اپنے گزشتہ کالم میں ہم نے ایک امریکی میگزین میں "It's Time for Women to Take Back the Word 'Selfish' کے عنوان سے شائع ہوئے ایک مضمون کا ذکر کیا تھا۔ اس مضمون کی خاتون مصنفہ نے قارئین کے سامنے چند جملے رکھے ہیں، مثلاً یہ کہ ''میں اتنی مصروف رہی کہ پورے ہفتے میں ایک منٹ بھی اپنے لئے نہیں نکال پائی۔‘‘
''ایک مہینہ ہو گیا کہ میری رات کی نیند پوری نہیں ہو رہی۔ میرے حواس جواب دے رہے ہیں۔‘‘
'' اتنا سارا کام ہے۔ مجھے کرنا ہی ہو گا ورنہ سب رہ جائے گا۔‘‘
'' اگر میں نہیں کروں گی تو کون کرے گا؟‘‘ اور پھر یہ پوچھا ہے کہ آیا یہ جملے پڑھنے والی خواتین کو مانوس محسوس ہو رہے ہیں؟ کیا ایسی ہی کوئی بات وہ خود بھی کہہ چکی ہیں؟ کیا آپ بھی لوگوں کو یہ بتاتی رہی ہیں کہ آپ اس قدر مصروف ہیں کہ آپ کے پاس اطمینان سے بیٹھ کر کھانے یا ٹھیک سے سونے یا آرام کرنے کا وقت کبھی نہیں ہوتا؟ اگر ایسا ہے تو پھر سچی بات یہی ہے کہ ان چیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت آپ ہی کو ہے۔ آپ کو اپنے لئے وقت نکالنا ہو گا۔ چلئے آج اپنے لئے کچھ وقت نکالتے ہیں! مندرجہ بالا یہ ساری باتیں اپنی ذاتی زندگی کا انتظام چلانے سے تعلق رکھتی ہیں، لیکن شاذ ہی ایسا ہوتا ہے کہ ہم لوگ بیٹھ کر ان باتوں پہ غور کریں۔ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے میں ہم اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سب سے پہلے ہمیں خود اپنے بارے میں سوچنا چاہئے۔ ہمیں خود غرض ہونا چاہئے! اس سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر 'گورننس میں خواتین کے کردار‘ کے بارے میں بڑی باتیں ہوئیں۔ سوال یہ ہے ''گورننس‘‘ کہتے کسے ہیں؟ اس کا سادہ جواب یہی ہے کہ انتظام چلانے کا عمل اور اس کی طرز‘ گورننس کہلاتی ہے۔ اسی کی مزید تعریف در تعریف میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اختیار کس کے پاس ہے؟ فیصلہ سازی کون کرتا ہے؟ دیگر متعلقہ کردار اپنی شنوائی کس طرح کر پاتے ہیں؟ احتساب کیسے کیا جاتا ہے؟ گورننس کی تعریف تو ہو گئی لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ گورننس ہوتی کہاں ہے؟ خواتین کے ضمن میں یا تو یہ گھروں میں ہو گی یا پھر جائے ملازمت پر! جائے ملازمت پر ایک عورت یا مرد یا پھر ان کے ساتھیوں کی گورننس ایک باس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ پارلیمان میں بھی یہ ہوتی ہے، سرکاری دفاتر میں بھی! سرکاری شعبے میں انتظام قومی، صوبائی یا پھر مقامی حکومت کے ہاتھ ہوتا ہے۔ نجی شعبے کی بھی گورننس ہوتی ہے جہاں ایک کمپنی یا پھر چند افراد کا ایک گروپ مل کر ایک ادارہ چلاتا ہے۔ اس کے علاوہ این جی او کی سطح پر بھی یہ (گورننس) ہوتی ہے جہاں افراد اور رضاکاران مل کر غیر منافع بخش تنظیمیں تشکیل دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ ماس میڈیا کی بھی گورننس ہوتی ہے جہاں خواتین‘ اینکرز، سب ایڈیٹرز اور ایڈیٹرز کے طور پر کام کرتی ہیں۔ گھریلو یا پھر کام کرنے والی عورت کے سٹیٹس کا تعین اس کے سماجی، تعلیمی اور معاشی سٹیٹس کے ذریعے ہوتا ہے۔ اونچے معاشرتی طبقات کی عورتوں کو فیصلہ سازی میں نسبتاً آزادی حاصل ہوتی ہے۔ اس میں اپنے جسم‘ یعنی تولیدی صحت پر اختیار کی آزادی بھی شامل ہے۔ اس کے برعکس معاشرے کے نچلے طبقات میں عورتوں کے حقوق بہت محدود بلکہ معدوم ہیں۔ انہیں کسی قسم کی فیصلہ سازی کا اختیار نہیں۔ اپنے جسم کے حوالے سے بھی انہیں کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ سبھی فیصلے گھر کا مالک کرتا ہے (جسے پکارا ہی سرتاج جاتا ہے)۔ وہی یہ بھی طے کرتا ہے کہ اسے کتنے بچے چاہئیں۔ اعداد و شمار بھی ہماری ان باتوں کی تائید کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھیے کہ صرف اڑتیس فی صد شادی شدہ عورتیں اپنی صحت کی نگہداشت، گھریلو خرچے اور رشتہ داروں سے میل ملاپ رکھنے سے متعلقہ فیصلہ سازی میں حصہ لیتی ہیں۔ دوسرے، 2013ء میں خواتین پر گھریلو تشدد کے حوالے سے ہونے والے سروے کے مطابق 30.5 فیصدی شادی شدہ خواتین (جن کی عمریں پندرہ سے انچاس سال کے درمیان تھیں) یہ سمجھتی ہیں کہ اگر بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جائے تو ایسی بیوی کی پٹائی باجواز ہے۔ تیسرے، انٹرنیشنل پراپرٹی رائٹس انڈیکس پر ایک سو تیس ممالک کی فہرست میں پاکستان ایک سو اٹھارہویں نمبر پر ہے‘ یعنی ہمارے ملک میں صرف چند ایک خواتین ہی ایسی ہیں جو اپنی زمین اور جائیداد کے حقوق تک رسائی یا ان پر کنٹرول رکھتی ہیں۔ اسی لئے سندھ اور پنجاب اسمبلیوں سے خواتین کے تحفظ کا جو بل منظور ہوا ہے‘ اس کا خیر مقدم ایک محتاط مثبت خیالی کے ساتھ کیا جانا چاہئے۔ اس بل کا مقصد عورتوں کو جنسی، نفسیاتی اور گھریلو تشدد کے خلاف قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے؛ تاہم مولانا حضرات اس کا مذاق اڑانے پہ تُلے ہوئے ہیں۔ سب سے اونچے آوازے جے یو آئی(ف) کے مولانا فضل الرحمٰن کے سنائی دیتے ہیں۔ موصوف نے ہماری مقننہ کی مردانگی کا مذاق اڑاتے ہوئے اراکینِ مقننہ کو ''زن مرید‘‘ قرار دیا ہے۔ دوسری طرف مولانا شیرانی کی اسلامی نظریاتی کونسل اگرچہ کسی قسم کی قانون سازی کی مجاز نہیں‘ لیکن مذکورہ بل کو ''غیر اسلامی‘‘ ٹھہرا کر اس نے بھی حکومت کو چیلنج کیا ہے۔ اپنے حامیوں کے جتھے سمیت مولانا صاحب موصوف کا فرمانا یہ ہے کہ یہ بل''قرآن و سنّت‘‘ کے خلاف ہے۔ جماعتِ اسلامی بھی پُرزور طریقے سے اسے مسترد کر چکی ہے۔ مخالفین کی فہرست میں تازہ ترین اضافہ محمد اسلم خاکی کے نام کا ہے۔ یہ صاحب سپریم کورٹ کے وکیل اور اسلامی قانون کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے وفاقی شرعی عدالت میں پٹیشن دائر کی ہے کہ چونکہ یہ قانون غیر اسلامی ہے اور اس میں مردوں کو کماحقہ‘ تحفظ نہیں دیا گیا اس لئے اسے کالعدم قرار دیا جائے۔ ہماری ایک قومی اسمبلی بھی ہے جو عملاً کچھ نہیں کرتی۔ اس کی حیثیت ایک تقریری کلب سے زیادہ نہیں۔ اس کے پاس ایک بہترین موقع ہے کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کا بل منظور کر لے تاکہ اسے قانون کی شکل مل سکے‘ لیکن کیا یہ اسمبلی ایسا کر سکے گی؟ یہ معاملہ 2006ء سے اسی طرح ہوتا آ رہا ہے۔ اس وقت بھی حکومت نے بل تو پاس کر لیا تھا‘ لیکن سنگساری کی سزا ختم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ مذہبی جماعتوں کا کہنا یہ تھا کہ وہ بل پاکستان کے آئین کے خلاف تھا کیونکہ آئین کہتا ہے کہ ریاست کا مذہب اسلام ہے اور یہ بھی کہ قرآن و سنت سے متصادم کسی بھی قانون کی منظوری نہیں دی جائے گی۔ آج دس سال بعد بھی ان حلقوں کے دلائل یہی ہیں۔ فی الوقت میاں صاحب نے یہ معاملہ ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا ہے۔ آپ اور ہم جانتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ ایسی کمیٹیوں کی سفارشات اگر کبھی منظرعام پر آ بھی جائیں‘ تو عمل درآمد ان پہ شاذ ہی ہوتا ہے۔ یہ وقت کے ضیاع کے سوا اور کچھ نہیں۔ فیصلہ سازی میں جب تک عورتوں کو کوئی کردار نہیں مل جاتا، مرد باس کی ماتحتی میں عورتیں گورننس پر کچھ اختیار نہیں رکھ سکتیں۔ انہیں زیادہ تر جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور ان سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ حکومت 2010ء میں جائے ملازمت پر عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے قانون سازی کر چکی ہے‘ لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ اب تک اس نوعیت کے کتنے کیسز سامنے آ پائے ہیں؟ حکومت میں مختلف درجات پر بھلے ہی عورتیں کام کر رہی ہوں‘ لیکن جہاں تک گورننس کا تعلق ہے تو چند خوش قسمت ہی ہیں جنہیں دراصل کسی قسم کا اختیار حاصل ہے۔ سرکاری دفاتر میں کام کرنے والی خواتین فائلیں ادھر ادھر لانے لے جانے کے سوا اور کوئی کام نہیں کرتیں، بلکہ بات صرف عورتوں ہی کی نہیں، ابھی چند دن پہلے ہی ہم نے ایک وفاقی سیکرٹری کو یہ گلہ کرتے سنا کہ انہیں روزمرہ کے دفتری کاموں میں کوئی بھی اہم کام نہیں کرنا پڑتا۔ بقول ان کے رپورٹیں لکھنے اور فائلوں کو دیکھنے کے سوا کرنے کو اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ''ہمارا سارا وقت ٹھوس عمل کی بجائے تحریری کارروائیوں میں صرف ہو جاتا ہے۔‘‘ ضیاالحق نے بھی 1985ء میں خواتین کے مقام کے حوالے سے ایک کمیشن قائم کیا تھا جو محض ایک دھوکہ تھا کیونکہ ضیا نے اس کمیشن کی سفارشات پر کوئی عمل درآمد نہیں کروایا۔ کمیشن کی اراکین نے پورے پاکستان کے دورے کر کے اور عورتوں کی بدحالی از خود ملاحظہ کرنے کے بعد اپنی سفارشات مرتب کی تھیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک خاتون نے وزیر اعظم بننے کے بعد بھی محض سیاسی ردعمل کے خدشات کے پیشِ نظر ان سفارشات پر توجہ نہیں دی۔ ان سب باتوں کے باوجود ہم یہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی تعلیم یافتہ عورت اکیسویں صدی میں داخل ہو چکی ہے۔ اس کے برعکس بعض مولانا حضرات بدستور عہد جاہلیت میں رہ رہے ہیں۔ آج کی دنیا میں مرد اور عورتیں برابر ہیں‘ اور وقت آ گیا ہے کہ ہمارے یہ نیم خواندہ، تنگ نظر اور سست رو حضرات بھی اس حقیقت کو تسلیم کر لیں۔