تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     08-03-2016

ابر کی تہہ سے نکلتا کیا ہے؟

چند روز یا چند ہفتے بعد جو کالم مجھے لکھنا تھا‘ وہ وسعت اللہ خان نے لکھ دیا ۔ میں اسے ''بی بی سی ڈاٹ کام‘‘ سے نقل کر رہا ہوں۔ 
''کچھ دیر پہلے میں نے صحافی مظہر عباس سے پوچھا کہ ترکی کے سب سے بڑے اخبار ''زمان‘‘ پر دن دہاڑے سرکاری قبضے کو پاکستانی میڈیا اور صحافتی تنظیمیں کیسے دیکھتی ہیں؟
مظہر نے ہنستے ہوئے کہا کہ ''تمہیں اگر ردِعمل درکار ہے تو تمام میڈیا اداروں اور صحافتی تنظیموں کو کم ازکم اس خبر کی تفصیلات تو بتا دو۔‘‘
تو جناب اپنے حال اور کھال میں مست‘ پاکستانی میڈیا کے لیے تین دن پرانی بریکنگ نیوز یہ ہے کہ اردوان حکومت نے استنبول کی ایک ذیلی عدالت سے مختصر حکمِ امتناعی حاصل کر کے ‘جمعے کی رات ترکی کے ساڑھے چھ لاکھ اشاعت والے اخبار ''زمان ‘‘کا انتظام سنبھال لیاہے۔ پولیس کمانڈوز نے عمارت میں گھس کر انٹرنیٹ کنکشن منقطع کر کے عملے کو باہر نکال دیا۔ زمان میڈیا گروپ کی عمارت کے باہر دو ہزار کے لگ بھگ مظاہرین کو ربڑ کی گولیوں، آنسو گیس اور تیز دھار پانی سے منتشر کردیا گیا۔
''زمان‘‘ کے ایڈیٹر انچیف عبدالحامد بلخی اور کالم نگار بلند انیس کو فوری برطرف کردیا گیا۔ ٹیک اوور سے ذرا پہلے ‘اخبار اپنی آخری مزاحمتی سرخی چھاپنے میں کامیاب ہوگیا :''ترک صحافت کی تاریخ کا سیاہ ترین دن‘‘ جبکہ اخبار کے انگریزی ایڈیشن کی سرخی تھی: ''ترکی میں آزاد صحافت کے لیے شرمناک دن۔‘‘
سرکاری قبضے کے بعد آج ''زمان ‘‘جب دوبارہ شائع ہوا تو 42 کے بجائے 12 صفحات پر مشتمل سنڈے ایڈیشن کی شہ سرخی ہے :''عزت مآب صدر رجب طیب اردوان کی باسفورس پل کی تعمیراتی تقریب میں شرکت۔‘‘
''زمان‘‘ میڈیا گروپ کا جھکاؤ فتح اللہ گولن کی حذمت تحریک کی جانب تھا۔ فتح اللہ گولن کو صدر اردوان ‘چند برس پہلے تک اپنا گرو مانتے تھے مگر سرکاری اداروں میں گولن کے افکار کی بڑھتی مقبولیت سے اردوان بے چین بھی تھے۔
2013ء میںجب پولیس پراسیکیوٹر نے رجب طیب اردوان کے قریبی ساتھیوں پر چند مالی گھپلوں کی پوچھ تاچھ کے لیے ہاتھ ڈالا ‘تو گولن اور اردوان میں کھلی دشمنی ہوگئی اور حکومت نے گولن کو غدار اور دہشت گرد قرار دے کر ‘ان کے حامیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا۔گزشتہ برس عزیمت تحریک کی جانب جھکاؤ کی سزا میں دو اخبارات اور دو نیوز چینلوں پر سرکار پہلے ہی قبضہ کر چکی ہے۔
مگر معاملہ صرف فتح اللہ گولن یا ''زمان ‘‘اخبار کا نہیں‘واحد غیر سرکاری نیوز ایجنسی ''جہان‘‘ کا کنٹرول بھی حکومت نے سنبھال لیا ہے۔ حال ہی میں ایک اور سرکردہ اخبار ''جمہوریت ‘‘کے دو صحافیوں کو قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے کے جرم میں ‘عمر قید کے مقدمے کا سامنا ہے کیونکہ انہوں نے ایک تحقیقاتی اسٹوری لکھی ‘جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ترک انٹیلی جنس اہلکار ‘شام میں اسد مخالف مذہبی باغیوں کو اسلحہ سپلائی کر رہے ہیں۔اس وقت مختلف الزامات کے تحت 30 سے زائد صحافی پابندِ سلاسل ہیں۔ان میں سے بیشتر صحافی کرد ہیں۔
صحافیوں کی عالمی تنظیم ''رپورٹرز ودآئوٹ بارڈرز‘ ‘کی انڈیکس میں شامل180 ممالک میں ترکی آزادیِ صحافت کے اعتبار سے ‘خاصا نیچے یعنی ایک سو انچاسویں نمبر پر ہے۔
''زمان‘‘ میڈیا گروپ کو بالکل اسی طرح ٹیک اوور کیا گیا جس طرح آج سے 57 برس پہلے پاکستان میں ایوب خان نے نیشنل سکیورٹی ایکٹ کے تحت میاں افتخار الدین کے ترقی پسند اخبارات پر قبضہ کر کے ‘احمد ندیم قاسمی، مظہر علی خان اور سبطِ حسن کو گھر بھیج دیا تھا اور بعد ازاں ''پاکستان ٹائمز‘‘ روزنامہ ''امروز ‘‘اورجریدہ ''لیل و نہار‘‘ کو نیشنل پریس ٹرسٹ کے حوالے کردیا تھا۔لیکن انفوٹینمنٹ اور ریموٹ کنٹرول کی ایجاد کے بعد ‘آج پاکستان میں صحافت کنٹرول کرنے کے لیے قرونِ وسطیٰ کے خام فسطائی طریقے استعمال نہیں کیے جاتے۔اب تو ''دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ‘‘ والا معاملہ ہے۔
برادر ترک اسٹیبلشمنٹ کو ‘برادر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے اس بارے میں ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔''تم بالکل ہم جیسے نکلے۔اب تک کہاں چھپے تھے بھائی۔‘‘
ہمارے موجودہ حکمران جس تیزرفتاری سے ترک حکمران ‘طیب اردوان سے متاثر ہو رہے ہیں‘ اسے دیکھ کر کونسا ایسا صحافی ہے‘ جسے آنے والے دنوں کا اندازہ نہیں؟ اردوان نے بڑے بڑے منصوبوں کا تجربہ کر کے‘ ترکی کو ترقی کی راہ پر جس طرح گامزن کیا ‘ اس کا نسخہ کیمیا ہمارے حکمرانوں کے ہاتھ بھی لگ گیاہے۔ انہوں نے اسے پڑھنے کے بعد باقاعدہ مصنف سے تشریحات سنیں اور مشکل الفاظ کے معانی بھی سمجھ لئے اور پھر جس خشوع و خضوع کے ساتھ نئے سبق کو ہمارے ملک میں دہرانا شروع کر دیا‘ اس میں جواں سال لیڈروں کی طرح جوش و جذبہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً اردوان نے جو بڑی بڑی تعمیرات کیں‘ ان کے راستے میں آنے والی تاریخی عمارتوں اور یادگاروں کو ملیامیٹ نہیں کیا۔ اردوان آخر یورپ کا تربیت یافتہ ہے۔ بندوں کو گولیاں شولیاں مار لیتا ہے‘ لیکن اینٹ ‘ پتھروں اور چونے کی حفاظت کرتا ہے تاکہ زمانہ قدیم کی یادگاریں ملیامیٹ نہ ہوں۔ ہمارے ہاںاس بات کی پروا نہیں کی گئی۔ ایک تو غیرملکی حکمرانوں اور ان کے جانشینوں نے صدیوں سے ہماری تاریخی یادگاروں کو زمانے اور عام شہریوں کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھا‘ سوائے مساجد کے کسی چیز پر توجہ نہیں دی گئی اور جہاں جہاں مساجد ‘ کاروباری اور سرمایہ دار لوگوں کی روزمرہ نگاہوں سے محفوظ رہیں‘ ان کی دیکھ بھال کرنے پر بھی کسی نے توجہ نہیں دی۔ رنجیت سنگھ کے مقبرے کی دیکھ بھال خود سکھ کر لیتے ہیں۔ ان کی عالمی اور بھارتی تنظیموں کے پاس بے شمار ڈالر ہیں۔ وہ ''اضافی‘‘ اخراجات بھی برداشت کر لیتے ہیں اس لئے ان کی دیکھ بھال‘ ہماری تاریخی مساجد سے زیادہ کی جاتی ہے۔ رہ گئیں لاوارث تاریخی یادگاریں؟ ان کے ساتھ جو سلوک کیا جائے گا‘ اسی طرح کا ہو گا ‘جیسے پنجاب میں پاس ہونے والے ''تحفظ نسواں بل ‘‘ کے تحت خواتین سے کیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمن خواہ مخواہ اشتعال میں آ کر انسانی حقوق کی حمایت میں مشکل سے مشکل دلائل دے رہے ہیں‘ حالانکہ انہیں اصل غصہ اس بات پر ہے کہ مرد اور ملاحضرات سے‘ خواتین کو زدوکوب کرنے کا حق کیوں چھین لیا گیا؟ حالانکہ ملا حضرات زدوکوب کے بعد‘ اپنی بیگمات سے جو حسن سلوک کرتے ہیں‘ اس سے بیگمات عموماً خوش رہتی ہیں۔ 
لگے ہاتھوں بتاتا چلوں کہ میڈیا کے لئے قانون سازی کا مشکل کام کرنے والے ماہرین کو گوشۂ تنہائی میں بٹھا دیا گیا ہے۔ وسعت اللہ خان نے اپنے کالم میں ترک میڈیا پر مسلط ہونے والے قوانین کی جو تفصیل لکھی ہے‘ میرے لئے اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ میں نے نیشنل پریس ٹرسٹ کا دور دیکھا ہے۔ اس کے ایک اخبار ''مشرق‘‘ میں مچھروں اور مکھیوں پر کالم بھی لکھے ہیں۔ باقی ماندہ زندگی میں جھک مارنا پڑی ‘پھر سے لکھ لوں گا۔ پریکٹس ابھی سے شروع کر دی ہے۔ مچھر نئی اقسام کے آ گئے ہیں۔ نئی نسلوں کے مچھروں اور مکھیوںپر بھی لکھ لوں گا۔میں نے زندگی کا زیادہ عرصہ دو آزاد اخباروں ''جنگ‘‘ اور ''نوائے وقت‘‘ میں گزارا ہے۔ جب روزنامہ ''دنیا‘‘ شروع ہوا‘ تو مطلع صاف تھا۔ اب ہلکے ہلکے بادل منڈلانا شروع ہو چکے ہیں۔ کئی چھاتہ برداروں نے الیکٹرانک میڈیا پر ''دھومیں‘‘ مچا کر‘ اتنی دھول اڑائی کہ پرنٹ میڈیا پر بھی جمنا شروع ہو گئی۔ دیکھئے! یہ ہلکے بادل ‘ بھاری ہوتے ہیں یا گرج چمک کر‘ اسی طرح تحلیل ہو جاتے ہیں‘ جیسے چند روز پہلے لاہور میں ہوئے تھے۔
دیکھئے اس ابر کی تہہ سے نکلتا کیا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved