گھوسٹ تنور
ایک اطلاع کے مطابق پنجاب پبلک اکائونٹس کمیٹی نے سستی روٹی سکیم کے سینکڑوں تنور گھوسٹ قرار دے دیئے ہیں۔ کمیٹی نے اپنی طرف سے تو یہ بڑا انکشاف کیا ہے حالانکہ اس سے تو خبر کا بھی کوئی پہلو نہیں نکلتا کیونکہ اگر صوبے میں لاتعداد گھوسٹ سکول ہو سکتے ہیں تو گھوسٹ تنور کیوں نہیں ہو سکتے۔ جنّوں بھوتوں کی موجودگی سے تو ویسے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا جبکہ یہ معاملہ صرف بُھوتوں کا ہے۔ بھوتوں کی ایک خصوصیت تو یہ ہے کہ یہ کسی کونظر نہیں آتے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ حکومت بھی گھوسٹ ہے کہ اس کی رٹ کہیں نظر نہیں آ رہی ؛اگرچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ لاتوں کی بھوت ہے یا باتوں کی‘ اور چونکہ بھوت کو سواری کا بھی شوق ہوتا ہے جیسے کہ عشق کا بھوت سوار ہو جاتا ہے‘ اس لیے حکومت کا بھوت ہونا اس طرح سے بھی ثابت ہے کہ یہ ملک اور اس کے عوام کے سر پر سوار ہے اور اترنے کا نام اس وقت تک لیتی نظر نہیں آتی جب تک کہ اس کا سارا خلاصہ کھول کر اس کے سامنے نہیں رکھ دیا جاتا۔
آپشن
حضرت مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ حکومت مغربی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے حالانکہ حکومت کا صرف ایک ہی
ایجنڈا ہے جس پر یہ پوری ثابت قدمی سے کام کر رہی ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو مولانا صاحب کا ایجنڈا بھی بیش و کم وہی ہے جس کی تکمیل کے لیے وہ ہر حکومت میں شامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان کے ایک ساتھی حافظ حسین احمد نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے پاس حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا آپشن بھی موجود ہے حالانکہ یہ محض ان کا خیال ہی ہے کیونکہ جہاں تک ہمارے مولانا صاحب کا تعلق ہے تو اگر یہاں سکھوں کی حکومت بھی آ جائے تو وہ اس سے نکلنے پر بھی کبھی تیار نہیں ہو سکتے‘ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اپنے آپ کو یہ حضرات زبانی جمع و خرچ تک ہی محدود رکھیں اور حکومت کو بھی غیر ضروری طور پر پریشان کرتے ہوئے اس کے ایک نکاتی ایجنڈے میں مزاحم ہونے کی کوشش نہ کریں جبکہ مولانا موصوف کے پاس تو خود ان کا اپنا نسخۂ کیمیا بھی موجود ہے جو وہ بوقت ضرورت پوری کامیابی سے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔
نیا گورنر...؟
ایک اخباری اطلاع کے مطابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو تبدیل کیا جا رہا ہے اور ان کی جگہ گورنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ کی تعیناتی پر غور کیا جا رہا ہے جو چند روز سے صوبہ سندھ کے دورے پر بھی ہیں اور وہاں مختلف تنظیموں اور گروہوں سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ اور ‘اگر ایسا ہو جاتا ہے تو بڑے صوبے کی جانب سے چھوٹے صوبے کو اس سے بڑا تحفہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس کی خدمت کے لیے ایک اپنا گورنر بھیج دے جبکہ اس قربانی کی بھی تعریف کرنی چاہیے جو رجوانہ صاحب دے رہے ہوں گے کہ ایک بڑے صوبے کی گورنری چھوڑ کر چھوٹے صوبے کی خدمت کے لیے تیار ہو جائیں۔ صوبۂ سندھ کی حالت ان حالات میں واقعی قابلِ رحم ہے کہ وہاں سے کوئی ڈھنگ کا گورنر ہی دستیاب نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ امید ہے کہ رجوانہ صاحب عمرِ عزیز کا باقی حصہ وہیں گزاریں گے کیونکہ عشرت العباد صاحب بھی وہاں کم و بیش ایک صدی سے اس عہدے کو سرفرازکر رہے ہیں۔
مصطفی کمال اور رحمن ملک
مصطفی کمال نے جو دھماکہ خیز پریس کانفرنس کر دی ہے اورجسے جناب فاروق ستار نے مائنس ون فارمولا کہہ کر مسترد کر دیا ہے آگے چل کر کیا رُخ اختیار کرتی ہے‘فی الحال اس کے بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا؛ البتہ اس کا ایک دلچسپ پہلو یہ رہا کہ انہوں نے ہمارے دوست رحمن ملک کو بھی لپیٹ دیا اور کہا ہے کہ الطاف حسین کے ساتھ ساتھ وہ بھی 'را‘ کے ایجنٹ ہیں اور یہ کہ وہ جب وفاقی وزیر داخلہ تھے تو ایم کیو ایم کی پریس ریلیز لکھا کرتے تھے۔ اُوپر سے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے بھی گواہی دے دی اور کہا کہ میں نے اس زمانے میں ہی وزیر اعظم سے کہہ دیا تھا کہ یہ 'را‘ کا ایجنٹ ہے۔ رحمن ملک نے تردید کرتے ہوئے اسے جھوٹ قرار دیا ہے‘ اگرچہ جھوٹ بولنے میں وہ خود بھی کسی سے کم نہیں ہیں اور ان کا ٹریک ریکارڈ اس کا گواہ بھی ہے اور ان کے مقابلے میں مصطفی کمال کی شہرت ہرگز ایسی نہیں ہے۔ تاہم؛ اس کا اور کہیں اثر ہو نہ ہو‘ بیمار الطاف حسین کے لیے یہ ایک بڑا دھچکہ ضرور ہے۔ اور‘ اب اسلام آباد سے موصول ہونے والی اختر عثمان کی یہ تازہ غزل:
ہم نے کیا کیا نہ کیا اہلِ ہُنر ہونے تک
خون ہوتا ہے جگر آئنہ گر ہونے تک
ایک پروانہ کہ تھا محوِ طوافِ شبِ ہجر
پہلوئے شمع میں تھا وہ بھی سحر ہونے تک
یاد رکھیو کہ محبت میں نہیں صرف جنوں
یونہی دیوانے پھرو دشت میں گھر ہونے تک
اک بجوکا ہے سرِ کشتِ تمنّا تا چند
خود بکھر جائے گا اس فصل کے سر ہونے تک
پھر تو یہ ہستیٔ موہوم نہیں ہے گویا
زندگی کا یہ تماشا ہے اگر ہونے تک
کھلکھلاتا ہوں سرِ شاخ وجود آج تو میں
ساری مستی ہے یہ گل چیںکی نظر ہونے تک
نیلگوں چرخ ہے پھر اپنا مقدّر اختر
قید بے قید کا آزار ہے سر ہونے تک
آج کا مقطع
ہمارے پائوں ہی ٹکتے نہ تھے زمیں پہ، ظفرؔ
نئے نئے جو کسی سے گلے ملے ہوئے تھے