تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     07-03-2016

فکرِ آخرت

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(1)''اے ایمان والو!اللہ سے اس طرح ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم حالتِ اسلام کے سوا اور کسی حال میں ہرگز جان نہ دینا‘‘(آل عمران:102)۔الغرض مومن کے لیے ایمان کی موت اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔(2) ''اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور ہرشخص اس سوچ میں مگن رہے کہ وہ کل(قیامت) کے لیے کیا (ذخیرۂ اعمال) آگے بھیج رہا ہے‘‘ (الحشر:18)۔سو اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہی ہے کہ بندۂ مومن کو اس دنیا کی آب وتاب ، چمک دمک اور رنگنیوں ورعنائیوں سے کچھ وقت نکال کر یہ بھی سوچتے رہنا چاہیے کہ وہ اپنی عاقبت وآخرت کے لیے کون سا ذخیرۂ حسنات آگے بھیج رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں آپ کے رب کے نزدیک ثواب اور(اجرِ آخرت کی)امید کے اعتبار سے بہتر ہیں ‘‘(الکہف :46)۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اعمال برتن کی طرح ہیں ،اگر اس کا نیچے کا حصہ اچھا ہے تو اوپر کا بھی اچھا ہوگا اور اگر نیچے کا خراب ہے ،تو یہ خرابی اوپر تک جائے گی ‘‘(سنن ابن ماجہ:4199)۔اس کی شرح میں شیخ محمد عبدالباقی نے لکھا کہ اس کا اشارہ اس طرف ہے کہ اعتبار انجام کا ہے۔
علامہ کمال الدین ابن ہمام لکھتے ہیں:''جب روضۂ رسول پر حاضری نصیب ہو تو صلوٰۃ وسلام عرض کرنے کے بعد یہ دعا کرے: اے اللہ!تو ہمارے آقا ،اپنے بندے اور اپنے رسول محمد ﷺ کو جنت میں نمایاں مقام (الوسیلہ)،فضیلت اوربلند درجہ عطا فرما اور انہیں اُس مقامِ محمود پر فائز فرماجس کا آپ نے اُن سے وعدہ فرمایا ہے اور انہیں اپنی قربت کا اعلیٰ مقام عطا فرما،بے شک تیری ذات ہر عیب سے پاک ہے اورتو فضلِ عظیم کا مالک ہے ،اور پھر حضور ﷺ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی حاجت پیش کرے اور سب سے اہم سوال حُسنِ خاتمہ ،رِضائے الٰہی اور مغفرت کا ہونا چاہیے‘‘،(فتح القدیر ج3ص 169)۔
اکابرِ امت کو ہمیشہ آخرت کی فکر لاحق رہی ہے ۔(سیدنا) ابوبردہ بن ابوموسیٰ اشعری ؓبیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر نے مجھ سے کہا:آپ کو معلوم ہے کہ میرے باپ نے آپ کے باپ سے کیا کہا تھا؟،انہوں نے کہا:نہیں۔(سیدنا)عبداللہ بن عمر ؓنے کہا: میرے باپ (سیدناعمر فاروقؓ)نے تمہارے باپ (سیدناابوموسیٰ اشعری) سے کہاتھا:
''اے ابوموسیٰ! رسول اللہ ﷺ کی دستِ مبارک پر ہم نے اسلام قبول کیا،آپ کے ساتھ ہم نے ہجرت کی سعادت حاصل کی، آپ کی معیت میں ہم نے جہاد کیا اورتمام اعمالِ صالحہ جو ہم نے حضور کی معیت میں انجام دیے،ہمارے لیے آخرت کی راحت کا سبب بن جائیں اور وہ تمام اعمالِ خیر جو ہم نے آپ کے بعد انجام دیے ،اُن کے حساب کتاب میں ہم برابر برابر چھوٹ جائیں ،کیا یہ امر آپ کے لیے باعثِ اطمینان ہوگا؟،''ابوموسیٰ اشعریؓ نے کہا:بخدا نہیں ،ہم نے رسول اللہ ﷺ کے بعد جہاد کیا،نمازیں پڑھیں، روزے رکھے اور بہت سے نیک کام کیے اور ہمارے ہاتھ پر بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا ،یعنی ہم ان تمام حسنات پر بھی اجر کی امید رکھتے ہیں ‘‘،حضرت عمرؓنے کہا:''اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ،میری تو تمنا ہے کہ رسالت مآب ﷺ کی معیّت میں ہم نے جو حسنات انجام دیں ،وہ ہمارے لیے نجات کا باعث بن جائیں اور آپ ﷺ کے بعد جو بھی اعمالِ خیر ہم نے انجام دیے ،ان کے بارے میں (اللہ تعالیٰ کی عدالت میں)برابر برابر چھوٹ جائیں ‘‘۔ابوبردہ بن ابوموسیٰ اشعریؓ نے سیدناعبداللہ بن عمرؓ سے کہا:''اللہ کی قسم!آپ کے باپ میرے باپ سے بلند درجہ پر فائز تھے‘‘(صحیح البخاری:1665)۔یہ بات ذہن میں رہے کہ آخرت کی جواب دہی کا یہ خوف انہیں لاحق ہے ،جن کے عہدِ خلافت میں اسلام دنیا کی واحد سپر پاور بنا اور اس وقت کی دو سپر پاورز یعنی قیصر وکسریٰ اسلام کے قدموں میں سرنگوں ہوگئے ،تو ہم جیسے بے مایہ لوگ جن کے توشہ دان میں کوئی قابل افتخار ذخیرۂ حسنات بھی نہ ہو، ان کا تو ایک ایک پل فکرِ آخرت میں گزرنا چاہیے۔ایک اور موقع پر حضرت عمر فاروق ؓنے راستے میں پڑا ہوا ایک تنکا اٹھایا اور کہا:کاش میں بھی خس وخاشاک ہوتا،کاش میں بھی پیدا نہ کیا جاتا،کاش میری ماں مجھے نہ جنتی(یعنی انہیں آخرت کی جواب دہی کی فکر ہمیشہ لاحق رہتی تھی )،(کنز العمال ،ج 6ص 245)۔
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں :ایک دن رسول اللہ ﷺ تشریف فرماتھے اور آپ کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی جس سے زمین کو کرید رہے تھے،پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا اورفرمایا:''تم میں سے ہر شخص کا ٹھکانا ،خواہ جنت میں ہو یا جہنم میں،مقرر ہے ۔صحابہ ؓنے عرض کی: یارسول اللہ!(جب سب کچھ طے ہے تو)ہم عمل کیوں کریں ؟،ہم (تقدیر)پر بھروسا کر کے کیوں نہ بیٹھ جائیں ؟۔ آپﷺ نے فرمایا:نہیں!(اپنی اپنی توفیق کے مطابق)کام کیے جائو،ہر ایک کے لیے (قدرت کی طرف سے)اُس کی عاقبت کے مطابق اسباب آسان فرمادیے جاتے ہیں، پھر آپ نے قرآن کی یہ آیات مبارکہ پڑھیں:''پس جس نے اپنا مال( اللہ کی راہ میں) دیااللہ سے ڈر کر گناہوں سے بچتا رہااور نیک باتوں کی تصدیق کرتا رہا،پس عنقریب ہم اس کو آسانی(جنت)مہیا فرمائیں گے اور جس نے بخل کیا اور اللہ سے بے پرواہ رہا اور نیک باتوں کی تکذیب کی، پس عنقریب ہم اس کو دشواری(دوزخ) مہیا کریں گے‘‘ (اللیل، آیات: 5.10) ،(صحیح مسلم:2447)۔
الغرض اللہ تعالیٰ کے تمام محبوب بندے اپنی تمام تر علمی وجاہت، تقویٰ اور بلندیٔ درجات کی تمام تر ظاہری علامات کے باوجود اپنی عاقبت سے کبھی بھی غافل نہیں رہتے ۔علامہ غلام رسول سعیدی ؒنے تفسیرِ قرآن کریم اور شرحِ حدیث میںجتنا وقیع اورمبسوط کام کیا ہے، گزشتہ ایک صدی میں کسی ایک شخص کے قلم سے کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے اتنا بڑا کام منظرِ عام پر نہیں آیا۔کل میری برطانیہ میں ایک صاحب علم سے بات ہورہی تھی ،انہوں نے کہا:ایک صدی نہیں، آپ یہ دعویٰ بلاخوفِ تردید کئی صدیوں کے حوالے سے کر سکتے ہیں۔اس کے باوجود نہ آپ کبھی علمی عُجب واستکبارمیں مبتلا ہوئے اور نہ ہی اپنی عاقبت سے غافل ہوئے۔آپ نے شرح صحیح مسلم میں فقہی اعتبار سے حکمی شہداء کی تفصیل بیان کی اور لکھا : میں نے بعض حواشی میں پڑھا کہ علامہ جلال الدین سیوطی ؒنے ایک رسالے میں حکمی شہداء کی تعداد تیس تک بتائی ہے ،لیکن میں نے اپنی علمی تہی دامنی کے باوجود اس موضوع پر احادیث کو جمع کیا،تو یہ مقدار 51تک جا پہنچی، وہ تمام احادیث باحوالہ شرح صحیح مسلم وتبیان القرآن میں مذکور ہیں۔انہی میںسے ایک حدیث پیٹ کی بیماری میں موت واقع ہونے کو شہادت کی موت قرار دیا گیا ہے۔
آخر میں لکھتے ہیں:شہداء کی تعداد کے بیان کے سلسلے میں، مَیں نے کافی محنت کی ہے اور اس سلسلے میں بہت تفصیل اور تحقیق کی ہے، اللہ تعالیٰ میری اس محنت کو قبول فرمائے مجھے ایسی موت نصیب فرمائے کہ درجۂ شہادت مل جائے،(شرح صحیح مسلم،ج 5ص 935تا947)۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعا کو قبول فرمایا اور انہیں پیٹ کی بیماری بڑی آنت میں ٹیومر کی شکل میں لاحق ہوئی اور بالآخر علاج کے تمام اسباب اختیار کرنے کے باوجودیہی آپ کی وفات کا سبب بنی۔چنانچہ آپ نے اپنے ساتھیوں سے جو آخری گفتگو فرمائی ، اُسے کسی ساتھی نے ریکارڈ کرلیا اور وہ یہ ہے:''جو سورۂ یٰسین پڑھتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کی موت آسان کردیتا ہے، تبیان القرآن لے آئیں ،میں نے اُس میں لکھا ہے‘‘ ۔طلبہ نے عرض کی:استاذ جی!یہ ہسپتال ہے،کتابیں دارالعلوم میں ہیں ۔ کہا: چلو خیر ہے،بہرحال اُس میں دیکھ لینا ،سورۂ یٰسین کے فضائل میں یہ حدیث ہے ،آپ سب سورۂ یٰسین ،کلمۂ شہادت اور استغفار کا ورد کرتے رہیں ،پہلے کلمۂ شہادت اور استغفار پڑھیں ،پھر سورۂ یٰسین پڑھیں ،پھر آخر میں آپ نے خود کلمۂ شہادت پڑھا۔امام بخاری اور امام احمد بن حنبل نے حدیث روایت کی ہے کہ : ''اعمالِ صالحہ پر اجرِ آخرت کا مدار حُسنِ خاتمہ پر ہے‘‘۔
علامہ صاحب ؒنے تفسیر تبیان القرآن اور شرح صحیح مسلم میں متعدد کتبِ احادیث کے حوالوں سے مزیّن کر کے لکھا :''اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے جس خوش نصیب کی وفات شبِ جمعہ کو ہوجائے، اللہ تعالیٰ اُسے عذابِ قبر سے عافیت عطا فرماتا ہے اوراُسے قیامت کے دن اس حال میں اٹھاتا ہے کہ اُس پر شہید کی مُہر ہوتی ہے‘‘۔ چونکہ اُن کی والدہ ماجدہ کی وفات شبِ جمعہ کو ہوئی تھی،اس لیے آپ نے اپنی اس تحقیق کی روشنی میں اس علامت کو اپنی والدہ ماجدہ کے حسنِ عاقبت پرمحمول کیااور پھر اللہ تعالیٰ نے اُن پر بھی کرم فرمایا اور شبِ جمعہ شروع ہونے کے لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے بعد اُن کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی اور انہیں وصالِ حق نصیب ہوا۔علامہ صاحب کی طبعی موت تو یقینا واقع ہوچکی ،لیکن ہم اظہر من الشمس قرائن وشواہد کی بنیاد پر بجا طور پر یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اُن کی علمی حیات لازوال ہے اور اس پر کبھی فنا نہیں آئے گی۔عربی شاعر نے کہا ہے:
یَلُوْحُ الْخَطُّ فِی الْقِرْطَاسِ دَھْراًوَکَاتِبُہُ رَمِیْمٌ بِالتُّرَابِ
ترجمہ:''صاحبِ تحریر پیوندِ خاک ہوجاتا ہے،لیکن اُس کی تحریرزندۂ جاوید رہتی ہے‘‘۔ہمارے ہاں کوئی سید ہو تو اس نسبت کو لوگوں کی اپنی ذات سے عقیدت کو ابھارنے اور دنیوی منفعت کے لیے استعمال کرتا ہے۔آپ نے اپنی سیادت کو زندگی بھر پردۂ اخفا میں رکھا اور اپنی آخری تصنیف تبیان الفرقان میں اپنے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے اس کا اظہار کیا، یہ کمال اخلاص اور لِلّٰہیت کی دلیل ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved