تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     05-03-2016

عاشق رسول ممتاز حسین قادری شہید کا سفرِ آخرت

فیض احمد فیض نے کہا تھا:
جس دھج سے کوئی مقتل کوگیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ،اس جاں کی تو کوئی بات نہیں 
یہی بات اہلِ عزیمت کے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انداز میں کہی تھی کہ ''ہمارے اور اہل بدعت کے موقف اور مقام کا فرق جنازوں سے واضح ہوجائے گا‘‘۔ منگل یکم مارچ کو جنازے نے فیصلہ کردیا کہ پاکستان کی سرزمین پر چشم فلک نے اس سے بڑا جنازہ شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ کئی کلومیٹرپر پھیلے ہوئے نمازِ جنازہ کے شرکاء کی قطعی تعداد کاصحیح تخمینہ تو دشوار ہوگا ،لیکن اگر کسی اجتماع کوملین قرار دیا جاسکتا ہے تو یہ اجتماع یقینا دو ڈھائی ملین سے کم نہیں ہوگا،جب کہ سب کو معلوم ہے کہ نمازِ جنازہ کی صفوں میں فاصلہ نہیں ہوتا انگریزی محاورے کے مطابق لوگ Neck to Neckکھڑے ہوتے ہیں ۔یہ سب لوگ ملک کے گوشے گوشے سے اپنی قلبی انگیخت ،ایمانی تقاضے اورحُبِّ رسول کے جذبے سے سرشارہوکر آئے تھے ،ہر ایک سے جیسے بن پڑا بے اختیار چل پڑا اور اس سعادت سے فیض یاب ہوا۔لوگوں نے ایسے جنازے میں شرکت کو اپنے لیے وسیلۂ شفاعت ونجات سمجھا۔
میڈیا کی دوعملی بھی عیاں ہوئی اور پہلی بار پیمرا بھی متحرک نظر آیا۔ ہمارے شہسوارانِ صحافت ہمیشہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ ہم تو آئینہ دکھاتے ہیں، جوہے وہ نظر آتا ہے ،اگر کسی کوبرا نظر آئے تو ہمیں کوسنے کے بجائے اُسے اپنا ہی چہرہ نوچ لینا چاہیے ۔ہم کہتے ہیں کہ جو آپ کا دل چاہتاہے، وہ آپ دکھاتے ہیں، میڈیا سراسر کاروبار ہے،اِلّا مَاشَاء اللّٰہ،جسے اللہ تعالیٰ استقامت بخشے اور سچ دکھانے، سچ بیان کرنے اور سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کوئی من چلا شخص بجلی کے پول پر چڑھ جائے تو اس منظر کو25چینل نان سٹاپ لائیو نشر کرتے ہیں ،جب کہ ایک عاشق رسول کا جنازہ ہو تو ان کے کیمرے اندھے بن جاتے ہیں ،ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں اور ان کے قلم ٹوٹ جاتے ہیں،کیا یہ انصاف ہے؟
امام احمدبن حنبل ؒنے اپنے مخالفین کو اہل بدعت سے تعبیر کیا تھا۔ وہ معتزلہ تھے ،جو وحیِ ربانی کو عقل کی سان پر چڑھاکر دین کی من پسند تاویلات کرتے تھے، یہ تاریخ اسلام کے پہلے عقلیت پسند(Rationalist)تھے، آج کل کے لبرل، مادر پدر آزاد، دین بیزار ،تجدد پسند اسلامک اسکالرزاورنام نہاد مفکرین انہی کی معنوی اولاد اور ان کا جدید ایڈیشن ہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اے ایمان والو!غیروں کو اپنا راز دار نہ بنائو ،یہ تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے ،ان کی دلی آرزو تو یہ ہے کہ تمہیں تکلیف میں مبتلا دیکھیں ،بغض تو ان کی باتوں سے عیاں ہوچکا ہے اور جو نفرت وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں ، وہ اس سے کئی درجے زیادہ ہے ‘‘(آل عمران:118)۔ 
عدالت نے قانونی موشگافیوں کا سہارا لیا ۔قانون انسانوں کے لیے ہوتا ہے، انسان قانون کے لیے نہیں ہوتے۔ ہر سانس میں جمہوریت کا راگ الاپنے والے جمہور کے عقائد ونظریات اور جذبات سے کھیل کر لطف اندوز ہوتے ہیں ۔عدالت نے دفاع کے وکلا،جو کہ عدالت عالیہ کے ریٹائرڈ جج تھے،کو پورے طریقے سے سنا ہی نہیں ،نہ ہی ان کے موقف اور دلائل کو فیصلے کا حصہ بنایا، ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ پہلے سے طے تھا۔یہ بات تودہرائی جاتی رہی کہ توہین رسالت نہیں کی، قانون کی توہین کی ہے اور اسے کالا قانون کہاہے۔تو سوال یہ ہے کہ قانون اگر شریعت کے مطابق ہو اور اس کی توہین کی جائے تو یہی تو شریعت کی توہین ہے ،اوراگرقانونِ شریعت تحفظ ناموس رسالت سے متعلق ہو، تو یہ بالواسطہ توہین رسالت نہیں تو اور کیا ہے؟اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور جو شخص ہدایت واضح ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا اور اہل ایمان کی (اِجماعی) راہ کو چھوڑ کر کسی اور راہ پر چل پڑے گا،ہم اُسے اُسی کی اختیار کی ہوئی راہ پر پھیر دیں گے اور اُسے جہنم میں جھونک دیں گے اور وہ نہایت ہی برا ٹھکانا ہے‘‘(النساء:115)۔رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:''اللہ تعالیٰ میری امت کو ضلالت پر جمع نہیں فرمائے گا، اللہ تعالیٰ کا دستِ تائید جماعت کو حاصل ہے ،جو شخص امت کی اجماعی راہ سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا‘‘(سنن ترمذی:2167)۔ آپﷺ نے فرمایا:جو امت کی اجماعی راہ سے الگ ہوا وہ جہنم میں جاگرا‘‘(سنن ابن ماجہ: 395)۔
حکومتِ وقت نے شب خون مارا اور رات ایک بجے ممتاز حسین قادری شہید کی سزائے موت کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ۔کیا کسی دہشت گرد کے ساتھ بھی ایسا سلوک روا رکھا گیا ہے؟یہ ان حکمرانوں کی بدنصیبی ہے اور انہوں نے اس کا ارتکاب کر کے اپنے زوال کی پہلی اینٹ خود ہی رکھ دی ہے ۔کیا علامہ محمد اقبال اور قائدِ اعظم محمد علی جناح جب غازی علم الدین شہید کا مقدمہ لڑ رہے تھے ، تو وہ ایک قاتل اور دہشت گرد کا مقدمہ لڑ رہے تھے یا عشقِ رسول ؐکا ، کیا وہ جذباتی اور مذہبی جنونی تھے یا انہیں محبتِ رسول ؐکے جذبے نے یہ سعادت بخشی؟ جج نے تو وہاں بھی قانون کی آڑ لی تھی اور انصاف کو قتل کردیا تھا۔ یہاں میں یہ بات بھی ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کے نمائندوں نے بعض علمائے اہلسنت سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ممتاز حسین قادری کو سزائے موت نہیں دی جائے گی اور ہم اس معاملے کو معرضِ التواء میں ڈال دیں گے ،لیکن اُن کا یہ قول و قرار بھی جھوٹ ثابت ہوا۔ حکمرانوں سے ہمارا سوال ہے کہ اہانتِ رسول اللہ ﷺ پر جن مجرموں کو سزائے موت ہوئی ہے ، کیا اِن میں جرأ ت ہے کہ انہیں بھی تختہ دار پر لٹکائیں ۔ایک عاشق رسول کو تو امریکہ واہلِ مغرب اور ملک کے اندر اُن کے ایجنٹوں کو خوش کرنے کے لیے تختۂ دار پر لٹکادیا ،لیکن کیا اِن میں ہمت ہے کہ گستاخانِ رسول کو بھی اُن کے عبرت ناک انجام سے دوچار کریں ۔ اسی طرح سپریم کورٹ آف پاکستان سے ہر پاکستانی مسلمان کا یہ سوال ہے کہ ہماری نام نہاد آزاد عدلیہ آسیہ مسیح کے کیس کو انجام تک کیوں نہیں پہنچارہی ،اُسے کون سا خوف لاحق ہے اور کس کی خوشنودی مطلوب ہے ،تاریخ کا یہ سوال اُن پر قرض ہے اور اُنہیں سوچنا چاہیے کہ تاریخ انہیں کس طبقے میں شمار کرے گی؟جب توہینِ عدالت کا ڈراوا بھی ختم ہوجائے گا اور یہ لوگ عوام کے درمیان آئیں گے تو انہیں پتا چلے گا کہ عاشقانِ رسول ﷺ انہیں کس نظر سے دیکھتے ہیں ۔
تقریباً ڈھائی ملین کا اجتماع اگر بے قابو ہوجاتا یا بپھر جاتایا اُن کے جذبات کو مشتعل کیا جاتا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ صورتِ حال کیا رُخ اختیار کرتی اور نہ جانے کتنی جانوں اور املاک کا نقصان ہوجاتا اور شر پسند اس میں گھس کر گھیرا ئو جلائو اور لوٹ مار کا بازار گرم کردیتے ۔اکابرِ اہلسنت نے دینِ حق اسلام مسلکِ حق اَہْلُ السُّنَّۃ وَالْجماعۃ اور پاکستان کے بہترین مفاد میں نہ صرف اپنے جذبات کو قابو میں رکھا بلکہ عوام کو بھی برابر صبر کی تلقین کرتے رہے ۔ہم مسلسل امن وامان کی اپیل کرتے رہے ،ہمارے بیانات سوشل میڈیا پر آج بھی موجود ہیں ،قومی اور نجی املاک کی حرمتوں کی حفاظت کی تاکید کرتے رہے ،ہم اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہیں اور لاکھوں شرکائے جنازہ کے شکر گزار ہیں کہ اُن کے تعاون کے طفیل اللہ تعالیٰ نے ہمیں امن وامان کے قیام میں سرخرو فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت اور اس کے حبیبِ مکرمﷺ کے وسیلے سے ہم نہایت پر امن طریقے سے جنازے اور تدفین کے مراحل کو انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔مختلف مکاتبِ فکر اور طبقات کے جو عمائدین نمازِ جنازہ میںشریک ہوئے ،ہم اُن سب کے شکر گزار ہیں۔راولپنڈی کے اہلِ دل اور اہلِ ثروت نے اپنی استطاعت کے مطابق شرکائِ جنازہ کی خدمت کی اور انہیں سہولتیں فراہم کیں ،ہم اُن سب کے بھی شکر گزار ہیں اور یہ اُن کے لیے بھی سعادت کی بات ہے، کیونکہ انہوں نے یہ سب کچھ حضور ﷺ کی محبت میں کیا ۔ 
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ غازی ممتاز حسین قادری شہید رحمہ اللہ تعالیٰ کے درجات کو اپنی بارگاہ میں بلند فرمائے ،رسول اللہ ﷺ کی ناموس کی حفاظت کے لیے جو قربانی انہوں نے پیش کی ،اُسے بارگاہِ رسالت میں شرفِ قبولیت نصیب ہو ۔مرحوم کے اعزّا واقربا اور تمام دکھی علماء ومشائخ وعوام اہلسنت اور جملہ اہلِ اسلام کو صبرِ جمیل نصیب فرمائے اور اس پر انہیں اجر عطا فرمائے۔
ممتاز قادری کا شمار تو صحابہ کرام اور بعد کے ادوار کی اُن عظیم ہستیوں کی صف میں ہوگا جو ناموس رسالت ﷺ پر قربان ہوکر شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے اور جنہوں نے وقتاً فوقتاً شاتمانِ رسول کو اُن کے عبرت ناک انجام سے دوچار کیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved