تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     09-03-2016

یہاں جرم نہیں‘ جرم کا بہانہ کافی ہے

پاک ٹی ہائوس لاہور سے نکل کر جونہی مال روڈ سے بائیں طرف مڑا‘ سامنے فُٹ پاتھ پر دو کاریں چڑھی کھڑی تھیں‘ وائی ایم سی کے بالکل سامنے‘ پیدل گزرنے کا راستہ تقریباً بالکل بند تھا۔ فُٹ پاتھ پر کھڑی ان کاروں سے چند گز پہلے سڑک کے کنارے فُٹ پاتھ کے بالکل ساتھ دو سفید رنگ کے موٹر سائیکلوں پر اپنی ''سیٹ‘‘ ٹکائے ہوئے خوش باش سے ٹریفک وارڈن خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ میں ان کے ساتھ جا کر کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے میری جانب ایک اجنبی سی نظر ڈالی اور اپنی گپوں کو وہیں سے دوبارہ شروع کر دیا جہاں میری ناگوار آمد کے باعث قطع کیا تھا۔
میں نے دخل در معقولات کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ یہ کاریں فٹ پاتھ پر کیوں چڑھی ہوئی ہیں؟ ان میں سے ایک نے بڑے طنزیہ انداز میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے جواب دیا کہ آپ نے گاڑی غلط جگہ پر پارک کی ہوئی تھی اس لیے ہم نے لفٹر سے اٹھوا کر یہاں رکھوا دی ہے۔ آپ غلط پارکنگ کا جرمانہ ادا کریں‘ ہم یہ گاڑی آپ کو نیچے سڑک پر اتروا دیں گے۔ میں نے اس کو کہا کہ میرے پاس آپ کی بات کے دو جواب ہیں۔ پہلا یہ کہ ان میں سے کوئی گاڑی میری نہیں ہے‘ دوسرا یہ کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اب یہ گاڑیاں صحیح جگہ پارک کی گئی ہیں؟ دوسرا وارڈن جو ابھی تک خاموش تھا جھٹ سے کہنے لگا آپ کی اس بات کا کیا مطلب ہے؟ میں نے کہا مطلب بڑا صاف اور واضح ہے۔ آپ نے یہ کاریں غلط جگہ پر پارک کرنے کے جرم میں لفٹر سے اٹھوا کر یہاں فٹ پاتھ پر رکھوا دی ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اب یہ گاڑیاں پہلے سے بھی زیادہ غلط جگہ پر پارک کی گئی ہیں۔ فٹ پاتھ چلنے والوں کے لیے ہے۔ پہلے یہ گاڑیاں کتنی بھی غلط جگہ پر پارک کی گئی ہوں تو بھی وہ بہرحال سڑک پر ہی تھیں۔ اب یہ فٹ پاتھ پر کھڑی ہیں۔ گاڑیوں کا فٹ پاتھ پر چڑھنا یا رکھوانا ہر حال میں غلط ہے۔ آپ نے میرے خیال میں ان گاڑیوں کے مالکان سے بھی زیادہ غلط پارکنگ کی ہے۔ صرف جرمانہ وصول کرنے کی غرض سے آپ 
نے ایک ایسی خلاف ورزی کی ہے جو اس جرم سے زیادہ سنگین ہے جس کے الزام میں آپ نے ان کاروں کو لفٹر سے اٹھوایا ہے‘ محض جرمانہ وصول کرنے کی غرض سے۔
پہلے والے نے سر کھجاتے ہوئے کہا : سر! اگر آپ کی گاڑی ان میں نہیں ہے تو آپ کو تو پھر کوئی پرابلم نہیں ہے۔ میں نے کہا مجھے پرابلم ہے۔ آپ نے میرا پیدل چلنے کا حق ختم کر دیا ہے۔ ان گاڑیوں کی فٹ پاتھ پر موجودگی سے میرا فٹ پاتھ پر چلنے کا حق سلب ہوا ہے۔ مجھے اب فٹ پاتھ سے نیچے اتر کر سڑک پر سے یہ جگہ پار کرنی پڑ رہی ہے۔ آپ پوچھتے ہیں کہ مجھے کیا پرابلم ہے؟ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور مجھے نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دوبارہ گفتگو شروع کرنے کی کوشش کی تو مجھے گرمی آ گئی۔ میں نے کہا میں اس منظر کی تصویر کھینچنے لگا ہوں اور اس کو نہ صرف اخبار میں شائع کروائوں گا بلکہ اسے لے کر آپ کے ڈی آئی جی ٹریفک کے پاس جائوں گا‘ مجھے اور کوئی کام نہیں‘ میں بالکل فارغ ہوں اور اسی قسم کی مصروفیات میں اپنا دن گزارتا ہوں۔ یہ کہہ کر میں نے اپنا موبائل فون نکالا۔ اب دونوں کے چہرے خاصے مسکین سے بن گئے‘ لہجے میں لجاجت آ گئی اور فوری طور پر موٹر سائیکلوں سے اٹھ کر میرے پاس آ کر کہنے لگے‘ آپ سو فیصد درست کہہ رہے ہیں۔ ہماری یہ پارکنگ ان گاڑی مالکان سے زیادہ غلط جگہ پر پارکنگ ہے۔ ہم ابھی لفٹر بلواتے ہیں اور ان کو کسی مناسب جگہ پر پارک کرواتے ہیں۔ آپ نے نشاندہی کی‘ آپ کا شکریہ۔ بس ہم ابھی اس کا حل نکالتے ہیں۔ آپ کو آئندہ گاڑیاں فٹ پاتھ پر پارک کی ہوئی نظر نہیں آئیں گی۔ میں وہاں سے اگلے چوک بنک سکوائر پر کھڑے اپنے دوست چودھری شفیق صاحب کے ساتھ کھانے پر چلا گیا۔ وہاں سے دنیا اخبار کے دفتر کا چکر لگایا ‘جب واپس تین گھنٹے بعد وہاں سے گزرا تو ان دو گاڑیوں کی جگہ پر دو اور گاڑیاں کھڑی تھیں۔ وہ دونوں ٹریفک وارڈن وہاں موجود نہیں تھے۔ غالباً مزید گاڑیاں اٹھانے گئے ہوں گے یا ممکن ہے ان کی ڈیوٹی ختم ہو گئی اور نئے آنے والے ٹریفک وارڈنز نے یہ کام وہیں سے شروع کر دیا ہو جہاں ان کے پیشرو چھوڑ کر گئے تھے۔
اب ٹریفک پولیس کا بنیادی کام لوگوں کی رہنمائی اور ٹریفک کی بہتری سے زیادہ جرمانوں کی وصولی بن گیا ہے۔ دنیا بھر میں یہ ہوتا ہے کہ ایک سسٹم بنتا ہے۔ اس میں جو خرابیاں ہوتی ہیں وہ وقت کے ساتھ ساتھ دور کی جاتی ہیں۔ انہیں درست کیا جاتا ہے۔ چیزوں میں بہتری آتی ہے۔ ہمارے ہاں اس کے بالکل الٹ ہو رہا ہے۔ ایک ادارہ بنتا ہے۔ اس میں سسٹم بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کام تھوڑا بہت چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ اس میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں کی جاتی ہیں جو سسٹم کو کمزور کرنے اور افراد کو خوش کرنے پر مبنی ہوتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاملات بہتر ہونے کے بجائے خراب تر ہوتے جاتے ہیں۔ دیگر بے شمار اداروں کی طرح ٹریفک پولیس کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ اللہ خوش رکھے چودھری پرویز الٰہی کو (اس کی آمریت دوستی اور آمر پرستی والے اقدامات اور بیانات سے قطع نظر) اس نے پنجاب کو جہاں اور کئی مثبت چیزیں دیں اس میں ایک یہی سٹی ٹریفک پولیس والا نظام تھا۔ چودھری پرویز الٰہی کے سارے دور میں یہ نظام پوری کامیابی سے اس طرح چلتا رہا کہ عام آدمی کو اس سے فائدے زیادہ اور تکلیف کم تھی۔ اب معاملہ الٹ ہے‘ عام آدمی کو اس سے فائدہ تو شاید کوئی نہیں ہو رہا البتہ تکلیفات میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے۔
پولیس وارڈن دو دو چار چار کی ٹولیوں میں درختوں تلے‘ دوکانوں کے سائے تلے اور فلائی اووروں کی چھائوں میں کھڑے ہو کر گپیں ہانکتے ہیں اور آتے جاتے موٹر سائیکل سواروں کو گھیرتے رہتے ہیں۔ بڑی گاڑی والوں کو کوئی پوچھنے کی نہ ہمت کرتا ہے اور نہ جرا￿ت۔ خدا جانے کار سوار کیا نکل آئے؟ اور کس کو فون کر کے طبعیت صاف کروا دے‘ جیسا کہ پرسوں میاں چنوں ٹال پلازہ پر ہوا ہے۔ ٹال پلازے پر بیٹھے ہوئے اہلکار نے گزرنے والی گاڑی سے ٹال ٹیکس کی رقم جو صرف مبلغ تیس روپے تھی وصول کرنے کی غرض سے بیرئیر نیچے گرا دیا۔ یہ قدم اٹھانا اسے مہنگا پڑ گیا۔ کار میں مقدس و محترم جناب ڈی سی او خانیوال تشریف فرما تھے۔ ظاہر ہے ان سے ٹال طلب کرنا ایک ناقابل معافی جرم تھا‘ لہٰذا انہیں ٹال پلازہ اہلکار کی اس گستاخی پر گرمی آ گئی؛ حالانکہ شفٹ انچارج صاحب کی گرمی سے ڈر کر معذرت کر چکا تھا مگر سبز نمبر پلیٹ والی گاڑی کو اس طرح روکنا بہت بڑی گستاخی تھی اور گستاخ کو سزا تو ملنی چاہیے تھی۔ ڈی سی او نے ڈی ایس پی میاں چنوں کو ایکشن کا حکم دیا۔ ڈی ایس پی اتنی پھرتی سے کسی ڈکیتی کی جگہ پر نہیں پہنچا ہو گا جتنی جلدی وہ ٹال پلازے پہنچا اور معمولی سے اہلکار کو پکڑ کر تھانے لے آیا اور حوالات میں بند کر دیا۔ بعد ازاں معافی تلافی پر اسے چھوڑا گیا۔ اب وہ بیچارہ ساری عمر کسی سبز نمبر والی گاڑی کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔ اگر یہ واقعہ کسی ایسے ملک میں ہوا ہوتا جہاں روزانہ کی بنیاد پر اپنی حکومت کی ایمانداری اور میرٹ کی قصیدہ گوئی میں دعوے کرنے والے خادم اعلیٰ کے بجائے کوئی رتی برابر حقیقی ایماندار اور میرٹ پر یقین رکھنے والا کوئی صاحب ضمیر وزیراعلیٰ ہوتا 
‘تو ڈی سی او کو جو لاہور سے خانیوال جا رہا تھا ‘میاں چنوں سے واپس لاہور بلا لیتا۔ مگر یہ مملکت خداداد پاکستان ہے جو امیروں‘ جاگیرداروں‘ افسروں‘ وڈیروں اور حکمرانوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ عام آدمی کی اس میں جگہ کوئی نہیں ‘ہاں اگر وہ اپنی ڈھٹائی‘ سخت جانی اور بے حیائی کی وجہ سے زندہ ہے تو اس میں حکمرانوں کا کوئی قصور نہیں‘ وہ یہ سب کچھ اپنی مرضی سے برضا و رغبت کر رہا ہے۔
بات کچھ اور ہو رہی تھی اور کہیں اور چلی گئی۔ چودھری پرویز الٰہی کے زمانے میں میرا ذاتی تجربہ ہے کہ یہ ٹریفک پولیس جس میں میرٹ پر پڑھے لکھے لڑکے بھرتی کئے گئے تھے‘ نہایت ایمانداری اور جانفشانی سے ڈیوٹی دیتے تھے اور ان کے بارے میں شاید ہی کبھی کبھار رشوت لینے کی شکایت سننے میں آتی تھی۔ اب کم از کم ملتان میں تو یہ کاروبار خاصا چل نکلا ہے۔ چوک میں ٹریفک پھنسی ہوئی ہے اور دو تین وارڈن ایک طرف ناکہ لگائے موٹر سائیکل والوں کو گھیر رہے ہیں۔ ٹریفک کی بنیادی ذمہ داری ٹریفک کو رواں رکھنا ہے نہ کہ چالان کرنا مگر ٹریفک کی روانی سے کسی کو غرض نہیں‘ البتہ چالانوں پر پوری توجہ ہے۔ گاڑیوں کی نمبر پلیٹوں کا معاملہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنی مرضی کی نمبر پلیٹ لگائے پھر رہا ہے۔ بے شمار گاڑیوں پر ایسی نمبر پلیٹیں لگی ہوئی ہیں کہ اگر ایکسیڈنٹ کر کے موقعہ واردات سے فرار ہونا چاہے تو کوئی مائی کا لعل اس گاڑی کا نمبر نہیں پڑھ سکتا۔ نمبر پلیٹ بنانے والے سینکڑوں قسم کی نمبر پلیٹیں بنا رہے ہیں‘ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ سارا ملک جس طرح شتر بے مہار چل رہا ہے ‘یہ معاملہ بھی اسی طرح چل رہا ہے۔
بہاولپور کے راستے میں ایک موٹروے پولیس والے نے ایک گاڑی کا چالان اس بنا پر کیا ہے کہ اس نے دن کو لائٹ جلائی ہوئی تھی۔ ناروے وغیرہ میں ہائی ویز پر لازم ہے کہ ہر گاڑی ہر وقت ہیڈ لائٹ آن رکھے ‘ادھر اس ''جرم‘‘ میں چالان ہو رہے ہیں‘ یہاں سڑک پر چالان کرنے کے لیے جرم ہونا ضروری نہیں‘ جرم کا بہانہ ہی کافی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved