تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     06-03-2016

یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے

میڈیا متحد اور یکسو ہے اور قوم تقسیم ہے۔ بول والے معاملے کے بعد میڈیا دوسری بار ممتاز قادری کے مسئلے پر اس طرح اکٹھا ہوا ہے جیسے اسمبلی میں تنخواہ اور مراعات میں اضافے کے بل پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف قوم تقسیم ہے اور اس شدت سے کہ حیرانی ہوتی ہے، آیا یہ وہی قوم ہے جس کے لیے اعتدال کی نوید سنائی گئی تھی؟ جھوٹ اور تاویلات ‘دلائل کی جگہ صرف اور صرف فتوے؟ اللہ کی کتاب کہتی ہے کہ ''جو ہلاک ہوا وہ دلیل سے ہلاک ہوا‘ اور جو زندہ رہا وہ بھی دلیل سے۔‘‘ ہم میں کتنے ہیں جو کتاب اللہ کی پیروی کرتے ہیں؟ ادھر حال یہ ہے کہ سب کچھ ہے مگر ایک دلیل ہی درمیان میں نہیں۔
سوشل میڈیا کی بھی پوچھیں۔ جنت اور دوزخ کی پرچیاں تقسیم ہو رہی ہیں۔ کفر و شہادت سے کم پر بات نہیں ہو رہی۔ جنازے کی تکبیروں کی تعداد پر بحث ہو رہی ہے۔ جنازے کے شرکاء کی تعداد کو معیار حق بنانے والوں سے پوچھیں کہ جناب عثمان غنیؓ کے جنازے کے شرکاء کی تعداد کیا تھی تو نوے پچانوے فیصد کو تو یہ بھی پتہ نہیں ہو گا کہ یہ تعداد ہزاروں یا سینکڑوں چھوڑ، درجنوں میں بھی نہیں تھی۔ محض ایک درجن کے لگ بھگ۔ اندھیرے میں جنازہ اٹھایا گیا اور جنت البقیع کے راستے میں جنازے کے پیچھے پیچھے حضرت بی بی نائلہؓ لالٹین اٹھائے ہوئے اس طرح چل رہی تھیں کہ لالٹین کی روشنی دور سے نظر آتی تھی اس لیے بجھا دی گئی۔ ہمراہ ام المومنین حضرت بی بی عائشہؓ،غلام مروان‘ زید ابن ثابت‘ ابن جبیر حکیم بن حزام اور ابن مکرم کے علاوہ چھ سات دیگر صحابہؓ۔ فلک نے اس کسمپرسی کا سا جنازہ کب دیکھا ہو گا؟ دفن کے وقت ایک اور تنازع۔ شرپسندوں کا اصرار کہ تدفین جنت البقیع میں نہیں ہو سکتی؛ چنانچہ جنت البقیع کے باہر یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ عشروں بعد یہ قبرستان اموی حکمرانوں نے درمیانی دیوار ہٹا کر جنت البقیع میں شامل کیا۔ کون بدبخت ہو گا جو سیدنا حسین کی شہادت پر سوال اٹھائے؟ جنت میں نوجوانوں کے سردار‘ نواسہ رسولؐ کی نمازہ جنازہ اسد قبیلے والوں نے پڑھائی اور دیگر شہدائے کربلا کے ہمراہ دفن کر دیا۔ سیدالشہدا حضرت حسینؓ کی قبر کی نشانی کے لیے سرہانے ایک پودا لگا دیا گیا اور بس۔ جنت میں ایسا مرتبہ کس کا ہو گا؟ اور ایسا شہید کون ہو گا؟
ممتاز قادری کا عمل اور سنت‘ کم از کم اس عاجز کے نزدیک تو قابل فخر ہے کہ اگر میں یہ بھی نہ کروں تو خود کو ایمان کے نچلے ترین درجے سے بھی خارج سمجھوں گا۔ ہاں طریقہ کار پر اختلاف ہو سکتا ہے کہ فرد کو عدالت اپنے ہاتھ میں نہیں لینی چاہیے تھی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ممتاز قادری کا موازنہ غازی علم دین شہید سے کرنا بھی درست نہیں لیکن دوسری طرف یہ عالم ہے کہ مجھے ایک پوسٹ ملی ہے جس میں راقم نے سلمان تاثیر کو ان لوگوں میں شامل کر دیا جن کی موت دراصل ان کے ہمیشہ زندہ رہنے کا سبب بن گئی‘ اور ان کے قاتلوں کو تاریخ نے حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔ اس نے اپنے مضمون میں سلمان تاثیر کی ''شہادت‘‘ کا موازنہ سب سے پہلے 400 سال قبل مسیح میں زہر کا پیالہ 
پینے والے سقراط سے کیا‘ پھر 1600 عیسوی میں جلا کر مار دیے جانے والے Giordano Bruno سے کیا‘ پھر 1886ء میں قتل ہونے والے امریکی صدر ابراہام لنکن سے کرتے ہوئے مان ولکنربوتھ نامی قاتل کے گمنامی میں مرنے کا ذکر کیا‘ اور آخر میں گاندھی کے قاتل گوڈسے کا تذکرہ کرتے ہوئے نتیجہ یہ نکالا کہ تاریخ نے قاتلوں کو نہیں بلکہ ان عظیم شخصیات کو یاد رکھا۔ اسی طرح پاکستان کی لبرل اور اعتدال پسندی پر مبنی تاریخ سلمان تاثیر کو یاد رکھے گی۔
ایمانداری کی بات ہے کہ سلمان تاثیر کے قتل کی ذمہ داری جہاں خود سلمان تاثیر پر عائد ہوتی ہے، وہیں ان نام نہاد لبرلز اور اعتدال پسندوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو آزادی اور لبرلزم کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اکثریت کے تہذیبی اور مذہبی جذبات کا مذاق اڑانا‘ ان کو کچوکے لگانا‘ نازک معاملات پر باقاعدہ اشتعال انگیز جملے کسنا اور پھر لوگوں کو تحمل کی تلقین کرنا اور عدم برداشت بارے گوہر افشائی کرنا۔
کسی کو ماں یا بہن کی گالی دینے کے بعد اس سے تحمل والے ردعمل کی امید رکھنے والے انسانی جذبات کی الف بے سے ناواقف ہیں۔ منطق کی رو سے گالی کے جواب میں گالی کی امید رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ایسے میں ردعمل ہر شخص اپنی طبیعت اور طاقت کے مطابق دے گا۔ عام آدمی اپنی محرمات کے بارے میں ریمارکس برداشت نہیں کرتا کجا کہ آپ (ہماری ماں باپ کی جانیں ان پر قربان ہوں) ہمارے آقائے دو جہاںﷺکے بارے میں گستاخی پر مبنی بیان دیں اور پھر اس پر شرمندگی کے بجائے ڈھٹائی دکھائیں اور ردعمل کی صورت میں لوگوں کو جاہل‘ دیوانے‘ پاگل اور مذہبی سر پھرے کہیں؟ دیوانگی یہ ہے کہ ملک کی اکثریتی مذہبی آبادی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جائے‘ ان کے عقائد کا مذاق اڑایا جائے‘ ان کی محترم شخصیات کے بارے میں گستاخی کی جائے اور انہیں اشتعال دلایا جائے۔
میں شروع دن سے شہادتوں کی نوید کی تقسیم کے خلاف ہوں کہ شہادت اللہ اور اس کے بندے کا معاملہ ہے۔ یہی کام طالبان کر رہے ہیں‘ یہی کام داعش والے کر رہے ہیں۔ یہی دعویٰ خود کش حملہ آور کر رہے ہیں اور یہی دعویٰ انتخابی سیاست میں مرنے والے کر رہے ہیں۔ خود کش بمبار بھی ''شہید‘‘ ہے اور اس حملے میں جاں بحق ہونے والے بھی۔ ہمارے ہاں شہادت ایسا اعلیٰ و ارفع اعزاز ہے جو ارزاں نرخوں پر دستیاب ہے!! وگرنہ یہاں ماش کی دال بھی دو سو روپے کلو سے زیادہ مہنگی ہے۔ عجب ملک ہے کہ ایک طرف مذہبی رہنما شہادت کی اسناد تقسیم کر رہے ہیں تو دوسری طرف شہادت کے مفہوم کے منکر اور شہید کے درجے کا مذاق اڑانے والے روشن خیال اور لبرل فاشسٹ بھی وقت پڑنے پر شہادت کا تمغہ تقسیم کرنے پر آ جاتے ہیں۔ 
غلام رسول نے بیٹی کے اغوا پر تھانے جا کر پرچہ درج کروانے کی کوشش کی مگر اغوا کنندہ کا نام سن کر تھانیدار نے پہلے تو پرچہ درج کرنے سے انکار کر دیا لیکن زیادہ شور مچانے پر یہ کیا کہ فون کر کے ملزم کو بتایا کہ غلام رسول باقاعدہ گستاخی پر اتر آیا ہے اور تھانے میں پرچے کے لیے شور مچا رہا ہے۔ پھر تھانیدار نے بااثر ملزم کے کہنے پر غلام رسول کو پولیس کی زبان میں ڈنڈے سے سمجھایا۔ اسی دوران ملزم کے کارندے تھانے آ گئے‘ انہوں نے غلام رسول کو اٹھایا اور ڈیرے پر لے گئے۔ وہاں غلام رسول کی بیوی اور دو بیٹیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ غلام رسول کے دونوں بیٹے ان کے ہاتھ نہیں لگے تھے۔ ڈیرے پر غلام رسول کے سامنے اس کی بیوی اور بیٹیوں کی بے حرمتی کی گئی۔ غلام رسول اگلے روز مع اہل و عیال گائوں سے کہیں چلا گیا۔ تیسرے دن اس کے بیٹوں نے ملزم کو کاربین کا فائر مار کر قتل کر دیا اور خود تھانے پیش ہو گئے۔
میرے پاس ایسی ایک دو نہیں ستر سٹوریاں ہیں۔ ایسی کہانیوں کے ہوتے ہوئے لوگ پوچھتے ہیں کہ آخر لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی کیا ضرورت ہے؟ لوگ خود ہی مدعی‘ گواہ اور جج کیوں بن جاتے ہیں؟ لوگ اپنی عدالت کس لیے لگاتے ہیں؟ لوگ اپنی عدالتیں تب لگاتے ہیں جب ان کو ریاستی عدالتوں پر اعتماد نہیں رہتا‘ جب ریاستی عدالتیں بے مصرف ہو جاتی ہیں‘ اُن سے انصاف کی امید ختم ہو جاتی ہے اور جب ریاستی عدالتوں میں عدل و انصاف کی فراہمی کے بجائے عدلت و انصاف کا قتل عام ہوتا ہے۔
اگر ریاست اپنے گورنر کو لگام ڈالتی‘ اگر وفاق اپنے نمائندے کو شٹ اپ کال دیتا۔ اگر عدالتیں صوبے کے آئینی سربراہ کو ملکی قانون کو کالا قانون کہنے پر عدالت میں طلب کرتیں۔ قانون ساز اسمبلی اسے یاد دلاتی کہ اس نے بحیثیت گورنر آئین پاکستان کے تھرڈ شیڈول بمطابق آرٹیکل 102خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ حلف اٹھایا ہے کہ وہ ملک کے آئین اور قانون کا پابند رہے گا اور اسلامی اقدار اور نظریے کی پابندی کرے گا جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔ اگر یہ سب ہوتا تو سلمان تاثیر بھی زندہ ہوتا اور ممتاز قادری بھی وردی میں ڈیوٹی دے رہا ہوتا۔ میرا ایک دوست کہتا ہے کہ ممتاز قادری نے اپنے حلف کی پاسداری نہیںکی۔ عجب دانشور ہیں۔ کانسٹیبل ممتاز قادری سے ایسے خود ساختہ حلف کی پاسداری کے طالب ہیں جو اس نے اٹھایا ہی نہیں کہ کانسٹیبل کا کوئی حلف کم از کم میرے علم میں تو ہرگز نہیں۔ اور گورنر کے حلف کی صریح خلاف ورزی پر بغلیں جھانکتے ہیں۔ رہ گئی یہ بات کہ محافظ کو اپنی ڈیوٹی سرانجام دینی چاہیے تھی کہ وہ حفاظت کرتا نہ کہ قتل۔ بہاولپور میں ڈی آئی جی کو گالیاں نکالنے پر حفاظت پر مامور محافظ نے اسے قتل کر دیا تو بہت سے لبرل فرماتے تھے کہ ڈی آئی جی صاحب کو انسانیت کی توہین نہیں کرنی چاہیے۔ اب محسن انسانیتؐ کی توہین پر لبرل فاشسٹوں کا سارا موقف ہی بدل گیا ہے۔ میں ذاتی طور پر قانون کو ہاتھ میں لینے کا شدید ترین مخالف ہوں مگر عملی طور پر آپ افراد کو عدالت لگانے سے تب تک روک ہی نہیں سکتے جب تک ریاستی عدالتیں اپنا فریضہ سرانجام نہیں دیتیں۔ آپ فوری انصاف کے نظریے کو تب تک ختم نہیں کر سکتے جب تک لوگوں کا ریاستی انصاف پر اعتماد بحال نہیں ہوتا۔ پہلے ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری کرے پھر عوام کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلائے بصورت دیگر عاشقان رسولؐ اپنی عدالتیں لگاتے رہیں گے۔ کوئی مائی کا لال ان عدالتوں کو لگنے سے نہیں روک سکتا۔ حضور یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ‘جیسا بھی ہے اور یہاں مسلمان بستے ہیں جیسے بھی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved