عمران خان ٹھیک کہتے ہیں کہ بھیک مانگنے والا کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتا اور کسی نے ہار مان لی تو ہار اس کا مقدّر ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ حکومت کی ہار ہے اور قرض کی مے پینے کا نتیجہ۔ آئی ایم ایف کے سامنے کشکول پھیلا کر ہر چار چھ ماہ بعد قرض مانگنے والی حکومت نجکاری سے انکار نہیں کرسکتی۔
پی آئی اے اس حال کو اپنے طور پر نہیں پہنچی ۔ شاندار ماضی کے حامل ادارہ کو عظمت رفتہ سے روشناس کرایا جا سکتا ہے‘ مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ‘ جس کی یہ حکومت عادی نہیں۔ گزشتہ روز میں معروف صحافی اورصحافیوں کے استادالاساتذہ الطاف حسن قریشی کے مشہور زمانہ انٹرویوز پر مبنی کتاب''ملاقاتیں کیا کیا‘‘ پڑھ رہا تھا۔ اپنے زمانے کے منفرد اور مقبول انٹرویونگار الطاف حسن قریشی کے یہ انٹرویوز ان کے ماہانہ جریدے میں شائع ہوئے اور ایک زمانے سے داد پائی۔ فرخ سہیل گوئندی نے اپنے اپنے شعبے کی 23سربر آوردہ شخصیات سے الطاف حسن قریشی کی ملاقاتوں اور بات چیت کو کتابی شکل دے کر نوجوان نسل کو شاہ فیصل‘ سلیمان ڈیمرل‘ شیخ مجیب الرحمن‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ ایئر مارشل اصغر خان‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ چودھری محمد علی‘ مولوی تمیز الدین خان اور کئی دیگر سے روشناس کرایا ‘ایک زمانے میں جن کا ڈنکا بجتا تھا اور لوگ جن کے افکار و خیالات جاننے کے لیے بے تاب رہتے تھے۔
الطاف صاحب نے انٹرویو کی صنف میں ایک نیا اسلوب متعارف کرایا اور یہ اُن کا اعزاز تھا کہ ماہانہ جریدے میں شائع ہونے والے انٹرویوز قومی اخبارات کی شہ سرخی بنتے اور لوگ اگلے پرچے کا انتظار کرتے۔ الطاف صاحب کے تجزیے بھی قابل مطالعہ ہوتے اور ان سے اتفاق و اختلاف کے کئی پہلو نکلتے ۔کسی ماہ نامہ کے مدیر اور اس کے تجزیوں کو پاکستان میں شائد ہی ایسی پذیرائی ملی ہو جو الطاف حسن قریشی کے حصے میں آئی۔
ایئر مارشل اصغر خان سے کیے گئے انٹرویو میں الطاف صاحب نے ایک واقعہ نقل کیا ہے''ایئر مارشل اصغر خان کے بھائی بریگیڈیئر افضل خان کا ڈیری فارم ہے جو عرصہ سے پی آئی اے کو کچھ چیزیں فراہم کرتا تھا۔ جب ایئر مارشل صاحب نے پی آئی اے کا چارج سنبھالا تو پہلا کام یہ کیا کہ اپنے دستخطوں سے بھائی کو خط لکھا کہ آج کے بعد آپ کی فرم کا پی آئی اے اور شہری ہوا بازی کے محکمے سے کوئی کاروباری لین دین نہیں ہونا چاہیے‘‘یہ ان دنوں کی بات ہے جب صرف پی آئی اے نہیں ہمارا ہر ادارہ ترقی کی راہوں پر گامزن تھا‘ صنعتی شعبے میں ہم آگے بڑھ رہے تھے اتنے زیادہ آگے کہ جنوبی کوریا جیسے ممالک ہمارے پانچسالہ ترقیاتی منصوبے کی نقل کرتے‘ تعلیمی و طبی ادارے شاندار تھے‘ کرکٹ‘ سکواش اور ہاکی میں ہماری ٹیموں پر رشک کیا جاتا اور سبز پاسپورٹ کی عزت ہر ایئر پورٹ پر ہوتی تھی۔
