تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     06-03-2016

دو بڑے جھٹکے

گزشتہ ہفتے پاکستانی سماج اور سیاست کو دو بڑے جھٹکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک تو یہ کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر مرحوم کے قاتل ممتاز حسین قادری کو پھانسی دے دی گئی۔ ان کا مقدمہ کم و بیش پانچ سال مختلف عدالتوں میں زیر سماعت رہا۔ انہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی، جو سپریم کورٹ تک برقرار رہی۔ صدرِ مملکت سے رحم کی اپیل کی گئی، لیکن انہوں نے بھی اسے مسترد کر دیا۔ ممتاز قادری کے وکلاء کا استدلال تھا کہ انہوں نے اشتعال میں آ کر اقدام کیا، اِس لیے انتہائی سزا کے مستحق نہیں ہیں۔ ان کے حامی سابق گورنر کے غیر محتاط اندازِ بیان کو موضوع بناتے رہے۔ ان کا کہنا تھا (اور ہے) کہ ممتاز قادری نے انہیں توہین رسالت کا مرتکب جان کر اُن کی جان لی۔ یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ ممتاز قادری کے اقدام کے پیچھے ان کا بے پناہ جذبہ ٔ حب رسول ؐ تھا، اور اس کا ثمر انہیں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مل سکتا ہے... لیکن قانون کی عدالت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مرحوم گورنر نے توہین رسالت کے مروجہ قانون کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ وہ اس میں ترمیم کی وکالت کر رہے تھے اور یہ بات زور دے کر کہہ رہے تھے کہ اس قانون کے کسی بے گناہ کے خلاف استعمال کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ اگر شکایت کنندہ اپنا الزام ثابت نہ کر سکے تو پھر اسے توہین رسالت کا مرتکب قرار دے کر اُس کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے، جو وہ اپنے ملزم کے ساتھ کرنا(یا کرانا) چاہتا تھا۔ سلمان تاثیر اس حساس اور نازک معاملے کی تحقیقات کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی چاہتے تھے۔ ان کی بات سے اختلاف کیا جا سکتا تھا، ان کے دلائل رد کیے جا سکتے تھے، اور موجودہ قانون کو برقرار رکھنے کے حوالے سے پُرزور موقف اختیار کیا جا سکتا تھا، لیکن انہیں توہین رسالتؐ کا مرتکب بہرحال قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔ چہ جائیکہ ان کی حفاظت پر مامور شخص خود ہی مدعی، خود ہی منصف اور خود ہی جلاد بن جائے۔ایک مقدمہ قائم کرے، اس کا اپنے حق میں فیصلہ سنائے، اور پھر اپنے ملزم کو تختۂ دار پر لٹکا دے۔
ممتاز حسین قادری کو پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ آناً فاناً ہوا، رات کی تاریکی میں ان کے ورثا سے ان کی ملاقات کرائی گئی، اور علی الصبح جلاد نے اپنا کام دکھا دیا۔ اس غیر معمولی عجلت پر تنقید کی جا سکتی ہے، اور اسے نامناسب کہا جا سکتا ہے، لیکن انتظامیہ نے ان کی آخری رسومات میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ ان کی میت کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا گیا جس کا مستحق ذوالفقار علی بھٹو یا اکبر بگٹی صاحبان کو گردانا گیا تھا کہ اپنی مرضی کے چند افراد کو جمع کر کے ان کی تدفین کر ڈالی گئی تھی۔ممتاز قادری کے جنازے میں مُلک بھر سے ان کے مداحین نے شرکت کی، اور انہیں اپنی آرزوئوں کے مطابق الوداع کہا۔ لیاقت باغ راولپنڈی میں ادا کی جانے والی نمازِ جنازہ کا اجتماع یقینا پاکستانی تاریخ کے چند بڑے اجتماعات میں سے تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ توہین رسالت ؐ کے معاملے میں اسلامیان پاکستان کس قدر حساس ہیں، اور جہاں اس کا شائبہ بھی گزرے، وہاں ان کے لئے جذبات کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کی نظریاتی توانائی کے اعتبار سے یہ ایک اچھی خبر ہے۔حب ِ رسولؐ کی متاع کو کام میں لاتے ہوئے ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل اسلام کے ابدی اصولوں کے مطابق بآسانی کر سکتے ہیں کہ محبت کا نتیجہ اطاعت کی صورت میں نہ نکلے، تو اس کے لیے اپنا وجود ثابت کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔
