تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     09-03-2016

اور اب مصطفی کمال!

الطاف حسین سے مصطفی کمال تک دائرے کا یہ صفر، کیا کاتبِ تقدیر کا فیصلہ ہے؟ کیا لوگ سیاسی حرکیات سے واقف نہیں؟ ایک اور سوال جو اہم تر ہے: جو تنظیم ایک فوجی سربراہ کے زیرِ سایہ قائم اور ایک دوسرے فوجی سربراہ کے زیرِسرپرستی پھلی پھولی ہو، اس کی قیادت 'را‘ کی ایجنٹ کیسے ہو سکتی ہے؟
کراچی بلدیہ کی تاریخ مصطفی کمال سے شروع نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے نعمت اﷲ خان تھے اور عبدالستار افغانی بھی۔ شہر کی تعمیر اس طرح ہوئی کہ کرپشن کا کوئی نشان اس کے چہرے پر نہیں تھا۔ مصطفی کمال کا دور‘ ان سے مختلف ہے۔ تعمیر ضرور ہوئی لیکن یہ کرپشن سے داغ دار بھی تھی۔ بطور میئر وہ اس المیہ داستان کا ایک کردار تھے جو کراچی کے لیے لکھا گیا۔ توبہ بلا شبہ بڑی نعمت ہے لیکن یہ فتح مکہ کے بعد میسر آئے تو سعادت میں کمی آ جاتی ہے۔ الطاف حسین کی سیاسی عمر تمام ہوئی۔ طبعی عمر کا معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن آثار اچھے نہیں۔ رخشِ عمر دیکھیے کہاں تھمے۔ اس کی باگ بظاہران کے ہاتھ میں نہیں۔ ایسے وقت میں ضمیر کا جاگنا؟
چلیے، توبہ بہر حال غنیمت ہے اور اس کی داد دینی چاہیے۔ سوال لیکن یہ ہے کہ دائرے کا سفر کیوں؟ مسئلہ الطاف حسین نہیں، وہ لسانی سیاست اور گروہی عصبیت ہے جو الطاف حسین کو جنم دیتی ہے۔ اس عصبیت کے دائرے میں ایک نیا تجربہ کیا جا رہا ہے۔ عمران فاروق بھی یہی کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے لیکن اُس وقت یہ فیصلہ کیا جب الطاف حسین کی گرفت کمز ور نہیں پڑی تھی۔ اس سے پہلے عظیم طارق اور آفاق احمد اور نہیں معلوم کہ 'خاک میںکیا صورتیں ہوںگی جو پنہاں ہوگئیں‘۔ آج ایک بار پھر شاخیں کاٹی جارہی ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ طالبان اور ایم کیو ایم کے مسئلے کو ایک ہی طرح سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ برے طالبان کا جگہ اچھے طالبان۔ 'بری‘ مہاجر قیادت کا متبادل 'اچھی‘ متبادل قیادت۔ اچھے اور برے کا تعین بھی آپ کے حسنِ کرشمہ ساز کا شاہکار ہے۔
ایم کیو ایم کیوں بنی؟ فوجی آمر قومی سیاسی جماعتوں سے خائف رہتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق صاحب پیپلز پارٹی ہی سے نہیں، جماعت اسلامی اور دوسری قومی جماعتوں سے بھی خوف زدہ تھے۔ قومی سیاسی جماعت یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک عوام کو متحد کر دے۔ عوام کا اتحاد، ایک آمر کو کبھی گوارا نہیں ہوتا۔ ضیاء الحق مرحوم کو بھی نہیں تھا۔ کبھی دینی استدلال تلاش کیا کہ ' اسلام میں سیاسی جماعتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں‘۔ کسی نے مولانا گلزار احمد مظاہری مرحوم کے حوالے سے روایت کیا ہے کہ ضیاء الحق صاحب نے پوچھا: قرآن مجید میں سیاسی جماعتوں کی اجازت کس آیت میں ہے؟ جواب ملا: ''جس آیت میں مارشل لا کی اجازت ہے، اس سے اگلی آیت میں‘‘۔ دینی استدلال جب مسترد کر دیا گیا تو غیر جماعتی انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔ اس میں بھی، ملک قاسم مرحوم کی مدد سے، پیپلز پارٹی کوشرکت سے روکا گیا۔ اس 'کامیاب آپریشن‘ کے ساتھ کراچی میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا زور توڑنے کے لیے مہاجر سیاست کو فروغ دیا گیا۔ ایک آمر کا مقصد پورا ہوگیا، لیکن پاکستان اورکراچی کو کیا ملا؟
جب یہ جن بوتل سے باہر آگیا تو اسے دبارہ بوتل میں بند کر نی کوشش کی گئی۔ مہاجر سیاست کو باقی رکھتے ہوئے، الطاف حسین کا متبادل تلاش کیا گیا۔ اگر لوگ سیاسی حرکیات سے باخبر ہوتے تو جانتے کہ سیاسی قیادت گملوں میں نہیں اگتی۔ اس کی نشو ونما کے لیے فطری ماحول چاہیے۔ ماضی میں ایسی ہر کوشش ناکام ہوئی۔ یہ معاملہ صرف ایم کیو ایم کے ساتھ نہیں ہوا۔ پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور نہیں معلوم کتنی جماعتوں کے ساتھ یہی سلوک ہوا۔ چیزیں لیکن اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہیں۔ ایسی ہر کوشش ناکام ہوئی۔ الطاف حسین صاحب پر تو معلوم ہوتا ہے کہ قانونِ قدرت نافذ ہو رہا ہے۔ ان کی سیاست فطری طریقے سے اپنے اختتامی دور میں داخل ہو چکی۔ یہ موقع تھا کہ اہلِ کراچی کو لسانی عصبیت سے نکال کر، ایک بار پھر قومی دھارے میں شامل کیا جاتا۔ قومی جماعتیں ماضی کی طرح، مہاجروں کی بصیرت اور قدرتِ کلام سے فائدہ اٹھاتیں۔ اگر کراچی کے شہریوں کے حقوق کا مسئلہ تھا تو قومی جماعتیں ان کی نمائندگی کرتیں۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ ہم نے ایک بار پھر دائرے ہی میں سفر کا فیصلہ کیا۔
الطاف حسین کا توڑ قومی سیاسی جماعتیں ہیں، نئی ایم کیو ایم نہیں۔ تحریکِ انصاف کی طرف کراچی کے عوام کی ایک بڑی تعداد نے رخ کیا ہے۔ یہ وفاق کے لیے نیک شگون ہے۔ خیبر پختون خوا میں اکثریت رکھنے والی جماعت اگر کراچی میں مضبوط ہوتی ہے تو یہ پاکستان کی مضبوطی ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی آگے بڑھتی ہے تو یہ شہری اور دیہی سندھ میں فاصلوں کو کم کرے گی۔ جماعت اسلامی اگر اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کرتی ہے تو یہ ملک بھر کے عوام کو قریب کرے گی کہ وہ کسی لسانی یا علاقائی عصبیت پر کھڑی ہے نہ کسی ایک مسلک کی نمائندہ ہے۔کراچی کے مسائل دو ہیں: جرم اور سیاست میں طلاقِ بائن اور کراچی کا قومی دھارے میں واپس لانا۔ وعدہ معاف گواہوں سے مجرم کو تو سزا دی جا سکتی ہے، جرم کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔
مذہبی انتہا پسندی کے باب میںکیا ہوا؟ پاکستان میں سب سے پہلے قومی مفاد کے نام پر ایک مذہبی گروہ کو مسلح کیا گیا کہ فلاں محاذ پر ملک کی جنگ لڑے گا۔ جب اس سے معاملہ نبھ نہ سکا تو ایک دوسرے مذہبی گروہ کو ہتھیار پکڑا دیے گئے۔ اس نے کل پرزے نکالے تو تیسرے گروہ کی طرف رخ کر لیا گیا۔ آج ایک کے سوا سب مذہبی گروہ، ہتھیار چلانے کی تربیت رکھنے والے افراد کے معاملے میں خود کفیل ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایک تجربے کی ناکامی کے بعداصل 
سوال پر غور ہوتا کہ 'غیر ریاستی عناصر کے پاس ہتھیار اور ان کے استعمال کی تربیت کا ہونا کیا ملک کے مفاد میں ہے؟‘۔ اس سوال پر کسی نے غور نہیں کیا۔ ایک گروہ نے حکم عدولی کی تو دوسرا کھڑا کر دیا۔ ایم کیو ایم کے معاملے میں یہی ہو رہا ہے۔ ایک مہاجر قیادت کا جواب ایک دوسری مہاجر قیادت۔ اصل سوال یہاں بھی ایک اور تھا: کیا قومی جماعتوں کی جگہ لسانی یا علاقائی عصبیت کی علم بردار جماعتوں کو مضبوط کرنا چاہیے؟
سیاسی جماعت کا قیام کھیل تماشا نہیں۔ ایک شہر تک محدود کسی جماعت کو سیاسی جماعت کہنا بھی اس اصطلاح سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ مصطفی کمال اور ان کے احباب کے پاس صحیح راستہ یہ تھا کہ وہ تحریکِ انصاف میں شامل ہو جاتے۔ مہاجروں کو بھی یہی مشورہ دیتے کہ وہ قومی دھارے کا حصہ بنیں۔ وہ الطاف حسین کی ذات نہیں، اس تصور ِسیاست کو رد کرتے جوالطاف حسین پیدا کرتے ہیں۔ افسوس کہ ان کو یہ مشورہ نہیں دیا گیا۔ نہیں معلوم ہم کب تک دائرے کا سفر کرتے رہیں گے۔کیا کاتبِ تقدیر کا ہمارے لیے یہی فیصلہ ہے؟
دوسرا سوال بھی جواب طلب ہے کہ جس جماعت کی تاریخ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے بغیر مکمل نہیں ہوتی، اس کی قیادت کا 'را‘ سے کیا تعلق؟ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی دھاک ساری دنیا پر ہے۔ ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ تنہا سی آئی اے، را اورموساد کا مقابلہ کر سکتی اور ان کے عزائم ناکام بنا سکتی ہیں۔ یہ کیسے مان لیا جائے کہ را کے ایجنٹ کراچی پر قابض ہوں اوران کی نظروں سے اوجھل رہیں؟ ساتھ ہی فوج کا سپہ سالاراور ملک کا صدران کی سرپرستی کی شہرت رکھتا ہو؟ میرے احاطۂ خیال میں تو یہ بات نہیں آ سکی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved