تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     09-03-2016

جادواتر جائے بھی تو کیا؟

جن پانچ مقامات کے لیے انتخابات کا اعلان ہوا ہے‘ ان میں سے ایک میں بھی کبھی جن سنگھ یا بھاجپا کی سرکار نہیں بنی۔ چار صوبوں۔۔۔۔مغربی بنگال ‘ تامل ناڈو‘ آسام اور پانڈے چیری میں، جو وفاقی حکومت کے زیر کنٹرول ہیں، اگر بھاجپا ہار جائے تو بھی کچھ فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ ان مقامات پر کانگریس یا کمیونسٹ پارٹی یا علاقائی پارٹیوں کی سرکار یں رہی ہیں، لیکن گزشتہ ایم پی چنائو میں بھاجپا کو ان صوبوں میں کافی اچھے ووٹ ملے اور اس کی نشستیں بھی بڑھیں۔ 2014 ء کے چنائو میں آسام میں اسے7 سیٹیں اور 36.5 فیصدووٹ ملے جبکہ اقتدار میں بیٹھی ہوئی کانگریس پارٹی کو 29.6 فیصد ووٹ ملے۔ تامل ناڈو جیسے صوبہ میں اسے ایک ایم پی کی سیٹ مل گئی اور کیرل میں اسے 10.3 فیصد ووٹ ملے۔ مغربی بنگال میں اس کو17 فیصد ووٹ مل گئے۔ مودی لہر کے دوران ملی اس بڑھت کے دم پر اب بھاجپا امید کر رہی ہے کہ کم از کم آسام میں تو وہ اپنی سرکار بنا سکے گی۔ دوسرے صوبوں میں بھی وہ اپنے ووٹ بڑھانا چاہتی ہے۔ وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ علاقائی پارٹیاں اتحاد بنا کر وہاں سرکار میں حصہ داری کریں۔
مرکز میں بھاجپا کی واضح اکثریت والی سرکار ہے اور اس کے لیڈر نریندر مودی کا ریکارڈ ابھی تک ایک صاف وزیراعظم کا بنا ہوا ہے۔ ایسے میں اگر وہ جنوبی اور مشرقی بھارت میں اپنا ڈنکا بجانا چاہے تو اس کی اس چاہت کو غلط نہیں کہا جا سکتا، لیکن اس کے اس رستے میں کئی روڑے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کے صوبائی لیڈروں کا ٹوٹا ہے۔ جو دِقت اسے دلی اور بہار میں تھی‘ وہ ان صوبوں میں بھی ہوگی؛ حالانکہ آسام میں مقامی پارٹیوں سے سمجھوتے ہوئے ہیں اور سروانند سونووال کو لیڈرکی شکل میں گھمایا جا رہا ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ دوسال پہلے جو مودی کا جادوچل پڑا تھا‘ وہ اب بھی برقرار ہے یا نہیں؟ کہیں وہ ریت کی دیوار کی طرح بکھرتا تو نہیں جا رہا؟ صوبائی 
چنائو میں مقامی مدعے اہم ہوتے ہیں۔ ان میں سدا وفاقی لیڈروں کا کردار کم ہوتا ہے۔ اس نظر سے اگر مودی کا جادواتر بھی جائے تو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ لیکن 2014 ء میں جو ووٹ صرف جادو کی بنیاد پر ملے تھے‘ ان کا نقصان توشاید بھاجپا کو جھیلنا پڑ سکتا 
ہے۔ اس نقصان کو اپوزیشن اور سیاسی تجزیہ نگار اتنا بڑھا چڑھا کر بتائیں گے کہ مودی سرکار کے لیے اگلے تین برس کاٹنا مشکل ہوجائیں گے۔ زیادہ اچھی بات یہی ہوگی کہ ان صوبائی چنائو کو بھاجپا اپنی عزت کا سوال نہ بنائے۔
بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل 
پاکستان کے مشیر خارجہ جو تقریباً وزیر خارجہ اورکافی تجربہ کار سیاست دان سرتاج عزیزنے راز سے پردہ اٹھایا ہے، اس سے ساری مسلم دنیا کو خبر دار ہو جانا چاہیے۔ انہوں نے واشنگٹن میں کچھ دفاعی تجزیہ نگاروں کے بیچ بولتے ہوئے یہ بات کھلے عام کہہ دی۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے شمالی وزیرستان کا علاقہ دہشت گردی کا گڑھ بن چکا تھا۔ پاک افغان سرحد پر قائم اس علاقہ میں بم بنانے کی فیکٹریاں کھلی ہوئی تھیں‘ دہشت گردوں کی تربیت کے سینٹر چل رہے تھے اور خود کش بمباروں کو تیارکیا جاتا تھا۔ وہاں بم بنانے کی اتنی فیکٹریاں تھیں کہ اگلے بیس برس تک وہ سارے جنوب ایشیا میں دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھ سکتے تھے۔ انہوں نے اپنا آنکھوں دیکھے حال بتاتے ہوئے کہا کہ جب میں میران شاہ کی ایک مسجد میں گیا تو باہر سے مجھے سب ٹھیک ٹھاک لگا۔ مسجد کے انڈرگرائونڈ میں 70 کمرے تھے۔ اس تین منزلہ مسجد میں بم بنانے کی چار پانچ 
