''قومی سیاست میں دونوں کے کردار کا موازنہ ایک الگ موضوع ہے‘‘ بجا ارشاد لیکن اس پر کم از کم ایک، دو کالم تو ہوں۔ تو کیا جاوید ہاشمی اب بھی ڈھیر ساری چاہتوں کا مرکز ہے؟ گزشتہ کالم جناب سراج الحق کی کرپشن فری پاکستان مہم پر تھا۔ آخر میں (پس تحریر) چند سطریں خواجہ سعد رفیق صاحب کے ریمارکس پر تھیں، جس میں اُنہوں نے سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت کے فقدان اور خاندانی غلبے کا گلہ کرتے ہوئے جناب جاوید ہاشمی اور شیخ رشید کو ایسے نڈر لیڈر قرار دیا تھا ''جو قیادت کے سامنے بات کرنے کی ہمت رکھتے ہیں‘‘۔ ہم نے اس پر ''اِنّا للہ‘‘ کہنے کو کافی جانا۔ اب دوستوں کا اصرار ہے کہ قومی سیاست میں جاوید ہاشمی اور جناب شیخ کے کردار پر ایک دو کالم تو ہوں۔ ہمیں اکتوبر 2008ء یاد آیا۔ 18 فروری کے عام انتخابات کے بعد پاکستان میں نئے سیاسی دور کے آغاز کو سات، آٹھ ماہ ہو رہے تھے۔ 18 فروری کے عام انتخابات میں شیخ صاحب راولپنڈی کی دونوں نشستوں پر بدترین شکست سے دوچار ہوئے تھے، شاید ضمانت بھی بچا نہ پائے۔ NA-55 میں جاوید ہاشمی اور NA-56 میں حنیف عباسی کے ہاتھوں وہ اس انجام سے دوچار ہوئے تھے۔
اکتوبر 2008ء میں وہ رمضان المبارک کے دِن تھے۔ پاکستان ہاؤس (مکہ مکرمہ) کے باہر جاوید ہاشمی کو دیکھ کر شیخ رشید آگے بڑھے‘ بانہیں پھیلا دیں اور کہا: ''اس الیکشن میں مجھے ہارنا ہی تھا۔ خوشی ہے کہ تم جیسے بڑے پہلوان سے ہارا۔ کسی ''للو پنجو‘‘ سے ہارتا تو بہت رسوائی ہوتی‘‘۔ جناب شیخ نے ہاشمی کا ہاتھ تھامتے ہوئے بات کو آگے بڑھایا، ''تم نے میرا ٹی وی پروگرام دیکھا ہو گا، میں نے کہہ دیا تھا کہ تمہاری قیادت تمہیں صدارتی اُمیدوار بنائے گی، نہ لیڈر آف دی اپوزیشن‘‘ (پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد، صدارتی انتخاب میں ہاشمی نے جناب زرداری کے مقابل اپنی اُمیدواری کی ''پیشکش‘‘ کی تھی لیکن مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے اس کے لیے سابق چیف جسٹس جناب سعیدالزماں صدیقی کو موزوں سمجھا‘ جبکہ لیڈر آف دی اپوزیشن کا اعزاز چودھری نثار علی خاں کے حصے میں آیا)۔
ہاشمی جلدی میں تھے، ان کی خواہش تھی کہ سحری مدینتہ النبیؐ میں پہنچ کر کریں۔ چودھری سعید جٹ گاڑی لے کر پہنچ گیا تھا۔ ہاشمی نے خداحافظ کہا اور گاڑی کی طرف لپکے۔ اب ہم جنابِ شیخ کی دسترس میں تھے: ''یہ بہت سادا آدمی ہے۔ اس سے پوچھنا، 2003ء میں اس کی گرفتاری سے چار پانچ روز پہلے میں نے اسے کیا کہا تھا۔ میں نے اِسے بہت سمجھایا ، اسے بچانے کی بہت کوشش کی لیکن اس کا تو یہ حال تھا، کُج شہر دے لوک وی ظالم سَن ، کُج سانوں مرن دا شوق وی سی‘‘۔ ہاشمی مدینہ منورہ سے لوٹ آئے تو اُنہوں نے ہمارے استفسار پر وہ راز کی بات بتائی: یہ اکتوبر 2003ء میں میری گرفتاری سے چند روز پہلے کی بات ہے۔ شیخ صاحب نوائے وقت کے فنکشن میں ملتان آئے ہوئے تھے۔ میں بھی وہاں تھا۔ رات گئے شیخ صاحب میرے ہاں آئے اور کہا، جنرل تم سے بہت ناراض ہے۔ تم اب بھی ہاتھ ہلکا کر لو تو شاید تمہیں بچا سکوں، ورنہ جیل میں چار پانچ سال تو کہیں نہیں گئے۔ شیخ صاحب نے یہ احساس دلانے کی کوشش بھی کی کہ اب میری عمر مارکھانے اور جیل جانے کی نہیں۔ پھر انہوں نے بے نظیر کے دوسرے دور میں اپنی قید و بند کی صعوبتوں کی مثال دی (پولیس نے لال حویلی سے بلا لائسنس کلاشنکوف کی برآمدگی ان پر ڈال دی تھی جس میں انہیں سات سال کی سزا ہوئی)شیخ صاحب کے بقول جیل میںدوسال بعد ہی حال یہ ہوگیا تھا کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا محال ہو جاتا ۔ ہاشمی نے معزز مہمان کے جذبۂ خیر خواہی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، اپنی روش بدلنے سے انکار کردیااور چند روز بعد بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کر لئے گئے۔ جس پریس کانفرنس کے الزام میں وہ گرفتار ہوئے اس میں اعتزاز احسن اور لیاقت بلوچ بھی ان کے
دائیں بائیں موجود تھے لیکن ڈکٹیٹر کے عتاب کا نشانہ بننے کا رتبۂ بلند ہاشمی کے مقدر میں تھا۔ مشرف کے دور میں ان کی پہلی گرفتاری ڈیڑھ سال پر محیط تھی۔ تب سعد رفیق ، خواجہ احمد حسان اور ڈپٹی میئر آفتاب اصغر ڈار(مرحوم) بھی شریکِ منزل جنوں تھے۔ لہو کومنجمد کردینے والی موسمِ سرما کی اس شب لاہور کے عقوبت خانے میں ان پر جوبیتی ، اسے سہہ جانا ، انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد۔ اکتوبر 2002ء کا الیکشن ہاشمی نے جیل ہی سے لڑا تھا ، ایک سال بعد وہ پھر زیرعتاب تھا۔ اس بار یہ عرصہ پونے چار سال پر محیط تھا۔
اب ماہِ صیام میں وہ دیارِ حرم میںتھا تو ہم دیکھتے، پاکستان ہاؤس سے حرم تک آمدورفت میں بے شمار پاکستانی ہاشمی سے مصافحہ کرتے، گلے ملتے۔ لوگ اپنے اپنے حساب سے اپنے پسندیدہ لیڈروں کی Placing کر لیتے ہیں۔ دسمبر 2000ء میں جلا وطنی کے سفر پر روانگی کے وقت میاں صاحب اپنی قیادت کا علم ہاشمی کو تھماگئے تھے۔ بے وفائی باغی کی فطرت سے کوسوں دور تھی۔ اس نے اب بھی عہدِ وفا نبھایا
اور یوں نبھایا کہ ایک دُنیا عش عش کر اُٹھی۔ ایک شب جب حرم میں
قیام اللیل میں کچھ وقت تھا، پاکستان ہاؤس میں ہاشمی سے گپ شپ ہورہی تھی، کچھ اور دوست بھی تھے۔ ہاشمی کا کہنا تھا: میری وفاداری پہلے بھی اپنے سیاسی نظریے کے ساتھ تھی اور اب بھی وابستگی اسی کے ساتھ ہے۔ حکمتِ عملی اور طریقِ کار پر اختلاف ہوسکتا ہے اور اس کا اظہار بھی پارٹی میں مختلف فورمز پر ہوتا رہتا ہے۔ میں نے خود کو صدارتی اُمیدوار کے طور پر پیش کیا تو اس کے لیے میرے پاس دلائل تھے۔ پارٹی نے انہیں قبول نہیں کیا تو یہ اس کا حق تھا۔ خدا شاہد ہے ، قائد حزبِ اختلاف نہ بنائے جانے کا بھی مجھے کوئی دُکھ نہیں۔ میں اب بھی میاں صاحب کی رفاقت میں کام کرنا باعثِ فخر سمجھتا ہوں تو اس کی وجہ اُن کی ذات نہیں، ان کے سیاسی نظریات ہیں، جمہوریت کے ساتھ ان کی وابستگی ہے۔ آئین کی کارفرمائی، غیر سیاسی اِداروں کے مقابل پارلیمنٹ کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور قومی خودمختاری کا تحفظ۔
ہاشمی کی جرأت و استقامت نے انہیں اپنے لیڈر کا رفیقِ خاص بنادیا تھا۔ میاں صاحب جدہ میں تھے تو ہم بھی اپنے (اخباری ) دفتر سے فرصت پا کر سرورپیلس آتے جاتے رہتے۔ حراست میں ہاشمی کا میاں صاحب سے رات گئے رابطہ ہوجاتا، جس کے لیے موبائل کی سہولت جیل انتظامیہ میں اُن کے قدر دانوں نے مہیاکررکھی تھی۔ پاکستان میں موجود مسلم لیگی قائدین میں سے ایک دو کے متعلق حرفِ شکایت پر میاں صاحب، جاوید ہاشمی کی سو سو طرح دلجوئی کرتے ، کبھی کبھی یہ دل جوئی نازبرداری میں ڈھل جاتی، وہ نثار علی خاں کو تاکید کرتے کہ جیل جائیں اور ہاشمی سے ملاقات کریں۔ جاوید ہاشمی کی اسیری کے دوران ، اُن کی اہلیہ اور صاحبزادیوں کی نیب کورٹ میں پیشی کی خبر اور تصویر پر میاں صاحب اپنی افسردگی چھپا نہ پائے۔ اسیری کے دوران لکھی جانے والی ہاشمی کی پہلی کتاب''ہاں میں باغی ہوں‘‘ کے لیے 3صفحات پر مشتمل ''تعارف‘‘میں میاں صاحب نے اسے اپنے اچھے اور برے دِنوں کا ساتھی قرار دیتے ہوئے لکھا، میں اقتدار میں تھا تب بھی اور عتاب میں تھا تب بھی وہ میرے شانہ بشانہ رہا۔ میں نے اسے کبھی اقتدار کے لیے حریص نہیں پایا۔ اس حوالے سے وہ اکثر وبیشتر بے رغبتی اور بے نیازی کا مظاہرہ کرتا... 12 اکتوبر کے بعد کی آزمائشیں اس نے جس خندہ پیشانی سے برداشت کیں بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں اس نے ان آزمائشوں کو جس طرح خود دعوت دی اور ہزیمت کی بجائے عزیمت کا راستہ اختیار کیا اس پر وہ ملک کی تمام جمہوری قوتوں کی طرف سے تشکر اور تحسین کا مستحق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہم سب کے لیے فخر اور اعزاز کی علامت بن گیا ہے‘‘۔
پھر یہ قربت ، فرقت میں کیوں بدل گئی؟ میاں صاحب کی رفاقت سے کپتان کی ہمسفری تک یہ ایک الگ داستان ہے۔ قدرت کی اپنی scheme of things ہوتی ہے۔ تو کیا اس میں وہ کردار بھی تھا جو ہاشمی نے اگست 2014ء کی دھرنا بغاوت میں ادا کیا۔ بے یقینی کی اس فضا میں ''صبح گیا کہ شام گیا‘‘ کے اس ماحول میں ، وہ فیصلہ آسان نہ تھا جو ہاشمی نے کیا لیکن جمہوریت کی پکار رائیگاں نہیں گئی تھی؎
رستے بڑے دشوار تھے اور کوس کڑے تھے
لیکن تری آواز پہ ہم دوڑ پڑے تھے
قارئین! باقی رہی جناب شیخ کی سیاست تو اکتوبر 1999ء تک کی اپنی سیاست پر تو وہ خود ڈکٹیٹر کے دور میں چار حرف بھیج چکے، فرمایا، پہلے تومیں جھک ہی مارتا رہا، اصل سیاست تو اب کر رہا ہوںاور تب سے اب تک ان کی سیاست ایک کھلی کتاب ہے۔ قارئین اس ایک کالم پر ہی اکتفا کریں۔