ممتاز حسین قادری صاحب کے مقدمے اور جنازے کے حوالے سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے بحیثیت مجموعی احتیاط کا مظاہرہ کیا، اور جذبات کو اشتعال دلانے کے بجائے انہیں سرد رکھنے کی کوشش کی، لیکن سوشل میڈیا پر مختلف مکاتب فکر آپس میں ٹکراتے رہے۔بعض عناصر جلوس نکال کر میڈیا اداروں پر حملے بھی کر گزرے۔ کسی کا دِل دکھائے بغیر یہ ضرور عرض کیا جانا چاہئے کہ کوئی معاشرہ اُس وقت تک اسلامی تو کیا انسانی ہونے کا دعویدار بھی نہیں ہو سکتا، جب تک وہاں انسانی جان کی حرمت کو اولین حیثیت نہ دی جائے۔ایک دوسرے کو کچوکے لگانے کے بجائے،ایک دوسرے کو زندہ رہنے کا حق دینا ہی ہر شہری کے مفاد میں ہے۔ پاکستان میں الحمد للہ ابھی تک ایسی انتہا پسندی غالب نہیں آ سکی کہ اندھا دھند ایک دوسرے کے خلاف اقدامات پر تالیاں بجائی جائیں۔ اہل ِ دین و دانش اور اہل سیاست کو بہر قیمت قانون کا احترام کرنا، اور قانون کی عدالت کے ذریعے معاملات کو طے کرنے کے عزم پر کار بند رہنا ہو گا۔اگر ہر شخص(یا گروہ) اپنی اپنی عدالت لگا کر اپنے اپنے مجرموں کو سزا دینے پراصرار کرے گا، تو اس کے نتیجے میں جو آگ لگے گی وہ بہت کچھ جلا کر راکھ کر دے گی۔
ممتاز حسین قادری کے متوالوں میں آج بعض بڑے بڑے نام بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ افسوس یہ کہ انہوں نے سلمان تاثیر کے ورثا سے رابطہ کر کے معاملے کو سلجھانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ بعض حضرات نے مجھ سے رابطہ کیا تو مَیں نے یہ تجویز اُن کے سامنے رکھی تھی، اس پر عمل کر لیا جاتا تو معاشرے کو تقسیم سے بچانے کی موثر کوشش کی جا سکتی تھی۔سلمان تاثیر اور ممتاز قادری کا معاملہ اب اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہے، وہی نیتوں کا حال جانتا ہے اور اس کا اجر دینے پر قادر ہے، ہم میں سے کسی کو بھی خدائی معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی طفلانہ حرکت نہیں کرنی چاہئے۔
ممتاز قادری کے سفر آخرت کے چند ہی روز بعد کراچی کے سابق ناظم مصطفی کمال اپنے ایک رفیق انیس قائم خانی کے ساتھ کراچی لوٹ آئے۔ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے بیرون مُلک مقیم تھے، اور اپنی جماعت سے اپنا رابطہ منقطع کئے ہوئے تھے۔انہوں نے آتے ہی ایک دھماکہ خیز پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔اس میں جناب الطاف حسین پر واضح طور پر الزام لگایا کہ وہ''را‘‘ سے فنڈنگ لیتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے رہنمائوں سے سکاٹ لینڈ یارڈ کی تفتیش کے دور ان یہ ساری تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔ اس سے کئی کیسٹیں بھری گئی ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ الطاف حسین کے حکم پر ایم کیو ایم کے سرکردہ افراد نے رحمن ملک کو اس ساری صورت حال پر اعتماد میں لیا تھا۔ مصطفی کمال کا یہ بھی الزام ہے کہ رحمن ملک ایم کیو ایم کے رازوں کے بھیدی ہو کر اُسے اپنی مرضی کے مطابق چلاتے رہے ہیں۔ ان ہی نے برطانوی حکام کو یہ باور کرایا کہ الطاف حسین کے خلاف کسی کارروائی کے نتیجے میں پاکستان کی کمزور جمہوریت کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا، اِس لئے ایسے کسی اقدام سے گریز کیا جائے۔ مصطفی کمال نے یہ بھی کہا کہ الطاف حسین شراب کے نشے میں دھت اُوٹ پٹانگ احکامات دیتے، اور اپنے رفقا کی توہین کرتے رہتے ہیں۔ کراچی سے فطرانے اور چندے وصول کر کے دُنیا بھر میں جائیدادیں خریدی گئی ہیں۔ ایم کیو ایم کے بعض رہنمائوں نے اس کی تردید کی، لیکن مصطفی کمال نے جو کچھ کہا ہے محض ایک تردیدی بیان سے اُس کی تغلیط نہیں ہو سکتی۔ اس کی جامع اور مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے کہ پاکستانی ریاست کو اگر اپنے آپ کو بچانا ہے تو ماضی کی غلطیوں سے گریز ہی نہیں کرنا ہو گا، ان کا حساب کر کے ایسے اقدامات بھی کرنا ہوں گے، جن میں کسی شخص، گروہ یا جماعت کو دیدہ دلیریوں کا نہ موقع مل سکے، نہ جسارت ہو سکے۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved