تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     06-03-2016

شہباز شریف اور الطاف حسین خوف زدہ کیوں ہیں؟

پنجاب حکومت معصوم ہے اور الطاف حسین بھی۔ فاروق ستار نے فرمایا: مصطفی کمال کے عائد کردہ الزامات لغو‘جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔ عجیب بات ہے کہ اس کے باوجود وہ خوف زدہ ہیں۔ صحافیوں نے کہا: شہباز شریف ڈرے ہوئے دکھائی دیئے۔ ایک اخبار کا دعویٰ ہے کہ الطاف حسین کے کمرے سے چیخوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ کیا یہ پاکبازفرطِ مسرت سے ہراساں ہیں؟
خوف سے آدمی آزمایا جاتا ہے۔ یہ قدرت کاملہ کے ابدی اصولوں میں سے ایک ہے۔ بھوک سے، خوف سے، جان اور مال کی بربادی سے۔ 
خادم پنجاب یہ کہتے ہیں کہ ایک پائی کی کرپشن اگر ثابت ہو جائے تو اقتدار سے وہ الگ ہو جائیں گے۔ چند دن قبل ارشاد فرمایا تھا، ہماری حکومت میں کوئی کرپٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے ساتھ ہی نیب پر برہمی کا اظہار۔ آنجناب نے کہا ہے کہ وہ تو خود احتساب کے قابل ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ اس کے بھید اگر کھول دیئے گئے تو شدید شرمندگی کا سامنا ان لوگوں کو کرنا ہو گا۔ بجا ارشاد ، بجا ارشاد! لیکن پھر ایک سوال ہے ‘آپ کا دامن اگر دامن مریم ہے تو واویلا کیوں ۔ ایک خادم پنجاب ہی نہیں، برادرِ بزرگ نے بھی فریاد کی کہ نیب کے افسر گھروں میں گھس جاتے ہیں۔ اہلِ دربار بھی دکھی ہیں۔ پرسوں پرلے روز فیصل آباد کے دلاور جناب شیر علی نے شور برپا کیا کہ نیب والوں کی بازپرس ہونی چاہیے۔ یہ وہی جناب ہیں، چیخ چیخ کر جنہوں نے کہا تھا کہ خادمِ پنجاب کے دست راست رانا ثناء اللہ خان درجن بھر بے گناہوں کو قتل کرا چکے۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا‘ رانا مشہود، وہی وڈیو والے، حمزہ شہباز اور مریم نواز کا مذاق اڑانے اور اپنا حصہ طلب کرنے والے رانا مشہود بھی بلّی کو للکار رہے ہیں۔
رانا صاحب کے خلاف کارروائی روک دی گئی ہے یا شواہد نہیں 
ملے؟ بعض کا دعویٰ ہے کہ یوتھ فیسٹول یعنی سالِ گزشتہ نوجوانوں کے میلے پر اٹھنے والے اخراجات کے سلسلے میں حمزہ شہباز سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ افواہ یہ تھی کہ شہزادے کو نظربند کر دیا گیا ۔ یہ تو خیرغلط نکلی۔ بہرحال، سب اچھا ہر گز نہیں۔ نندی پور‘ راولپنڈی اسلام آباد کی میٹرو اور پھر اورنج لائن ٹرین۔ آخرالذکر کے بارے میں وزیر اعلیٰ کا فرمان ہے کہ بیس سال میں اس پر فقط آٹھ ارب روپے ادا کرنا ہوں گے۔ 160ارب روپے کا منصوبہ ہے۔ آٹھ ارب کیوں؟ اس اجمال کی تفصیل وہ بیان کرتے۔ کیا ان کا مطلب یہ ہے کہ 3.75فیصد سالانہ کی شرح سے 160ارب پر فقط اتنا ہی سود واجب الادا ہو گا۔ تواصل زر؟مشتاق یوسفی کا وہی جملہ :کذب تین طرح کے ہوتے ہیں۔ جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار۔ ممکن ہے وزیر اعلیٰ ٹھیک کہہ رہے ہوں مگر وہ پوری بات کیوں نہیں بتاتے؟