فیکٹریاں تھیں۔ اس میں میٹنگ روم ‘ تربیت سینٹر‘ وی آئی پی روم‘ خود کش ٹریننگ سینٹر وغیرہ بنے ہوئے تھے۔ سرتاج عزیز کے مطابق دہشت گردوں کی یہ جان لینے والی تجارت ان افغانوں نے شروع کی جو افغانستان سے بھاگ کر پاکستان آ گئے تھے۔ انہوں نے تیس چالیس مساجد میں یہ کام شروع کیا ہوا تھا۔ ان افغان پناہ گزینوں کو روکنے کا کوئی انتظام پاکستان کے پا س نہیں ہے۔ یہ قبائلی علاقے صدیوں سے کسی بھی بادشاہ یا سرکار کے ظابطے میں نہیں رہے۔ ان سات قبائلی علاقوں میں سے ایک شمالی وزیرستان ہے۔ اس علاقے میں پاک آرمی نے جون 2014 ء میں 'ضرب عضب‘ کے نام سے آپریشن شروع کیا تھا ‘جس میں دس ہزار دہشت گرد مارے گئے۔ سرتاج عزیز دفاعی ماہروںکو یہ بتا رہے تھے کہ پاکستان کی سرکار اور فوج نے کتنی بہادری کا کام کیا۔ اس میں شک نہیں کہ وہ مشن بہت ہی بہادرانہ تھا لیکن ویسا ہی مشن پنجاب اور پاکستانی کشمیر کے خلاف کیوں نہیں چلایا جاتا؟ جو بھارت کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں‘ ان کی ان دیکھی کیوں کی جا رہی ہے؟ اگر انہیں تحفظ دینا بند کر دیا جائے تو وہ اپنے آپ سوکھے پتے کی طرح جھڑ جائیں گے۔ پٹھان کوٹ جیسے واقعے ہو ہی نہیں پائیںگے۔ دہشت گردوں کے گڑھ کے طور پر پاکستان کی بدنامی ساری دنیا میں پھیل گئی ہے۔ دہشت گردی کے ذریعے جتنا نقصان بھارت کا ہو رہا ہے‘ اس سے زیادہ خود پاکستان کا ہو رہا ہے۔ پاکستان کی سرکار کو چاہیے کہ وہ عوام کو یہ بھی سمجھائے کہ دہشت گردی اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ قرآن شریف کہتا ہے کسی ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ان اسلام مخالف کارروائیوں کے لیے مسجد جیسی پاک جگہوں کاغلط استعمال تو گناہ کا فعل ہے۔
جے این یو کا آپشن
کنہیا کی گرفتاری کے وقت میں نے لکھا تھا کہ کہ سرکار نے جے این یو معاملے میں تل کا تاڑ بنا دیا ہے۔کچھ لڑکوں کی بچگانہ حرکت کو انہوں نے غیرضروری طول دے کر ملک اور دنیا میںزبردست بدنامی 
مول لے لی ہے۔ افضل گورو اور کشمیر کے نعرے کچھ لڑکوں نے لگا کر بے وقوفی کا مظاہرہ کیا،لیکن سرکار نے ان پر وطن کی غداری کا مقدمہ درج کرکے بڑی ہی بے وقوفی کی مثال پیش کی۔ کنہیا کی تقریر کے سامنے راہول گاندھی کی تقریر ماسہ بھر بھی نہیں ہوتی۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ اگر زبانی مڈھ بھیڑ ہو جائے تو کنہیا مودی کو بھی ڈھیرکر سکتا ہے۔ یہ بھی میں نے سنا کہ کنہیا نے آئین اور جمہوریت کی بار بار قسم کھائیں، لیکن بار بار لینن ‘ منوواد امبیڈکر‘ ذات کی بنیاد پر ریزرویشن اور 'آزادی ‘کی بات کرنا یہ بتاتا ہے کہ سکول آٖف انٹر نیشنل سٹڈیزکاشاگرد ہونے کے باوجودکنہیا کے پاس اپنا کوئی بنیادی نظریہ نہیں ہے۔ وہ مارکس وادکی بدبودار کڑھی ہندی کی چم چماتی چمچ سے پروس رہاتھا۔ جمہوریت کی جتنی جڑیں ہٹلر اور مسولینی نے کھودی ہیں‘ اس سے زیادہ لینن، سٹالن اور مائو نے کھودی ہیں۔ اگر کنہیا ان لیڈروں کے ملک میں پیدا ہوا ہوتا تو اس کے والدین اسے اب تک ڈھونڈ رہے ہوتے کہ کہاں گم ہوگیا۔کنہیا خوش نصیب ہے کہ اس بھوندو سرکار نے اسے اتنا مشہور کردیا لیکن اس کی اس دوسری تقریر کے اشارے صاف ہیں کہ وہ سٹوڈنٹس کے بیچ لچھے دار باتیں ضرور کر سکتا ہے لیکن اس کی اتنی عقل نہیں ہے کہ وہ ملک کے اس وقت جیسے بھی لیڈر ہیں ‘ ان کا مقابلہ کر سکے یا ملک کو نیا راستہ دکھا سکے۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ انا ہزارے تحریک اور جے این یو اوٹھا پٹک میں ملک کے لیے ابھی تک کوئی آپشن نہیں ابھرا۔ سبھی سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کی مخالفت کرتے کرتے ایک دوسرے جیسی ہو گئی ہیں۔ پتا نہیں‘ کون سی ایسی عوامی تحریک اٹھ کھڑی ہوگی کہ وہ بھارت کی اس پٹی پٹائی سیاست کا آپشن بن سکے گی ؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved