی کیا مجال۔ ہمارے عمران خان، وسیم اکرم اور وقار یونس سے ایک جہاں خائف تھا۔ اب ہمارے پاس صرف محمد عامر ہی ایک حقیقی فاسٹ بالر ہے۔
دل سے آہ نکلتی ہے کہ ہمارا جادوکہاں کھو گیا؟ صرف کرکٹ نہیں،کسی بھی میدان میں تیر بہدف تعویذ کارگر دکھائی نہیں دیتا۔ ماضی میں تو اس تعویذ سے مراد کچھ مقد س الفاظ یا علامات ہوتی ہوں گی لیکن آج کل اس سے مراد خصوصی مہارت اور مشکلات سے نبردآزماہونے کی صلاحیت ہے۔ یہ جادوبھرپور توانائی کا اظہار بھی ہے ۔ مختصر یہ کہ ہر وہ کچھ جس کی موجودہ پاکستان میں کمی ہے۔ کرکٹ کے علاوہ ہم سکواش اور ہاکی کے بھی بے تاج بادشاہ تھے۔ ہماری برج کی ٹیم کا شمار دنیا کی بہترین ٹیموں میں شمار ہوتا تھا۔ ہم نے سنوکر کا عالمی کپ جیتا اور والی بال میں بھی ہم کم از کم ایشیا کی حد تک اچھی ٹیم خیال کیے جاتے تھے۔ میں جانتا ہوں کہ ہر ملک پر کھیلوں کے حوالے سے اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں لیکن ہمارے زوال کا کوئی اختتام دکھائی نہیں دیتا۔ میری ملاقات ایک امریکی سفارت کارسے ہوئی جنہوں نے پاکستان میں بھی
کچھ دیر کے لیے اپنے فرائض سرانجام دیے ہوئے تھے۔ اُنھوں نے قدرے بے تکلفی سے کہا،''کیا ہوگیا ہے آپ لوگوں کو؟ پاکستان تو بہت اچھا جارہا تھا، ہم دوسری ترقی پذیر ممالک کو اس کی مثال دیا کرتے تھے، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ آپ گھٹنوں کے بل زمین پر گرے پڑے ہیں۔‘‘
میرا تعلق پاکستان کی اُس نسل سے ہے جس نے اپنے اداروںکا عروج وزوال اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اگرچہ ہماری موجودہ حالت کی بہت سی وجوہ ہوں گی لیکن میں مجموعی طور پر اس پستی کا ذمہ دارمذہب کے سیاسی اور مالی مقاصد کے لیے استعما ل کو ٹھہراتا ہوں۔ سب سے پہلے ضیا دور میں شدت پسندانہ نظریات کو مالی اور سٹریٹیجک مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی روایت پروان چڑھی۔ جلد ہی ٹی وی سٹوڈیوز سے
لے کر کرکٹ کے پویلینز تک،ہر شعبہ اس کی لپیٹ میں آگیا۔ اب پاکستانی معاشرہ اس نہج تک پہنچ چکا ہے کہ عوامی سطح پر آبادی کنٹرول کرنے کی بات بھی نہیں کی جاسکتی۔ مذہبی عالم کہتے ہیں کہ جتنے بچے ہوں گے، پاکستان اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ گوجرانوالہ کے مزدور، محمد یوسف کے 43 بچے ہیں اور اُن کا ارادہ سنچری پوری کرنے کا ہے۔ صرف یہی ایک میدان ہے جہاں دنیا کا کوئی ملک ہمارا حریف نہیں۔ تیز افزائش میں خرگوش بھی شاید ہی ہمارا مقابلہ کرپائیں۔ مردم شماری کا پتہ نہیں لیکن اندازہ ہے کہ ہماری آبادی دو سوملین کے لگ بھگ ہوگی۔ نوجوان پاکستانیوں کی منہ زور اور تیز رفتار لہر کے لیے ریاست کے پاس نہ تو سکول ہیں اور ہی روزگار کے مواقع۔ جب ہمارے پاس بجلی، گیس اور پانی کی قلت ہوتی ہے تو ہم حکومت کو مورد ِ الزام ٹھہرانے لگتے ہیں، لیکن اس کمی کی اصل وجہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔
بہت سے ترقی پذیر ممالک اپنے ہاں غیر ملکی سیاحت کو فروغ دے کر زر ِمبادلہ کماتے ہیں۔ ا س سے اُن کے ہاں ملازمت کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں اور دنیاریاست کا نرم چہرہ بھی دیکھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ یہ سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ملک ہے۔ تاہم پاکستان میں ہم نے جہادی تنظیموں کو غیر ملکیوں اور اقلیتوں کو ہلاک کرنے کی کھلی چھٹی دی ہوئی ہے۔ چنانچہ دنیا بھر میں پاکستان سیاحت کے لیے جانے والوں کی کتاب میں شامل نہیں۔ سیاحت کے لیے گائیڈ کرنے والے نقشے پر پاکستان کو منزل قرار دینے کی جرأت کون کرے گا۔ گزشتہ کئی برسوں سے مشتعل مذہبی پاکستانیوں کے احتجاجی مظاہروں کی تصاویر نیروبی سے لے کر نیویارک اور میونخ سے لے کر ممبئی تک، ہر اخبار میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ چنانچہ بہت سے غیر ملکیوں کے لیے پاکستان کے مذہبی گروہ طالبان اور داعش کے ساتھ نظریاتی مطابقت رکھتے ہیں۔ درحقیقت پاکستان میں جہادی دہشت گردی کے فروغ کا ہم نے ہمیشہ دفاع کیا ہے۔ ہمارے سرکاری ترجمان اور سفارت کا ر ہمیشہ سے ہی ایسے گروہوں کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں جو افغانستان اور انڈیا میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ ہم ریت میں سرچھپاتے ہوئے غیر ملکی سازش کی تھیوریوں پر یقین کرلیتے ہیں تاکہ کسی اور پر الزام عائد کرسکیں۔
حقائق سے انکار اور پیہم جھوٹ اور دروغ گوئی سے کام لینے سے انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتاہے۔ ہماری تعلیم بھی دیومالائی اور بے بنیاد تصورات کو فروغ دیتی ہے جس میں غیر سائنسی التباسات کو حقائق کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ یہ نوجوانوں کے ذہن میں تجسس اور تحقیق کا جذبہ پیدا نہیں کرتی بلکہ اُسے کچھ اسباق ازبر کراکے لکیر کا فقیر بناتی ہے۔ چنانچہ ہمارے 'ماہرین ‘ اور افرادی قوت کی پست کارکردگی پوری دنیا پر عیاں ہے۔ حقیقت پسند ہوتے ہوئے میں مستقبل قریب میں یہ صورت ِحال تبدیل ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہا۔ تاہم اگر ہم نے تنزلی کے اس سفر کو نہ روکا تو ہمیں نہ کوئی تعویذ بچا سکے گااور نہ ہی آب ِ حیات۔