کہا کہ اورنج لائن کے حوالے سے صحت اور تعلیم کو ترجیح دینے پہ اصرار کیوں ہے۔ بہت بھاری رقوم ان شعبوں کے لیے مختص ہیں۔ کون سی بھاری رقوم جناب والا؟ بے حد مجبور لوگوں کے سوا اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں کوئی داخل نہیں کراتا۔ اساتذہ کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں شرح خواندگی پہلی بار گر گئی۔ ایک چوتھائی سکولوں میں پینے کا پانی میسر نہیں۔ بعض میں بیت الخلا نہیں۔ اکثر میں اساتذہ کم ہیں۔ گھوسٹ سکول اس کے سوا ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ صرف قصور کے ضلع میں سینکڑوں کی تعداد میں۔ جو رقم ان اداروں پر، مستقبل کے معماروں پہ صرف ہونی چاہیے، وہ اس ٹرین پر لگائی جا رہی ہے، جس کا کبھی کسی نے مطالبہ نہ کیا تھا‘ جس طرح کہ 
اسلام آباد راولپنڈی میٹرو کا متقاضی کوئی نہ تھا۔
جڑواں شہروں میں اول تو پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہی موجود نہ تھا۔ ہر پانچ منٹ کے بعد مری روڈ پر منی بس مہیا تھی۔ واران بس سروس اس کے سوا تھی، جو سرکار کے بے رحمانہ رویے کی نذر ہو گئی۔ مستزاد یہ الزام کہ اخراجات امرتسر میں ایسی ہی میٹرو کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں۔ اورنج لائن کے بارے میں اپوزیشن کا دعویٰ یہ ہے کہ جکارتہ میںاسی ہنگام تعمیر ہونے والی لوکل ریلوے کا تخمینہ، لاہور سے نواں حصہ ہے۔ ممکن ہے کہ یہ سب جھوٹ ہو اور داستان آرائی۔ سوال صرف یہ ہے کہ نیب کی تحقیقات پہ اعتراض کیوں ہے؟ ایک پائی کی کرپشن آپ نے کی نہیں، پھر اپنی بے گناہی کا سرٹیفکیٹ کیوں نہیں لیتے؟
فرمایا کہ چین نے قرض ٹرین ہی کے لیے جاری کیا، صحت اور بجلی پہ کیونکر صرف کریں۔ حکومت چین نے کیا آپ کو مجبور کیا کہ ٹرین کی پٹڑی اگر نہ بچھائو گے تو تعلقات توڑ ڈالیں گے۔ آپ نے التجاکی تو انہوں نے قرض دیا۔پانی کے لیے آپ نے مانگا ہوتا۔ انہیں بتایا ہوتا کہ کروڑوں زندگیاں خطرے میںہیں۔ فقط چالیس ارب روپے سے پورے پاکستان کا تحفظ ممکن ہے کہ اسی فیصد بیماریاں آلودہ پانی سے ہوتی ہیں۔ سمندروں سے گہری، پہاڑوں سے اونچی اور شہد سے میٹھی دوستی ہے۔ وہ کیا انکار کردیتے؟ پھر یہ کہ ٹرین اگر ایسی ہی ضروری تھی تو پرویز الٰہی دور کا منصوبہ کیوں منسوخ فرمایا۔ اس پر تو سود کی شرح 0.25 فیصد تھی، 2012ء تک مکمل ہو چکی ہوتی۔ چوہدری پرویز الٰہی اگر سچے ہیں تو عملاً ایک دھیلا بھی واپس نہ کرنا پڑتا۔ تعمیر کرنے والے خود ہی بناتے خود ہی چلاتے اور بیس برس تک خود ہی کرایہ وصول کیا کرتے۔ اس کے بعد وہ پاکستان کی مِلکیت ہوتی۔ پرویز الٰہی اگر غلط کہتے ہیں تو تردید فرمائیے۔ تمام تفصیلات ایک ویب سائٹ پر ڈال دیجیے۔ خلقِ خدا کو فیصلہ کرنے دیجیے۔ نیب کو دھونس کیوں؟ وہ بھی اس ادارے کو جس کے چیئرمین کا تقرر، دونوں پاک صاف پارٹیوں نے اتفاق رائے سے کیا تھا۔ دورکی کوڑی سرکاری اخبار نویس لائے ہیں کہ بس کی گانٹھ فوجی افسر ہیں، سبکدوش فوجی افسر جو ادارے سے وابستہ ہیں۔ اب ایک اور سوال ہے۔ کیا وہ کہانیاں گھڑ رہے ہیں؟ جعل سازی کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کچا چٹھہ کھول دیا جائے۔ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ شرمسار وہ ہوں گے بلکہ ناکام و نامراد۔ آپ کی تو واہ واہ ہو جائے گی۔ آپ گھبراتے کیوں ہیں؟ ع
پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے
بتانے والے نے بتایا، بہت دن کی بات نہیں کہ پنجاب کے آئی جی اور سیکرٹری داخلہ راولپنڈی طلب کیے گئے۔ خصوصی ہوائی جہاز میں سوار ہو کر وہ پہنچے۔ ان سے پوچھا گیا کہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں خفیہ معلومات کی بنیاد پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا جو منصوبہ تھا، قبل از وقت وہ طشت ازبام کیوں کر دیا گیا ؟ آئیں بائیں شائیں۔
ساڑھے آٹھ بجے صبح، راولپنڈی کے ہوائی اڈے کا قصد کیا کہ کراچی پہنچنا تھا۔ ہفتے کا دن، سرکاری دفاتر اور سکول بند، اس کے باوجود ہوائی اڈہ روڈ پر بیس منٹ ٹریفک کا اژدہام۔ لاہور میں یہی ہوتا ہے۔ اسلام آباد کی بڑی شاہراہ پر اکثر یہی۔ ایک ہی سڑک اور ایک ہی شہر کا کیا ذکر، ہر بستی میں ، ہر کوچے میں، شہریوں کو دو گنا وقت مسافت میں صرف پڑتا ہے۔ یہ ہے خادم پنجاب کی مثالی حکومت۔ ٹریفک پولیس کو متحرک کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ ہسپتالوں میں مریض بے حال۔ تھانوں میں شہری اذیت اور رسوائی سے دوچار۔ ہسپتالوں میں مریض بے حال۔ 
روات کے عقب سے راولپنڈی سے کوہ مری اور پشاور کے موڑ کی طرف دو سڑکیں تعمیر کر دی جائیں تو ٹریفک پولیس غیر معمولی سرگرمی نہ بھی دکھائے تو دارالحکومت میں شہریوں کا عذاب ختم ہو جائے۔ لطیفہ یہ ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد صرف دو شہر ہیں، جہاں دوسرے علاقوں کو جانے والی ٹریفک مرکزی شاہراہوں پر سے گزرتی ہے۔ معمول کے کام جو لوگ انجام نہیں دے سکتے، تاریخ ساز کارنامے انجام دینے پر کیوں مصر ہیں؟ سعد رفیق مزاحم ہو گئے وگرنہ سینکڑوں ارب روپے مظفر آباد، راولپنڈی ریلوے کے لیے مختص ہو چکے ہوتے۔ بر سبیل تذکرہ، یہ ایل ڈی اے سٹی کی زمینوں کا کیا قصہ ہے؟ ایل ڈی اے کے ایک اشتہار میں خواجہ کی کمپنی کا نام کیوں تھا؟
پنجاب حکومت معصوم ہے اور الطاف حسین بھی۔ فاروق ستار نے فرمایا: مصطفی کمال کے عاید کردہ الزامات لغو،جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔ عجیب بات ہے کہ اس کے باوجود وہ خوف زدہ ہیں۔ صحافیوں نے کہا: شہباز شریف ڈرے ہوئے دکھائی دیئے۔ ایک اخبار کا دعویٰ ہے کہ الطاف حسین کے کمرے سے چیخوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ کیا یہ پاکباز فرطِ مسرت سے ہراساں ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved