تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     06-03-2016

شریک جُرم …!

انجم سلیمی کی نثری نظم کے دو مصرعے ہیں:
میرے پاس ہے ایک ایسی خبر جس کی تردید
سچ کی کسی دستاویز میں نہیں!!۔
ایک بار پھر ایسی خبروں کا بھونچال آیا ہے۔ اور اس بار یہ تازہ خبر مصطفی کمال لے کر آئے ہیں۔ جمعرات کی شام اخباری نمائندوں اور میڈیا کے کیمروں کے سامنے وہ کئی بار روئے‘ کئی بار ضبط کے مرحلوں سے گزرے۔ کبھی ان کے چہرے پر پچھتاوے کے رنگ ابھرتے‘ لہجے میں اس توبہ کی کھنک سنائی دیتی جو ہدایت ملنے پر انسان اپنے رب کے حضور اپنے کردہ گناہوں پر کرتا ہے کہ دوبارہ اس دلدل کی طرف نہ جائے۔ بہرحال یہ پریس کانفرنس جسے سال کی دھماکہ خیز پریس کانفرنس کا نام دیا گیا کئی حوالوں سے بہت اہم تھی‘ کیونکہ اعترافات اور انکشافات سے بھر پور یہ پریس کانفرنس اس شخص کی طرف سے تھی جسے متحدہ نے دنیا کے ساتویں بڑے شہر کا میئر بنایا تھا اور جس نے کراچی کو سنوارنے اورسدھارنے میں اپنا کردار اتنا بھر پور انداز میں ادا کیا کہ مخالف بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ مصطفی کمال کامتحدہ میں اہم مقام اور مرتبہ تھا اور پھر اچانک ان کامنظر سے غائب ہو جانا۔ رابطے‘ خبریں ‘ تعلقات... سب معدوم۔ قیاس آرائیاں اور افواہیں اٹھتی اور دم توڑتی رہیں۔ اور 2مارچ 2016ء کی شام اِن تمام سوالوں کو جواب مل گئے کہ وہ منظر سے غائب کیوں ہوئے۔ وہ متحدہ کی قیادت سے ناراض کیوں تھے۔ان سوالوں کے جوابوں میں اور کئی سلگتے ہوئے سوال موجود تھے جن کے 
جواب ہر محب وطن پاکستانی مانگے گا۔ متحدہ پر اگرچہ 'را‘ کے ساتھ تعلقات کا الزام پہلے بھی لگا اور نوّے کی دہائی سے اس جماعت پر اینٹی سٹیٹ ہونے کے سنگین الزامات ہیں ‘مگر اب ایک بار پھر مصطفی کمال نے جس انداز میں اس سنگین الزام کو دُہرایا ہے اُس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ مصطفی کمال نے انتہائی جذباتی انداز میں مہاجر مائوں کا نوحہ پڑھا اور کہا کہ متحدہ کے وہ کارکن جنہیں 'را ‘کا ایجنٹ بنا دیا گیا وہ اپنی مائوں کے پیٹ سے دشمن کے ایجنٹ پیدا نہیں ہوئے تھے۔ آج ہر اردو بولنے والے کو 'را ‘کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے اور بقول ان کے ‘2010ء میں لندن میں رابطہ کمیٹی کے ایک اہم اجلاس دوران ان پریہ انکشاف ہوا کہ پارٹی کے دشمن ملک کی ایجنسی کے ساتھ رابطے موجود ہیں۔ اس کے بعد پارٹی کے ساتھ ان کا تعلق بوجھ بنتا گیا جو بالآخر خاموشی اور لاتعلقی کے مراحل سے گزرتا ہوا2مارچ2016ء کو اعترافات سے بھری ایک ایسی پریس کانفرنس تک پہنچا جس نے بظاہر پاکستان کی سیاست میں ایک بھونچال پیدا کر دیا ہے۔
یوں سابق ناظم اعلیٰ کراچی کی تین چار سال پر محیط خاموشی ایک طوفان کی صورت ٹوٹی۔ کیا یہ طوفان پہلے سے بحران کی دلدل میں پھنسی ہوئی سیاسی پارٹی کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہو گا۔ اس پر تجزیہ نگاروں کی رائے بٹی ہوئی ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ متحدہ کی تاریخ ایسے الزامات سے بھری ہوئی ہے۔ اینٹی سٹیٹ جماعت ہونے کا الزام اس پر پہلے بھی لگتا رہا‘ مگر اس کے باوجود متحدہ کراچی کی سیاست میں بھر پور انداز میں موجود رہی ‘ووٹ بینک پر بھی کچھ خاص اثر نہیں پڑا ‘دوسری جانب کی رائے یہ ہے کہ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ رینجرز کی سربراہی میں ہونے والے کراچی آپریشن سے اس بات کے ناقابل تردید شواہد ملے ہیں کہ متحدہ کے کارکن شہر کا امن تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ شہر میں نامعلوم افراد کی گولی کا شکار بے گناہوں کی لاشیں گرتی رہی ہیں اور بقول مصطفی کمال کے الطاف حسین کا کارِ سیاست انہی لاشوں اور بدامنی سے تقویت پاتا تھا۔ اس سارے گھنائونے کھیل میں متحدہ کے اپنے کارکن بھی مارے جاتے۔ مصطفی کمال کی پریس کانفرنس کے بعد فاروق ستار کی جوابی پریس کانفرنس سننے والوں کو قائل نہیں کر سکی۔ متحدہ چونکہ کچھ عرصے سے دفاعی پوزیشن میں ہے سو‘ اس بار بھی وہ وہی رونا روتے رہے۔ انہوں نے مصطفی کمال کے کسی بھی سنگین الزام کا شواہد کے ساتھ مدلّل جواب نہیں دیا اور سچ تو یہ ہے کہ متحدہ کے پاس اب کہنے کو کچھ رہ بھی نہیں گیا۔ اس کی گرتی ہوئی ساکھ اور دفاعی پوزیشن اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ صولت مرزا کے انکشافات ‘ رینجرز کا متحدہ کے دفتر پر چھاپہ‘ بھاری مقدار میں بھارتی اسلحہ کی موجودگی اور متحدہ کے زیر سرپرستی مجرموں کے ونگ جنہیں ہم بڑے احترام سے عسکری ونگ کہتے رہے ہیں‘ سب کے سامنے ہیں۔ لفظ عسکری مثبت معنوں میں استعمال ہونے والا لفظ ہے جِسے کرائے کے قاتلوں‘ بھتہ خوروں‘ رسہ گیروں اور امن کی دشمن قوتوں کی سرگرمیوں کے لیے ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
یہ صورت حال کراچی کی سیاست میں ہی ایک بھونچال پیدا نہیں کرتی بلکہ پورے پاکستان میں جن جن دیہات اور گوٹھوں میں محب وطن پاکستانی بستے ہیں وہاں وہاں ایک بے چینی اور پریشانی کی لہر پیدا ہوئی ہے۔ ہر پاکستانی یہ سوال کرتا ہے کہ ایک جماعت جس پر اینٹی پاکستان ہونے کے الزامات تھے‘ جو دشمن ملک کی اُس ایجنسی سے رابطے میں تھی‘ جس کاکام ہی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور بدامنی پھیلانا ہے‘ ایسی جماعت کن حالات میں پاکستان کی اہم سیاسی جماعت بنی‘ یہاں تک کہ زرداری حکومت میں ملک کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی متحدہ کو منانے 
خود نائن زیرو جاتے رہے۔ کوئی بھی حکومت ایم کیو ایم کی ناراضی لینے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔ رحمن ملک کے نائن زیرو پر رازو نیاز کیسے ہوئے ہوں گے۔ نوِے کی دہائی سے اب تک متحدہ ہر حکومت میں ایک پریشر گروپ کی طرح شامل رہی ہے۔ وہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ہو یا نواز شریف کی‘ زرداری ہوں یا ‘ مشرف متحدہ کے لاڈہر ایک نے اٹھائے۔ ایسے کون سے مفاد ان سے وابستہ تھے کہ پاکستان کی سلامتی تک پر کمپرو مائز کیا گیا۔ کن حالات میں ایسے مجرمانہ سمجھوتے کیے گئے کہ پاکستان کی معاشی شہ رگ کراچی کو ایک ایسی جماعت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جس نے اس خوب صورت شہر کو خوف کی آماجگاہ ‘موت کا شہر اور بھتہ خوروں کا مسکن بنا دیا۔ عام پاکستانی کراچی کے حالات سُن کر وہاں جانے سے گھبراتا رہا۔ افسوس صرف متحدہ کے طرزِ سیاست پر نہیں بلکہ ان تمام حکمرانوں‘ پاکستانی بڑی سیاسی جماعتوں‘ اسٹیبلشمنٹ کے ذمّہ داروں پر ہے جو لاشوں اور بھتہ خوری کی طرزِ سیاست پر خاموش رہے اور کراچی کی تباہی کا تماشا مِل کر دیکھتے رہے ازہر درانی کا شعر یاد آتا ہے ؎
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
مصطفی کمال تو ضمیر کے بوجھ تلے آ کر اعتراف کر چکے اور سرخرو ہوئے ‘اب دیکھیے دوسرے شریک جُرم ضمیر کی آواز پر کب لبیک کہتے ہیں۔!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved