بہت سی باتیں ہیں جو آفاقی نوعیت رکھتی ہیں یعنی ہر خطے میں اور ہر زبان کے بولنے والوں میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً شوق کے ہاتھوں مجبور ہوکر کچھ بھی کر گزرنا۔ اِسی لیے کہتے ہیں شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی یعنی جو بھی قیمت ادا کی جائے، کم ہے۔ شاعر لاکھ سمجھاتا رہے کہ ؎
چھوڑ دے ساری دنیا کسی کے لیے
یہ مناسب نہیں آدمی کے لیے
مگر جنہیں شوق کے دریا میں ڈبکیاں لگانے بلکہ ڈوب مرنے کا شوق ہو وہ شعر کی شکل میں کی جانے والی کسی بھی نصیحت کی کب پروا کرتے ہیں۔
شوق کے ہاتھوں مجبور ہوجانے کی انسانی خصلت کو اگر اِس دنیا میں کسی نے سمجھا ہے تو صرف مارکیٹنگ والوں نے۔ اور جب سے یہ نفسیاتی معاملہ اُن کی سمجھ میں آیا ہے، انہوں نے قیامت سی ڈھا رکھی ہے۔ ساری کی ساری ایڈورٹائزنگ اِسی ایک نکتے کے گرد گھوم رہی ہے یعنی آتشِ شوق کو بھڑکاتے رہیے! اور جب ایڈورٹائزنگ کے ذریعے ایک بار گراؤنڈ تیار کردیا جائے تو پھر کسی بھی چیز کی ''کھڑکی توڑ ہفتہ‘‘ ٹائپ کی مارکیٹنگ کو بھرپور کامیابی کی منزل تک پہنچنے سے کون روک سکتا ہے! کسی کو جدید ترین ماڈل کے موبائل فون استعمال کرنے کا چسکا لگ جائے تو سمجھیے اُس کے پیسوں کی کھٹیا کو وقفے وقفے سے کھڑی ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا! اِس معاملے میں ہم نے اپنے دفتری ساتھی بھائی زاہد کو بہت ہی ثابت قدم پایا ہے۔ اگر ایسی ثابت قدمی تمام پاکستانیوں کو نصیب ہو تو ہم آن کی آن میں امریکہ کو بھی پچھاڑ دیں! موصوف دیگر معاملات میں بھلے ہی زاہدِ خشک ہوں یا رہے ہوں مگر جدید ترین ماڈل کے موبائل فون خریدنے کے معاملے میں وہ نِرے ''زاہدِ تَر‘‘ واقع ہوئے ہیں! جس طرح کوئی ماڈل کسی کی زندگی میں زیادہ نہیں ٹِکتی اُسی طور بھائی زاہد کے پاس بھی کوئی ماڈل ایک ماہ سے زیادہ نہیں ٹِکتا! جس طرح کوئی لیلیٰ مزاج لڑکی اپنی مرضی کے مجنوں کا ساتھ پاتے ہی ظالم سماج کی دیوار گِراکر بھاگ نکلتی ہے بالکل اُسی طور بھائی زاہد کے زیرِ استعمال موبائل فون بھی نیا ماڈل آتے ہی پتلی گلی سے نکل لیتا ہے! اور اگر وہ جانے کا نام نہ لے رہا ہو تو بھائی زاہد خود اُسے داخلِ دفتر کردیتے ہیں یعنی دفتر ہی میں کسی کو بیچ کر سکون کا سانس لیتے ہوئے کسی نو وارد ماڈل (یعنی موبائل فون) کی طرف بڑھ جاتے ہیں!
بات جب شوق کی آجائے تو انسان کچھ بھی کر گزرتا ہے، سود و زیاں کے چکر میں نہیں پڑتا۔ یعنی جب اوکھلی میں سَر دے دیا تو مُوسل سے کیا ڈرنا! معاملہ شوق کا ہو یا پیار، انسان یہ کہاں دیکھتا ہے کہ دل و نظر پر کیا گزرے گی، جیب پر کیا بیتے گی! ؎
جب چلے پڑے سفر کو تو کیا مُڑ کے دیکھنا
دنیا کا کیا ہے، اُس نے صدا بار بار دی!
شوق کے معاملے میں مرد بھی کم نہیں مگر خواتین کا معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ ملبوسات، زیورات اور میک اپ ... اِن تین معاملات میں خواتین کی نفسیات سے کھیلنا دکانداروں، تشہیر کے فن سے وابستہ افراد اور مارکیٹنگ والوں کو خوب آتا ہے۔
ہم ایک زمانے سے اپنے اپارٹمنٹ کے نیچے واقع کوئٹہ و پشین سے تعلق رکھنے والے پٹھانوں کے مشہورِ زمانہ ''چائے پراٹھا‘‘ ہوٹل سے مستفید ہوتے آئے ہیں۔ اپنے بیشتر کالموں کی تیاری ہم نے اِسی ہوٹل کے باہر بچھی ہوئی میز کرسی پر کی ہے۔ دفتر سے رات ڈھائی تین بجے واپسی کے بعد اِس ہوٹل کے نیچے قدرے پُرسکون ماحول میں بیٹھ کر کالم کے لیے نوٹس تیار کرنے کا اپنا مزا ہے۔
مگر صاحب، اِس ہوٹل میں اور بھی بہت سے مزے ہیں۔ اِس سے پہلے کہ آپ ہماری بات کا کوئی غلط مطلب لیں، عرض کیے دیتے ہیں کہ یہاں کچھ کھاتے وقت پیٹ کے ساتھ ساتھ دل و دماغ کو بھی تسکین پہنچتی ہے۔ جہاں چائے اور پراٹھا تیار کیا جاتا ہے وہیں اوپر ایک پنجرہ لٹکا رہتا ہے۔ اِس پنجرے میں ''کینری‘‘ چہکتا رہتا ہے اور گاہک اُس کی چہکار سُنتے ہوئے کھانے میں کچھ الگ ہی قسم کا مزا پاتے ہیں۔ بہت سے گاہک کینری کی چہکار میں ایسے گم ہو جاتے ہیں کہ پراٹھے اور چائے میں رہ جانے والی کسر کا بھی کچھ خیال نہیں رہتا!
پرندے معصوم ہوتے ہیں اور اُن کی قدر و قیمت سے واقف ہونے کے معاملے میں ''معصوم‘‘ ہیں! یقین جانیے، ہمیں کچھ زیادہ معلوم نہیں کہ کون سا پرندہ کتنے میں بکتا ہے۔ ہمیں تو بس اتنا معلوم ہے کہ کبھی ہم بھی اڑانیں بھرا کرتے تھے مگر حالات نے ہمارے پَر اِس حد تک کتر دیئے ہیں کہ اُڑنا خیال و خواب ہوا، اب زمین پر چل لیں تو بڑی بات ہے!
کراچی میں آسٹریلوی طوطے بہت مقبول ہیں۔ اور اِن کی قیمت سُن کر ہم کبھی کبھی اپنے آپ سے بھی شرمندہ ہوئے ہیں! گزشتہ دنوں ایک صاحب نے چائے اور پراٹھے کے نشے میں چُور ہوکر ہوٹل کے مالک سے غنچہ دہن، شیریں سخن کینری کی قیمت پوچھ لی۔ جو قیمت بتائی گئی اُسے سن کر پوچھنے والے کا کیا حال ہوا یہ ہم نہیں جانتے مگر ہاں، ہمارے دل و نظر پر قیامت سی گزر گئی۔ قیمت تھی آٹھ ہزار! آسٹریلوی طوطوں کی قیمت سُن کر ہم صرف شرمندہ ہوا کرتے تھے، کینری کی قیمت سُن کر تو واقعی ڈوب کرنے کو جی چاہا۔ خیال آیا کہ جس میں چائے پی رہے ہیں اُس پیالی ہی میں کوئی طوفان اُٹھادیں! مگر پھر کچھ سوچ کر چپکے بیٹھے رہے۔
ہمیں یقین نہ آیا کہ خان صاحب اِتنے مہنگا شوق پال سکتے ہیں۔ پھر خیال آیا یہ خان صاحب ہیں، کچھ بھی کرسکتے ہیں! خان تو خیر ہم بھی ہیں مگر اللہ نے دانائی کے دو چار قطرے ہمارے دماغ کی کٹوری میں ٹپکا دیئے ہیں اِس لیے ہم نے کبھی ذرا سے پرندے کے لیے آٹھ دس ہزار ٹھکانے لگانے کا نہیں سوچا! آپ سوچیں گے شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ ٹھیک ہے، مگر محنت کی کمائی کی تو بہرحال کچھ قیمت ہوتی ہے یا!
کینری کی قیمت سن کر ہم نے چائے کی پیالی ہونٹوں سے ہٹائی اور میز پر رکھ کر دونوں ہاتھوں سے پہلے (اپنا) سَر اور پھر (اپنا ہی) دل تھام لیا! چند لمحات کے بعد حواس کی ترتیب بحال ہوئی تو ہم نے پارو سے کہا ایک ذرا سے پرندے کی اِتنی قیمت؟ پارو نے ہماری بات سُنی تو کینری ہی کی طرح چہک کر جواب دیا: ''غور سے سُنو میرا بھائی۔ یہ کینری ہے کینری۔ کوئی انسان نہیں ہے کہ ٹکے ٹکے میں بِک جائے!‘‘
پارو کی بات سن کر ہم دم بخود بلکہ ''دم پُخت‘‘ رہ گئے، جیسے کسی نے کوئلوں پر بُھون دیا ہو! پارو نے ایک جملے میں پراٹھے کے توے پر انسان کی توقیر کا گھوٹالا بنا ڈالا! تُف ہے اکیسویں صدی پر کہ انسان ایک کینری کے برابر بھی نہ تُل پائے!
ایک گاہک نے پنجرے میں بند کینری کی طرف اشارا کرتے ہوئے پوچھا : ''یہ نَر ہے یا مادہ؟‘‘ اس سوال کا جواب بھی پارو ہی نے دیا اور اس کے پیار بھرے جواب نے ہم پر ایک بہت بڑی حقیقت آشکار کردی۔ پارو نے کہا: ''کینری کا نَر پنجرے میں اکیلا ہو تو چہکتا رہتا ہے۔ جب مادہ مل جاتی ہے یعنی جوڑا مکمل ہو جاتا ہے تو نَر کی چونچ بند ہوجاتی ہے اور کبھی کبھار ہی چہکتا ہے۔‘‘ یعنی چہکار سُنیے تو کسی سے پوچھے بغیر سمجھ لیجیے کہ نَر کینری کا دیدار نصیب ہو رہا ہے!
یہ جواب سن کر ہم اِس نتیجے پر پہنچے کہ انسانوں کی دنیا ہو یا پرندوں کی، دونوں ہی دُنیاؤں کے نَر ایک پیج پر ہیں! جب تک اکیلے ہوتے ہیں کچھ نہ کچھ بولتے رہتے ہیں، چہکتے پھرتے ہیں۔ اور جیسے ہی مادہ ملتی ہے یعنی جوڑا مکمل ہوتا ہے اور گھر بستا ہے، بے چارے نَر گھر چلانے کی فکر میں غلطاں ہوکر ساری چہکار بھول جاتے ہیں! گویا ع
دونوں طرف ہے آگ برابر ''بجھی‘‘ ہوئی!
ہم نے کم از کم ایک معاملے میں کینری اور خود کو ایک پیج پر دیکھ کر سُکون کا سانس لیا۔ سکون کا سانس لینے کے لیے ہمارے پاس اب ایسے ہی دو چار معاملات اور مواقع رہ گئے ہیں!