تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     07-03-2016

زندگی کو غنیمت جانیے

انسان دنیا میں روتا ہوا آتا ہے اور اس پیدائشی خصلت کو عمر بھر سینے سے لگائے رہتا ہے۔ زندگی گِلوں شِکووں اور رونے رلانے میں گزر جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بھی کسی نہ کسی بات کا رونا ہی رو رہا ہوتا ہے۔ کچھ تاسّف اِس حوالے سے ہوتا ہے کہ قدرت نے مال کے معاملے میں زیادہ نہ نوازا۔ اللہ سے تھوڑا بہت گِلہ فرصت نہ ملنے اور اپنوں کو زیادہ وقت نہ دے پانے کا کیا جاتا ہے۔ 
خاقانیٔ ہند شیخ ابراہیم ذوقؔ نے قبل از وقت رونا رویا تھا ؎ 
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے 
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے! 
شعراء کے پاس دل کو بہلانے کے سو بہانے، ہزار طریقے ہوتے ہیں۔ کسی نے یہ کہتے ہوئے اپنے دل کو بہلایا ہے، تسلّی دی ہے ؎ 
آ ہی جائے گا اِک دن ہمیں بھی قرار 
آخرِکار ہم بھی تو مر جائیں گے! 
آنند بخشی کو یقین تھا کہ وہ اِس دنیا سے بیماری کی حالت میں نہیں جائیں گے۔ یعنی موت تمام بیماریوں کا علاج بن کر آئے گی۔ ؎
دردِ دل اب مِرے ساتھ ہی جائے گا 
موت ہی آخری اب دوا ہے مِری 
یہاں تک تو سب ٹھیک ہے۔ مرتے دم تک حالات اور تقدیر کا رونا رونے والے تو ہم نے بہت دیکھے ہیں مگر استاد قمرؔ جلالوی نے تو کمال کردیا یعنی موت کا بیریئر بھی توڑ ڈالا! (موت کے بعد!) فرماتے ہیں ؎ 
لِٹا کے قبر میں سب چل دیئے، دُعا نہ سلام 
ذرا سی دیر میں کیا ہوگیا زمانے کو! 
مرنے کے بعد کی کیفیت، بلکہ کیفیات بیان کرنے میں بعض شعراء یدِ طُولیٰ رکھتے ہیں! ملاحظہ فرمائیے ؎ 
آکے ہماری قبر پر تم نے جو مسکرا دیا 
بجلی چمک کے گِر پڑی، سارا کفن جلا دیا 
چین سے سو رہا تھا میں اوڑھے کفن مزار میں 
یاں بھی ستانے آگئے، کس نے پتا بتا دیا! 
حد یہ ہے کہ غالبؔ کو اپنی موت کے بعد یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ اُنہیں دنیا بھر میں بدنام اور رُسوا کیا جارہا ہے! ؎ 
ہوئے مرکے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا 
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا! 
زندگی بھر سکون کی تلاش میں سرگرداں رہنے کے بعد بھی سکون کے چند لمحات سے محروم رہنے پر کسی نے خوب کہا ؎ 
سکوں کہیں بھی میسّر نہیں ہے انسان کو 
جنازے والے بھی کاندھا بدلتے رہتے ہیں! 
ہندوؤں میں ہزاروں سال سے مُردے کو جلانے کی رسم چلی آرہی ہے۔ چلیے، یہ بھی غنیمت ہے مگر قدیم ادوار میں جو اس دنیا سے جاتا تھا، اپنی بیوہ کو بھی ساتھ لے جاتا تھا۔ تصور یہ تھا کہ شوہر کی موت کے بعد عورت کا دنیا میں کوئی رکھوالا، وارث یا کفیل نہیں ہوتا اس لیے اسے بھی شوہر کے ساتھ بھگوان کی خدمت میں حاضر ہوجانا چاہیے! شوہر کی چتا میں کود کر جل مرنے والی ہندو خواتین کو ''سَتی‘‘ کہا جاتا تھا۔ انگریزوں نے انیسویں صدی کے وسط میں سَتی کی رسم پر پابندی لگائی تو ہندو خواتین کو شوہر کی موت کے بعد زندہ رہنا یعنی حقیقی سُکون کے چند سانس لینا نصیب ہوا! 
تبت اور منگولیا میں رسم ہے کہ مُردے کے ٹکڑے کرکے تمام ٹکڑے پہاڑوں کی چوٹیوں پر رکھ دیئے جاتے ہیں تاکہ درندے پیٹ کی آگ بجھالیں۔ یعنی مُردہ ضائع نہیں جانا چاہیے۔ یہ رسم ایسی سفّاک ہے کہ مرنے والا اپنے بعد از موت انجام کا سوچ سوچ کر ہی خوف سے مر جاتا ہوگا! 
ہم نے عرض کیا کہ ہندوؤں میں مُردے کے ساتھ اُس کی بیوہ کو جلانے کی رسم بھی تھی۔ عافیت کا پہلو یہ تھا کہ صرف بیوہ کی شامت آتی تھی۔ فیجی کے بعض علاقوں میں آج بھی یہ رسم چلی آرہی ہے کہ کوئی مر جائے تو اس کے کسی قریبی عزیز کو بھی گلا گھونٹ کر مار دیا جائے تاکہ مُردہ دوسری دنیا میں تنہا نہ جائے! 
کیا عجیب رسم ہے صاحب! کم از کم مُردے سے یہ تو پوچھ ہی لینا چاہیے کہ اُس کے ساتھ کِسے جانا چاہیے۔ اب اگر بندہ کسی سے زندگی بھر الرجک رہا ہو اور اُسی کے ساتھ دوسری دنیا میں قدم رکھنا پڑے تو! یہ تو زبردستی کا ساتھ ہوا یعنی مان نہ مان، میرا تیرا ہم سفر! مُردے سے پوچھنے کا تو ہم نے روانی میں کہہ دیا۔ کس میں ہمت ہے کہ مُردے کی زبان کُھلوائے؟ اور اگر کسی مرتے ہوئے شخص سے پوچھا جائے کہ تمہارے ساتھ کسے بھیجا جائے تو عین ممکن ہے کہ اُس کی موت قبل از وقت واقع ہو یعنی جسے ساتھی بنانے کو کہا جائے وہی آگے بڑھ کر گلا دبادے! 
جلانے، کاٹ کر کھلانے اور قبر سے نکال کر دھینگا مُشتی کے بعد پھر دفنانے کا احوال تو آپ نے پڑھ لیا اور یقیناً کسی حد تک ''محظوظ‘‘ بھی ہوئے ہوں گے۔ اب آئیے، پنچ لائن کی طرف۔ گھبرائیے مت، ہم آپ کو ایک زبردست اور دھانسو قسم کی رسم کی طرف لے جارہے ہیں، مقتل نہیں لے جارہے۔ مزا نہ آئے تو صحیح سلامت واپس آجائیے گا۔ 
پاپوا نیو گنی اور برازیل کے بعض دور افتادہ علاقوں میں ایک ایسی رسم بھی پائی جاتی ہے جس سے سوگواروں کے ''خوش خوراک‘‘ ہونے کا پتا چلتا ہے۔ ان علاقوں میں بعض قدیم قبائل اب بھی اپنے مُردوں کو کاٹ کر کھا جاتے ہیں! اس رسم کی غایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ انسان مر جائے تو جسم کو زمین میں گلنے سڑنے کے لیے کیوں چھوڑا جائے، کھا پی کر کچھ اپنا بھلا کیوں نہ کیا جائے؟ بہت خوب۔ یعنی کوئی جیتے جی کام آیا ہو یا نہ آیا ہو، مرنے کے بعد تو وہ رشتہ داروں کے کام آنا ہی چاہیے! ہمیں علامہ اقبالؔ کا مصرع یاد آرہا ہے ع 
نہیں ہے چیز نِکمّی کوئی زمانے میں 
ویسے یہ رسم ہمارے لیے کچھ زیادہ اجنبی تو نہیں۔ ہم بھی تو بہت حد تک مُردہ خور ہی واقع ہوئے ہیں۔ جیتے جی جس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے اُس کی آنکھیں بند ہوتے ہی کانٹے چُھری لے کر اُس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اِس سے ذرا ہٹ کر، مُردہ پرستی کا ٹرینڈ بھی موجود ہے۔ یعنی کسی سے جیتے جی جتنا کچھ مل سکے وہ تو لے ہی لو اور جب وہ مر جائے تو اُس کے نام پر بھی مال بٹورو! غور کیجیے تو ہم پاپوا نیو گنی اور برازیل کے قبائلیوں سے دو قدم آگے ہیں یعنی مُردوں کو کاٹ کر ڈکارے بغیر ہی اُن سے پیٹ بھرلیتے ہیں! 
مرنے پر دنیا بھر میں لوگوں کو جو کچھ بھگتنا پڑتا ہے اُس کا احوال پڑھ کر آپ نے یقیناً سکون کا سانس لیا ہوگا۔ جو سانسیں میسّر ہیں اُنہیں غنیمت جانیے اور اِس دنیا میں اپنے قیام کو اطمینان و مسرّت سے آراستہ کیجیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved