فیض صاحب کس موقع پر یاد آئے ؎
سرِخسرو سے ناز کج کلاہی چھن بھی جاتا ہے
کلاہ خسروی سے بوئے سلطانی نہیں جاتی
گزشتہ روز ڈاکٹر فاروق ستار کی پریس کانفرنس میں ذومعنی جملے سُن کر لگا کہ کلاہ خسروی سے بوئے سلطانی جاتے جاتے ہی جائے گی۔ کچرے کو آخری آرام گاہ تک پہنچانے‘ اُبلتے گٹروں پر ڈھکن رکھنے اور ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی باتیں چند سال پہلے تک کراچی کے شہریوں اور ایم کیو ایم کے مخالفین کی نیند حرام کر دیتی تھیں۔ بھائی کا خطاب ختم ہونے سے پہلے ہی بازار بند اور گلی ‘محلے سنسان ہو جایا کرتے تھے مگر اب پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے اور وہ دن گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔دھواں دار پریس کانفرنس کے بعد کراچی میں زندگی کے معمولات میں فرق پڑا نہ مخالفین پر کپکپی طاری ہوئی اور نہ ایم کیو ایم کے کارکن غول در غول سڑکوں پر نکلے۔
تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ پولیس‘ انتظامیہ اور رینجرز پریس کانفرنس کا سنجیدگی سے نوٹس نہ لے اور اس وقت تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے جب تک ان ذومعنی جملوں کا کوئی ناخوشگوار نتیجہ سامنے نہ آئے۔ تازہ بغاوت نے ایم کیو ایم کو پریشان کیا ‘ایم کیو ایم کے کئی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے علاوہ رابطہ کمیٹی کے کئی اہم ارکان سے باغی گروپ کے مبینہ رابطوں کی اطلاعات نے خوف اور اضطراب میں اضافہ کر دیا اور بھائی کی قیام گاہ پر پولیس کے پہرے کے علاوہ ویڈیو لنک میں خلل اندازی سے بے چینی بڑھ چکی‘ جو مایوسی کا سبب ہے اور انسان ہو یا گروہ مایوسی کے عالم میں کچھ بھی کر سکتا ہے۔ شُتر مُرغ کی طرح آنکھیں بند کرنا دانائی بہرحال نہیں۔
کراچی کے محاذ پر آپریشن کے طفیل یہ حوصلہ افزا پیشرفت ہو چکی کہ اب زبانیںگنگ نہیں لب آزاد ہیں اور لوگ جو باتیں خلوت میں کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے اب بھری بزم میں کہنے لگے ہیں اور انہیں ''قائد کا جو غدار ہے موت کا حقدار ہے‘‘ کا نعرہ سننے کو ملتا ہے نہ بند بوری کا پیغام۔ ذومعنی جملے بول کر بھی وضاحت کرنا پڑتی ہے کہ ان کا کوئی غلط مفہوم اخذ نہ کیا جائے۔
یہ ضرب عضب اور کراچی آپریشن کی برکت ہے کہ شہباز تاثیر زندہ سلامت بازیاب ہوا اور اس نوجوان کو کوئی گزند نہ پہنچی‘ اگرچہ بلوچستان سے جس انداز میں بازیابی ہوئی‘ اس نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا اور سرکاری دعوے پر یقین کرنے کے لیے حواس مجتمع کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے ۔آخر ڈاکٹر عمران فاروق کے مبینہ قاتل محسن سید‘ خالد شمیم‘ یا مغوی شہباز تاثیر اپنی گرفتاری اور برآمدگی کے لیے بلوچستان کا انتخاب کیوں کرتے ہیں لیکن بہرحال یہ خوش آئند پیشرفت ہے ع
کام وہ اچھا ہے کہ جس کا مآل اچھا ہے
اللہ کرے کہ مخدوم یوسف رضا گیلانی کا صاحبزادہ علی حیدر گیلانی بھی شہباز تاثیر کی طرح تاوان دیئے بغیر بخیرو عافیت گھر لوٹے اور تین سال بعد گیلانی ہائوس کو بھی خوشیاں دیکھنا نصیب ہو۔
اندرونی سطح پر حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں اور ریاست کی رٹ بحال ہو رہی ہے جو ہمارے حکمرانوں اور قومی اداروں کی ناقص حکمت عملی اور کچھ نہ کرنے کی عادت کی وجہ سے پامال ہوئی تاہم مضبوطی اور استحکام کی طرف بڑھتے پاکستان کی خارجہ پالیسی عجیب و غریب تضادات کا شکار ہے۔ مُحب وطن پاکستانی عوام پر بھارت کے مشیر سلامتی اجیت دوول کی طرف سے فراہم کردہ یہ اطلاع بجلی بن کر گری کہ ہمارے مشیر سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ نے انہیں لشکر طیبہ اور جیش محمد سے وابستہ دس بارہ جنگجوئوں کے سرحد پار کرنے کی اطلاع دی اور گجرات سمیت کئی علاقوں میں حفاظتی انتظامات بہتر کرنے کا مشورہ دیا۔ پاکستان بھارت سے تعلقات کی بہتری چاہتاہے اور ممبئی و پٹھانکوٹ واقعات پر تشویش ظاہر کر چکا ہے مگر ہم بھارت کے باجگزار ہیں نہ چوکیدار کہ اسے اندرونی طور پر درپیش خطرات کا سراغ لگانا اور قبل از وقت اطلاع فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہو۔ بھارت کے خبث باطن کا اندازہ تو اجیت دوول کی اس حرکت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُس نے میڈیا کو یہ اطلاع فراہم کی اور جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کا نام بھی افشا کر دیا تاکہ پاکستانی عوام کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ بھارتی سکیورٹی کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ دخل اندازی بھی پاکستان کی طرف سے ہوتی ہے اور لشکر طیبہ اور جیش محمد کے حوالے سے مودی سرکار کے الزامات پروپیگنڈا ہیں نہ بھارتی ایجنسیوں کی اطلاعات میں کھوٹ ہے۔
ہم اور ہمارے حکمران تابعداری اور وفا شعاری کا اظہار اس ہمسائے کے ساتھ کر رہے ہیں جس کے بارے میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا موقف یہ ہے کہ اپنے سٹیٹ ایکٹر ''را‘‘ کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کراتا ہے اور قبائلی علاقوں‘ کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی و علیحدگی پسندی کی آگ اس سٹیٹ ایکٹر کی بھڑکائی ہوئی ہے۔ سانپ کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو کسی انسان کو ڈس لے تو وہ اپنے آپ کو ڈسوانے کا عادی ہو جاتا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اس زہر کا تریاق الگ ریاست کی صورت میں سوچا جہاں وہ ذات پات اور چھوت چھات کی وباء سے محفوظ رہے اور برہمنی سانپ اُسے بار بار ڈسنے نہ پائے‘ اس کے باوجود وہ 1948ء‘ 1965ء‘ 1971ء میں ہم پر حملہ آور ہوا اور اپنی دیرینہ دشمنی کو کبھی چھپایا نہیں۔ ایٹمی قوت بننے کے بعد پاکستان اس خطرے سے نکل گیا جو ماضی میں اُسے خوف کا شکار رکھتا تھا مگر اس قوم کی بدقسمتی ہے کہ قائداعظمؒ کا نشیمن ان بونوںکے تصرف میں ہے جو سانپ کو دودھ پلاتے اور اُس سے ڈسوانے میں لذت محسوس کرتے ہیں ورنہ پٹھانکوٹ واقعہ کی ایف آئی آر گوجرانوالہ میں درج کرنے کے بعد اجیت دوول کو مداخلت کاروں کی اطلاع دے کر اپنے خلاف نئی ایف آئی آر کٹوانے کی حماقت ہرگز نہ ہوتی۔
عام آدمی حیران اور پریشان ہے کہ بھارت کے بارے میں ہماری قومی پالیسی کیا ہے؟ وہ جس کا انکشاف اجیت دوول نے کیا کہ ہمارے مشیر سلامتی نے دس بارہ افراد کے بھارت میں داخلے کی اطلاع دی تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے یا سرتاج عزیز کا پارلیمنٹ میں دیا گیا بیان کہ بھارت نان سٹیٹ ایکٹرز‘ ٹی ٹی پی‘ بی ایل اے اور کراچی کے ٹارگٹ کلرز کے علاوہ سٹیٹ ایکٹرز یعنی ''را‘‘ کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کر رہا ہے؟ کچھ پتا نہیں پڑ رہا کہ بھارت ہمارا ہمسایہ ماں جایا ہے یا مکار دشمن؟ بھارت کے طول و عرض میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی آمد کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں گجرات اور دہلی کے وزراء اعلیٰ مخالفت کر چکے ہیںاور کسی فنکار کو بھارت میں پرفارم کرنے کی اجازت نہیں‘ حالانکہ ہمارے دانشوروں نے آج تک قوم کے سامنے یہی آموختہ دہرایا کہ فن کی سرحدیں ہوتی ہیں نہ کھیل میں سیاست لیکن ہم بھارت کی محبت میں سرشار زمینی حقائق کو فراموش کر رہے ہیں ؎
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
محترمہ بینظیر بھٹو نے ایک بار پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر گلہ کیا تھا کہ میں نے راجیو گاندھی کی فرمائش پر مشرقی پنجاب میں بھارت کو رعایت دی (خالصتان تحریک ختم کرنے میں مدد کی) مگر جواباً کراچی میں ہمیں کوئی ریلیف نہیں ملا اور دہشت گردی و تخریب کاری کا عمل تیز ہو گیا‘ یہ بینظیر بھٹو کی سیاسی ناپختگی تھی یا سادہ لوحی کہ اُس نے جواہر لال نہرو کے نواسے اور اندرا گاندھی کے بیٹے سے توقعات وابستہ کیں اب قائداعظمؒ ثانی نے ایسی ہی توقعات نریندر مودی ‘اجیت دوول اور منوہر پاریکر سے وابستہ کی ہیں۔ اقبالؒ اور قائداعظمؒ نے برہمن ذہنیت کو سمجھا تھا۔ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب میں ان تمام حالات و واقعات کا احاطہ کیا ہے جو قائداعظمؒ کی سیاسی قلب ماہیت کا باعث بنے مگر ان کے جانشینوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ''بغل میں چُھری مُنہ میں رام رام‘‘ کے محاورے کا تاریخی پس منظر جانتے ہیں نہ نریندر مودی کے حقیقی عزائم کا ادراک رکھتے ہیں ورنہ یوں چوکیداری اور سراغ رسانی کا ذمہ نہ لیتے۔
قائداعظمؒ نے پاکستان اور بھارت کے مابین امریکہ اور کینیڈا جیسے باوقار تعلقات کی خواہش ظاہر کی تھی‘ ہم بھارت اور نیپال جیسے تعلقات سمجھ بیٹھے ؎
بجز دیوانگی واں اور چارہ ہی کہو کیا ہے
جہاں عقل و خرد کی ایک بھی مانی نہیں جاتی