نہ کوئی رن بنایا‘ نہ کوئی وکٹ لی۔ نہ کسی کو رن آئوٹ کیا۔ شاباش شاہد آفریدی! کیسے اکڑتے ہوئے بیان دیا کہ ''جمعے کے میچ میں خود اعتمادی نے ہی ہمیں فتح یاب کرایا۔ ہم نے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ بہت زیادہ تبدیلیوں کی کوشش نہیں کی۔ ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے ہم ابتدائی چھ اوورز میں وکٹیں اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔ ‘‘ انہوں نے سلیکٹرز کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ''انہوں نے ہر پلیئر کو بھرپور موقع فراہم کر کے‘ بہت اچھا کام کیا۔ میں آسانی سے ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہوں۔ درست ہے کہ حالات سخت ہیں۔ لیکن پراعتماد ہوں کہ یہی پلیئر بہتر نتائج دیں گے۔‘‘ کیا شاندار پلیئر ہیں کہ توہین آمیز انداز میں ایشیاکپ سے باہر ہونے کے بعد‘ انہیں یاد آیا کہ وہ تو بولنگ اور بیٹنگ کرنے آئے تھے۔ پھر ایشیا کپ سے باہر ہونے کی ضرورت کیا تھی؟ شاندار کارکردگی کا مظاہرہ اس وقت کرتے‘ جب آپ ٹورنامنٹ کے اندر موجود تھے اور یہی میچ جو آپ نے اپنی فاتحانہ شکست پر مہر لگاتے ہوئے جیتا ہے اگر وقت پر جیت لیتے‘ تو آپ کا کیا جاتا؟ شاہد آفریدی‘ پاکستان کے واحد کھلاڑی ہیں‘ جنہوں نے کرکٹ سے کروڑوں روپے کمائے۔ کرکٹ سے زیادہ کمائی‘ انہوں نے ماڈلنگ سے کی اور جو شہرت انہیں کرکٹ نے دی‘ اس کے بل بوتے پر جو کچھ انہوں نے حاصل کیا‘ وہ بے مثال ہے۔ پاکستان میں کرکٹ کے پہلے کپتان‘ عبدالحفیظ کاردار تھے۔ انہوں نے ہماری ٹیم منظم کی اور اپنے دور کے بہترین کھلاڑیوں کے مقابلے میں‘ پاکستانی لڑکوں کو میدان میں اتار کے ثابت کر دیا کہ پاکستانی قوم بہترین صلاحیتوں کی مالک ہے۔ اپنے زمانے کے عالمی شہرت یافتہ بھارتی کھلاڑیوں کو لکھنو ٹیسٹ میں شکست دے کر‘ ساری دنیا کے سپورٹس ماہرین کو متوجہ کر لیا اور کرکٹ کی دنیا کے سارے ماہرین‘ نئے ملک کی نئی کرکٹ ٹیم کی طرف متوجہ ہو گئے اور پھر اس نے اوول میں انگلش ٹیم کو ہرا کر‘ اپنا نام دنیا کی صف اول کی ٹیموں میں درج کرا لیا۔
نجم سیٹھی کی کرکٹ ٹیم کو ٹی ٹونٹی کے ٹورنامنٹ میں چار میچ کھیلنا تھے۔ ان میں پاکستان اگر ایک میچ جیت لیتا‘ تو ورلڈ کپ میں رہ سکتا تھا۔ لیکن وہ ایک میچ جسے جیت کر ہم ورلڈ کپ میں آ سکتے تھے اگر کھیل کا معیار یہی رہتا‘ تو ہو سکتا ہے فائنل میں پہنچ کر ہار جاتے۔ لیکن یہ تو کہہ سکتے تھے کہ ہم نے فائنل کھیلا۔ مگر افسوس کہ کھلاڑیوں نے ٹھان رکھی تھی کہ وہ کوئی پوزیشن لے کر نہیں جائیں گے اور جب ہم کچھ نہ کرنے کی ٹھان لیں‘ تو پھر کچھ کر کے بھی دکھا دیتے ہیں۔ جیسے ہم نے ایشیا کپ میں سری لنکا کو ہرا دیا ۔ہم جیت کر گھر واپس آ گئے۔اب ہمارے کھلاڑی فخر سے کہا کریں گے کہ ہم نے ایشیا کپ میں سری لنکا کو ہرا دیا۔ یہ کوئی نہیں بتائے گا کہ سری لنکا کو ہرا کے ہم ایشیا کپ سے باہر ہو گئے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنی ٹیم کی کارکردگی یا عدم کارکردگی کی وجوہ جاننے کے لئے ایک پانچ رکنی کمیٹی مقرر کر دی ہے۔ نجم سیٹھی کی طرح اس کے سربراہ بھی ایک صحافی شکیل شیخ ہیں۔ وہ دو سابق کپتانوں‘ یونس خان اور مصباح الحق کو سامنے بٹھا کر ‘انہیں کرکٹ کے بارے میں ابتدائی معلومات سے آگاہ کریں گے تاکہ کمیٹی کے اراکین‘ ان کی ہدایات کی روشنی میں فیصلے کر سکیں۔ ان میں بھی دو کرکٹ کے کھلاڑی ہیں جبکہ باقی تنخواہ دار اور بورڈ کے مراعات یافتہ۔ دوسرے لفظوں میں کمیٹی میں بورڈ سے مالی فوائد حاصل کرنے والے اراکین شامل ہیںاور یہ اسی کے بتائے ہوئے فیصلے پر عملدرآمد کرے گی۔ ہمارے ہاں کمیٹیوں کا رواج ہی اس لئے ڈالا گیا کہ جو کام نہ کرنا ہو‘ اس پر کمیٹی بنا دی جائے اور ویسے بھی ٹورنامنٹ میں شکست کے بعد ٹیم کی عدم کارکردگی کا جائزہ ہی لیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ہم خرم منظور کو زبردست خراج تحسین پیش کر سکتے ہیں کہ اس نے ٹیم کی ناکامی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی پر بھی اچھی کارکردگی کی تہمت نہیں لگائی جا سکتی۔ وہ ہمارے بہترین کھلاڑی ہیں اور وقت پر تیزرفتاری سے رنز بھی بنا سکتے ہیں۔ بالنگ بھی بہت اچھی کرتے ہیں۔ مگر ان کے صبر کا بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ انہوں نے اس میچ میں جو ہمیں فائنل تک پہنچا سکتا تھا‘ کوئی کارکردگی دکھانے کی غلطی نہیں کی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بورڈ کو ایک اور کمیٹی قائم کرنے کا موقع مل گیا۔ خبر میں نمایاں طور سے بتایا گیا ہے کہ خرم منظور کے علاوہ محمدسمیع اور انور علی کو آرام دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک طرح سے اعتراف ہے کہ یہ کھلاڑی کھیلتے کھیلتے تھک گئے ہیں۔ انہیں آرام دیا گیا ہے تاکہ آنے والے میچوں میں اپنی کارکردگی دہرا سکیں۔ ایک مبصر نے اپنی
کمنٹری میں دعویٰ کیا تھا کہ یہ آخری میچ ‘ جسے جیتنے کا کوئی فائدہ نہیں‘ پاکستان جیت جائے گا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ ٹورنامنٹ کے باقی میچ ٹیم نے ملک کے لئے کھیلے ہیں۔ اگر ٹیم ہار بھی جائے‘ تو پاکستان کا کیا بگڑے گا؟ اور اگر جیت گئے تو ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟ لہٰذا جو میچ پہلے کھیلے گئے‘ ان کی ہار جیت کا نفع نقصان کھلاڑیوں کو نہیں تھا۔ میچ فیس ہار جیت دونوں صورتوں میں ملنا ہوتی ہے۔ سفری اخراجات پورے کرنا بورڈ کے ذمے ہے۔ میچ فیس میں کمی بیشی نہیں ہوتی‘ جو بہرحال مل کے رہتی ہے۔آخری میچ میں کھلاڑیوں کے لئے آئندہ کے مواقع ہیں۔ ورلڈ کپ ہونے والا ہے۔ اس میں شریک ہونے والوں کا انتخاب ابھی کیا جانا ہے۔ اگر وہ آخری میچ میں اچھا کھیل کر‘ سری لنکا پر فتح حاصل کر لیں‘ تو ورلڈ کپ میں جانے کا موقع مل جائے گا۔ لہٰذا یہ تھا وہ جذبہ‘ جس کے تحت کھلاڑیوں نے بڑی محنت سے میچ میں حصہ لیا۔ جن کھلاڑیوں نے اچھا کھیل پیش کیا‘ ورلڈ کپ میں جانے کے لئے انہیں مواقع ملنے میں آسانی رہے گی۔آج ہماری ٹیم واپس آ رہی ہے۔ لیکن ہمارے لئے کیا لے کر آ رہی ہے؟ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے پاس آخری میچ کی فتح کا تمغہ ہے۔ لیکن وہ تو کپ لینے گئے تھے۔ انہیں مقابلہ کرنا تھا بھارت کا‘ جس کا ہماری ٹیم کو دوسری مرتبہ چانس ملا۔ ہمارے کہنہ مشق کھلاڑیوں نے اس موقع کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ بھارت کو فتح سے ہمکنار کر دیا۔ شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ بہتری کا یہ سلسلہ جاری رہا‘ تو ٹیم کی فتوحات کا سفر شروع ہو جائے گا۔ وہ فتوحات کونسی ہیں‘ جن کے سفر کا سلسلہ ٹوٹا ہے؟ اور اب پھر شروع ہونے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ کپتان صاحب کو یاد کرانا پڑے گا کہ ایشیا کپ کے ٹورنامنٹ میں وہ بری طرح سے ناکام ہو کر‘ وطن واپس آ رہے ہیں۔ فتوحات کے جس سلسلے کی وہ نوید سنا رہے ہیں‘ اس کا تو وجود ہی نہیں۔ مناسب ہو گا کم از کم شاہد آفریدی اب ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیں۔ ایسا نہ ہو کہ ان سے تنگ آئے ہوئے شائقین گرائونڈ میں گھس کر انہیں کندھوں پر بٹھائیں اور گرائونڈ سے باہر کھڑا کر کے‘ ہار پہناتے ہوئے درخواست کریں ''حضور والا! بہت ہو چکی۔ اب پاکستان کے گناہ معاف کر دیں۔ پاکستان نے آپ کو بہت کچھ دیا اور آپ نے ہمیں بھارت سے دوشکستیں دلوا کر‘ نیا ریکارڈ قائم کردیا‘ جسے آئندہ توڑنا مشکل ہو گا۔‘‘ کم از کم میری خواہش یہی ہے کہ ہم اس ریکارڈ کو توڑنے کے بجائے‘ ایک نیاریکارڈ قائم کریں۔ جس میں یکے بعد دیگرے بھارت کو دو شکستیں دی گئی ہوں۔