جب پی آئی اے کا سربراہ ایماندار ‘ مستعد‘ محتسب‘ اقربا پروری سے متنفر اور اپنے پرائے کی تمیز سے بیگانہ تھا تو ادارہ کے ماٹو ''باکمال لوگ‘ لاجواب پرواز‘‘ کو لوگ محض خوش نما سلوگن نہیں ‘ادارے کے حسن کارکردگی کا مظہر سمجھتے تھے مگر جونہی حکمرانوں نے دیگر اداروں کی طرح اسے بھی اپنی چراگاہ بنا لیا ‘ من پسند افراد کی بھرتیوں اور وسائل کی خورد برد کو پیدائشی حق جانا ‘پرواز میں کوتاہی آئی۔ معیار میں پستی کا کسی نے سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا اورکوئی نااہلی‘ نالائقی اورلوٹ مار کا نوٹس لینے والا رہا نہ ایئر مارشل نور خان اور ایئر مارشل اصغر خان کے مقرر کردہ معیار کو برقرار رکھنے کا روادار تو یہ قومی ادارہ اس حال کو پہنچا کہ حکومت نجکاری میں عافیت محسوس کرنے لگی۔ حکمرانوں اور ان کے چیلوں چانٹوں میں سے کسی کو دلچسپی ہے نہ اہلیت کہ ان میں سے کوئی جا کر عمر رسیدہ ایئر مارشل سے بحالی کے گُر سیکھے اور قومی اثاثے کوڑیوں کے بھائو بیچنے کے بجائے اسے ایک بار پھر منافع بخش ادارہ بنا دے ۔خواجہ سعد رفیق یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ انہوں نے ریل کا پہیہ ایک بار پھر چالو کر دیا تو ریلوے کے مقابلے میں بہتر پوزیشن کے ادارے کی بحالی میں کیا رکاوٹ ہے؟
کہنے کو سینیٹ ایوان بالا ہے مگر حکمران طبقے کی نظرمیں اس کی اہمیت کا اندازہ نجکاری بل مسترد کرنے کے باوجود حکومت کی ہٹ دھرمی سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں محض عددی اکثریت کی بنا پر ایک ایسا بل منظور کرانا چاہتی ہے‘ جس کی مخالفت ایوان کے اندر اور باہر ہر سطح پر کی جا رہی ہے۔ ایک طرف حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کا کام کاروبار کرنا نہیں مگر دوسری طرف ایک نئی ایئر لائن قائم کی جا رہی ہے جو پی آئی اے کے اثاثوں اور ساکھ پر عیش کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ نئی ایئر لائن کو طیارے دیے جا سکتے ہیں تو پی آئی اے کو کیوں نہیں؟ اور حکومت نئی ائیر لائن اپنے بھائی بندوں کے ساتھ مل کر چلا سکتی ہے تو پی آئی اے نے کیا قصور کیا ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ ان اداروں کو بحال کرنے‘ خسارے کو منافع میں بدلنے کے لیے نیت اور عزم دونوں مفقود ہیں۔ مسائل اور مشکلات کے سامنے ہار مان کر تو کوئی شخص کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ آئی ایم ایف کو انکار کی جرأت کسی کشکول بردار کو نہیں ہو سکتی جبکہ اگلی قسط کا لالچ بھی ہو۔ ملک میں اہلِ لوگوں کی کمی ہے نہ ایماندار افراد کا کال پڑا ہے۔ آخر نجی ایئر لائنز چلانے والے بھی تو پاکستانی ہیں جو منافع میں جا رہی ہیں اور نئی ایئر لائن کو چلانے کے لیے بھی امریکہ اور برطانیہ سے لوگ درآمد نہیں کئے جائیں گے ۔ سب جانتے ہیں کہ اربوں روپے ماہانہ کا خسارہ ضرورت سے زیادہ ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کے سبب نہیں‘ وسیع پیمانے پر خوردبُرد‘ حکومتی مداخلت‘ نااہلی‘ اقربا پروری اور دوست نوازی کی بنا پر ہے جس کی روک تھام پر کوئی تیار نہیں۔روک تھام کیوں کرے۔ جہاں کرپٹ افراد کے خلاف نیب فعال ہو تواوپر سے نیچے تک ہاہاکار مچ جاتی ہے‘ اعلیٰ ترین عہدیدار دھمکیوں پر اُتر آتے ہیں‘ وہاں لوٹ مار بڑھ سکتی ہے کم نہیں ہو سکتی۔
ہمارے موجودہ حکمران ترکی سے خاصے متاثر ہیں اور لاہور کو انقرہ و استنبول میں بدلنے کے لیے ہر روز کوئی نہ کوئی نیا کھڑاک کرتے رہتے ہیں مگرانہیں کسی نے بتایا نہیں کہ جو حالت ان دنوں پی آئی اے‘ سٹیل ملز اور حکومتی ملکیت میں چلنے والے دیگر اداروں کی ہے‘ اس سے کہیں بدتر ترکی نام سے مشہور ریاست کی تھی۔ دس لاکھ ترکی لیرا ایک ڈالر کے برابر تھا اور ترکی کی جہاز ران کمپنیوں کے علاوہ ایئر لائنز کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کسی روز اس کے بحری و ہوائی جہاز کسی ملک میں روک لیے جائیں گے مگر حکومت نے ہار نہیںمانی۔عظمت رفتہ کے حصول کے لیے خون پسینہ ایک کر دیا۔بالآخر طیب اردوان اپنے عزم کے سہارے جیت گئے۔ آج تین ترکی لیرے ایک ڈالر کے برابر ہیں جبکہ ترک حکومت اسے ایک ڈالر کے برابر لانے کے لیے کوشاں ہے۔ ایران نے بھی مشکل ترین حالات کا مقابلہ کیا مگر عالمی اداروں کے سامنے جھکنے کے باوجود اپنی قومی خود مختاری اور عزت نفس کا سودا نہیں کیا۔ آج ایرانی معیشت سنبھل رہی ہے جبکہ ہم نے دو درجن قومی ادارے سیل پر لگا رکھے ہیں؛ حالانکہ ان کی بہتری کے علاوہ ٹیکسوں کی وصولی‘ کرپشن اور اقربا پروری کی روک تھام اور نمود و نمائش کے کلچر کی حوصلہ شکنی سے ہم اپنے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں ۔
قائد اعظم ؒ تو خیر صرف ایک ہی تھا۔ کوئی ان کا ثانی کہاں؟ہماری موجودہ قیادت میں تو کوئی ایئر مارشل اصغر خان بھی نہیں جس کی امانت ' دیانت اور فرض شناسی نے پہلے پاکستان ایئر فورس اور پھر پاکستان ایئر لائنز کو دنیا کے سامنے ایک قابل فخر و لائق رشک نمونہ بنا کر ثابت کیا کہ اس قوم میں جوہر قابل کی کمی ہے نہ یہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اداروں کی تعمیر سے غافل ہے ع
ذرا نم ہو تویہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
الطاف حسن قریشی نے ''ملاقاتیں کیا کیا‘‘ میں نامور شخصیات کے باطن میں جھانکا‘ ان کے خیالات کو کھنگالا اور انہیں اپنی خوبیوں سمیت قارئین کی عدالت میں پیش کر دیا۔ انٹرویو میں خاکے کا امتزاج ان ملاقاتوں اور باتوں کو قابل مطالعہ بناتا ہے اور آج بھی یہ قاری کو متاثر کرتے ہیں۔ یہی الطاف صاحب کا کمال ہے۔