جنوبی افریقہ میں جب نسل پرست دورکا خاتمہ ہوا اور مقتدر عالمی شخصیت نیلسن منڈیلا نے 1994ء میں زمام اقتدار سنبھالی تو دیگر امور کے علاوہ انہیں ملکی آئین اور قوانین کی تشکیل نو اور ان کو عوام کی امیدوں اور آرزوئوں کے ساتھ ہم آہنگ کر نے کا مسئلہ بھی درپیش تھا۔ چونکہ وہاں مسلمانوں کی بھی اچھی خاصی تعداد آباد ہے اس لئے جب پرسنل لاء کا مسودہ تیار کرنے کی بار ی آئی تو پوری دنیا میں نیلسن منڈیلا کی نظر بھارتی مسلمانوں کے ایک نئے مگر موقر ادارہ 'اسلامک فقہ اکیڈیمی‘ پر پڑی۔ توجیہ یہ پیش کی گئی کہ بھارت چونکہ ایک متنوع آبادی کا ملک ہے، جہاں مختلف مذاہب اور نسلوں کے ماننے والے رہتے ہیں، اس لئے وہاں کا ادارہ احسن طریقے سے اس کثیر جہتی ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے مسائل کا ادراک کرسکتا ہوگا۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ لاتعداد مشکلات اور درپیش چلینجوں کے باوجود بھارتی مسلمانوں نے چند عالمی شہرت یافتہ ادارے نہ صرف قائم کئے بلکہ انہیں وسائل کی کمی کے باوجود زندہ بھی رکھا۔ ان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھارت میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ دینی تعلیم کے اداروں میں دارالعلوم دیوبند، مظاہرالعلوم، جامعۃ الفلاح اورلکھنوکا ندوۃ العلماء وغیرہ جیسے اداروں نے معیاری تعلیم کے میدان میں خاصا نام کمایا ہے۔
1990ء کی دہائی کے اوائل میں جب جید عالم دین قاضی مجاہد الاسلام قاسمی مرحوم اور ان کے رفقاء بشمول ڈاکٹر منظور عالم نے اسلامک فقہ اکیڈیمی کی داغ بیل ڈالی تو غرض یہ تھی کہ موجودہ حالات میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور دوسری وجوہ کی بنا پر جو انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور نئے مسائل نے جنم لیا، ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے اجتماعی غور و فکر کی بنیاد ڈالی جائے۔ علماء واصحاب دانش بلا امتیازِ مسلک باہمی تبادلہ خیال کے ذریعے ان مسائل کا ایسا حل نکالیں جو اصول شرع سے ہم آہنگ اور فکری مغالطوں سے پاک ہوں۔ چنانچہ ہر سال دو بار ملک کے مختلف حصوں میں علماء اور اصحاب دانش کو اکٹھا کیا جاتا ہے اور کسی مسئلے پر سیر حاصل بحث کے بعد فیصلہ مشتہر کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں میڈیکل سائنسز، معاشیات، سماجیات اور نفسیات کے ماہرین کی خدمات بھی لی جاتی ہیں۔ ابھی تک اکیڈیمی نے 28 فقہی، 17سماجی، 28 معاشی، 13طبی اور9 متفرق مسائل پر اجتہاد کے ذریعے اپنے فیصلے عام کئے ہیں۔
قصہ مختصر، اس کاوش کے تحت پچھلے دنوں اکیڈیمی نے شمال مشرقی صوبہ آسام کے شہر بدر پور میں غیر معمولی اجلاس منعقد کیا جس میں سو سے زیادہ اسکالروں اور مفتیوں نے شرکت کی جن میں ایران اور سعودی عرب کے مندوبین بھی شامل تھے۔ اس نشست کا موضوع 'وحدت امت‘ تھا۔ تین دن پر محیط بحث و مباحثہ کے بعد اتفاق رائے سے بتایا گیا کہ وحدتِ امت کو نقصان پہنچانے والے اختلافات اس وقت کا بڑا مُفسِدہ ہے، جس کے باعث امت مسلمہ بدحال ہے۔ اختلاف کی وہ تمام صورتیں جو فطری اور محمود ہیں ہرگز نقصان رساں نہیں، لیکن وہ بھی اگر شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ نہ ہوں تو امت کے لئے زہر ہیں۔ جو اختلافات مذموم ہیں، کتنے ہی اچھے جذبہ سے ہوں وہ بہرحال غیر شرعی ہیں۔
اکیڈیمی کے جاری کردہ بیان کے مطابق اس وقت شیعہ سنی اختلافات بھیانک شکل اختیار کرچکے ہیں، ان کی بنیاد پر امت مسلمہ بدترین جنگ اور خونریزی میں مبتلا ہے اور دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کرکے ان اختلافات کو بھڑکا کر عالم اسلام میں تباہی مچا رکھی ہے۔ ایک فرقہ کے لوگ دوسرے فرقے کے لوگوں کو بے تحاشا قتل کر رہے ہیں اور اس کو کارِ ثواب سمجھنے لگے ہیں۔ اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا اور اس کو فساد فی الارض سے تعبیر کرتا ہے۔ اس وقت عالم اسلام کے مختلف ملکوں میں شیعہ سنی آویزش جو شکل اختیار کر چکی ہے اس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ اس خونریزی کو روکنے کے لئے مصالحتی کوششیں اور مذاکرات ہی واحد حل ہے۔ اسکالرز اور مفتیان کرام متفق تھے کہ دنیا کے جس کسی حصے میں بھی سنی اور شیعہ مشترک آبادیاں ہیں، وہ پُرامن بقائے باہم کے ساتھ مشترکہ اقدار کی بنیاد پر زندگی گزاریں، ایک دوسرے کی مقدس مذہبی شخصیات پر سب و شتم سے گریز کریں۔ بیان میں بتایا گیا کہ فقہی مسائل میں اختلافات کا حق تو حاصل ہے مگر ان میں اپنی رائے کو سراسر حق اور دوسری رائے کو سراسر باطل قرار دینا ہرگز درست نہیں۔ جن مسائل میں اختلافات کی نوعیت حلال و حرام، جائز و ناجائز کی ہے وہ بھی چونکہ مختلف فیہ مسائل ہیں، اس لئے ان میں بھی دوسرے کے مسلک کو مکمل باطل قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ اس کے لئے دینا بھر کے علماء سے اپیل کی گئی ہے کہ اس طرح کے مسائل کو عوامی نہ بنایا جائے، اگرچہ انفرادی طور پر اپنا مسلک اور اس کے دلائل بیان کرنے میں مضائقہ نہیں۔ اہل سنت میں دیوبندی اور بریلوی تفرقہ کے بار ے میں بتایا گیا کہ جن مسائل میں اختلاف کی نوعیت عقیدہ کی ہے ان میں اپنے عقیدہ کا اثبات اور دلائل کی توضیح درست ہے، لیکن دوسرے کو اشتعال دلانے والی طرزگفتگو سے اجتناب ضروری ہے۔ تبادلہ خیال میں اپنے مسلک کے مستدلات کو بھی پیش نظر رکھا جائے اور تفصیلاً بیان کیا جائے، مگر دوسرے کی توہین، تنقیص اور تشنیع سے پرہیز کیا جائے۔ دوسرے کی طرف سے اگر نامناسب طرز کلام پایا جائے تو بھی اپنی طرف سے سنجیدگی اور حدود کی رعایت برقرار رکھی جائے۔ علماء کو یہ بھی تلقین کی گئی کہ حتی الامکان کسی کو بھی کافرکہنے سے گریزکیا جائے اور احتیاط سے کام لیا جائے۔
بین المذاہب مذاکرات کے اصول و آداب کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان کو رواداری، پُرامن بقائے باہم، دعوت دین، غلط فہمیوں کے ازالہ اور سماجی و سیاسی مشکلات کے حل کے لئے استعمال کیا جائے۔ چونکہ عقیدۂ توحید و رسالت اقوام عالم کے سامنے پیش کرنا اورکفر و شرک کے جملہ رسوم واعمال سے برأت کا اظہارکرنا مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے، مگر اس بات کی پوری کوشش کی جائے کہ اظہار برأت کے ایسے طریقے اور اسالیب اختیار نہ کیے جائیں جن سے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی دل آزاری ہو۔
فیصلے میں یہ بھی بتایا گیا کہ تشدد کا ہر وہ عمل جس کے ذریعے کسی فرد یا جماعت کو خوف و ہراس یا جان و مال و عزت کے خطرے میں مبتلا کیا جائے دہشت گردی ہے، خواہ یہ عمل کسی فرد یا جماعت کی طرف سے ہو یا حکومت کی طرف سے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ کسی بھی طرح کی ناانصافی کے خلاف مناسب اور موثر طریقہ اختیار کرنا یا آواز اٹھانا مظلوم کا حق ہے۔ دہشت گردی کے سد باب کی صورت یہ ہے کہ تمام لوگوںکو مساوی طور پر عدل و انصاف فراہم کرایا جائے اور انسانی حقوق کا مکمل احترام ہو؛ نسلی، قبائلی، مذہبی اور لسانی امتیازات کا لحاظ کئے بغیر تمام انسانوں کو باعزت زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرایا جائے، مگر کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو پر حملے کی صورت میں مدافعت کا پورا حق حاصل ہوگا۔
صحت مند انسانی معاشرہ کی تشکیل کے لئے مشترکہ سماجی مسائل جیسے غربت، کرپشن (بدعنوانی)، بے حیائی، عورتوں، مزدوروں اور سن رسیدہ افراد کے ساتھ زیادتی وغیرہ پر مختلف اہل مذاہب کے ساتھ مذاکرات وقت کی اہم ضرورت ہے، مسلمانوںکو اس میں حصہ لینا چاہئے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں میں خدمت خلق کے رجحانات کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے، اس مقصد کے لئے رفاہی تنظیمیں (N.G.O) قائم کی جائیں اور اس ضمن میں پہلے سے قائم اداروں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ علماء و عوام کو بتایا گیا کہ ایسے عصری معیاری تعلیمی اداروں کے قیام پر توجہ دی جائے جن میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی و اخلاقی تعلیم وتربیت کا بھی انتظام ہو۔