جب عام لوگ سیاست نہیں کر رہے ہوتے تو ان کے خلاف سیاست ہو رہی ہوتی ہے۔ عوام بڑے پیمانے پر کبھی کبھار ہی سیاست کے میدان میں داخل ہوتے ہیں؛ تاہم ''معمول‘‘ کے حالات میں جب انہیں حکمران سیاست کا پیروکار بنا دیا جاتا ہے تو حکمران طبقات کی واردات خاصی آسان ہو جاتی ہے۔ وہ سرمائے کی سیاست کا کاروبار خوب چمکاتے ہیں، اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور استحصال کی انتہا کر دیتے ہیں‘ لیکن ایسی سیاست بھی عوام کو اسی وقت تک دبا کر یا پیروکار بنا کر رکھ سکتی ہے‘ جب تک سرمایہ دارانہ نظام کسی حد تک مستحکم ہو، معیشت کا دھارا کچھ نہ کچھ چل رہا ہو اور انتشار بے قابو نہ ہو جائے۔ پچھلے طویل عرصے میں پاکستان میں عوام، بالخصوص محنت کش طبقے کو اس کی روایتی قیادتوں نے اتنے فریب دیے کہ وہ رائج الوقت سیاست سے بالکل بدظن ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں ہر جگہ اور تاریخ کے ہر موڑ پر اصلاح پسند لیڈروں کا کام یہی ہوتا ہے اور وہ سامراج اور ریاست کی خدمت گزاری اسی طرح کرتے ہیں۔ کسی وسیع تحریک یا ملک گیر بغاوت کے فقدان میں بھی حکمران طبقات کی سیاست اور ریاست شدید بحران اور خلفشار کا شکار رہتی ہے۔
کراچی کی صورتحال کا جائزہ لیں تو سندھ حکومت اور رینجرز کے باہمی تضادات کے باوجود آپریشن چل بھی رہا ہے اور مفلوج بھی ہے۔ بحران کو حل کرنے کے لئے ریاست کے جن اداروں کی طرف دیکھا جاتا ہے‘ وہ خود اس بحران میں بری طرح گھرے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی کا ایک بیان قابل توجہ ہے۔ انہوں نے کہا: ''لگتا ہے ملک میں بیک وقت دو حکومتیں چل رہی ہیں جس سے امن و امان کا بیڑا غرق ہوتا جا رہا ہے۔‘‘ ایسی صورتحال میں مسائل حل کرنے کی کوشش انہیں مزید پیچیدہ کرتی ہے۔ سیاست کا جو ڈھانچہ امریکی سامراج کی ایما پر یہاں کے حکمران طبقے نے ''ری کنسیلیشن‘‘ کے نام پر جوڑنے کی کوشش کی تھی‘ وہ جڑنے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا۔ اس کو جوڑنے کی جتنی کوشش کی جاتی ہے، اتنے ہی ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔
لگتا ہے بیک وقت اتحادی‘ ''اپوزیشن‘‘ اور مظلوم ہونے کا ناٹک ہی ایم کیو ایم کی سیاست ہے۔ یہ جماعت ہر دور میں شریک اقتدار نظر آتی ہے‘ اور ہمیشہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اسٹیبلشمنٹ سے روابط میں رہی ہے۔ کراچی کے محنت کشوں میں لسانی بنیادوں پر پھوٹ ڈالنے کے لئے تخلیق کیا گیا یہ اوزار اب خود ریاست کے کئی دھڑوں کے لئے وبال جان بن گیا ہے۔ ایسے میں اس کی مسلسل گرتی ہوئی ساکھ کے پیش نظر اسی جیسا کردار ادا کرنے والا سیاسی اوزار پیدا کرنے کی کوششیں پہلے بھی کی جاتی رہیں‘ اور اب بھی کی جا رہی ہیں۔ ''مہاجر قوم پرستی‘‘ جیسے رجحان کو ایک سیاسی مظہر کے طور پر ریاست نے ہی ابھارا تھا، 1980ء کی دہائی اور بعد کے عرصے میں مزدور تحریک پسپائی کا شکار تھی، محنت کش طبقہ اپنی قیادت کی پے در پے غداریوں سے نڈھال تھا، ایسے میں اس لسانی سیاست کو کچھ معروضی بنیادیں بھی میسر آئیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ریاست کا یہ اوزار بے قابو ہوتا چلا گیا اور آج کراچی کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔
حکمران طبقے کی پالیسی عوام کی یکجہتی اور تحریک کو مسلسل منتشر رکھنے کی ہوتی ہے، لیکن ساتھ ہی وہ اس انتشار کو اس حد تک اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کم از کم سماج کے معاملات چلتے رہیں‘ جن کی بنیاد پر ان کا استحصالی اقتدار قائم ہے۔ آج کے عہد کی بنیادی حقیقت یہ ہے عالمی سطح پر شدید زوال پذیری سے دوچار سرمایہ دارانہ معیشت میں کسی قسم کا سماجی یا سیاسی استحکام دینے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ پاکستان میں گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے کالی معیشت کا ناسور بڑھتا ہی چلا گیا ہے جس کا بڑا حصہ منشیات، بھتہ خوری، کرپشن وغیرہ جیسے جرائم پر مبنی ہے۔ یہی کالا دھن سیاست کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتا چلا گیا۔ یہ جرائم سیاست کو وسائل فراہم کرتے ہیں تو ساتھ ہی سیاست کو اپنے تحفظ کے لئے استعمال کرنے لگتے ہیں۔ ریاست ایک حد تک ہی جرائم کو سنبھال سکتی ہے، ان میں ملوث بھی ہوتی ہے لیکن جب یہ عفریت پھیل کر ریاستی رٹ کو ہی چیلنج کرنے لگتا ہے تو ریاست کا اپنا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ چار دہائیوں تک ایم کیو ایم کو کبھی ڈھیل تو کبھی قابو کرنے کی کوشش‘ اسی مظہر کا نتیجہ ہے؛ تاہم آنکھ مچولی کا یہ کھیل بھی پرانا ہو چکا ہے۔
کراچی کے زخم گل سڑ کر تعفن زدہ ہو چکے ہیں۔ جائز اور ناجائز کی لکیر مٹ چکی ہے۔ کرپشن کے بغیر سیٹھوں کا گزارا نہیں ہوتا، لوٹ مار کے بغیر مطلوبہ شرح منافع کا حصول ممکن نہیں۔ پھر کالے دھن کی سیاست سے وابستہ مافیا حد سے زیادہ خود سر ہونے لگے ہیں، حصہ دار اور بھتہ خور بڑھتے جا رہے ہیں، یہ منافعوں میں اتنی حصہ داری مانگتے ہیں کاروبار ہی پھیکا ہو جاتا ہے۔ ریاست کا ٹیکس تو بہت کم رشوت سے چوری کیا جا سکتا ہے لیکن وحشتناک گینگ منہ بولی قیمت مانگتے ہیں۔ ایسے میں سرمایہ داروں یا درمیانے کاروباری طبقے کی ریاست کے سامنے چیخ پکار حیران کن نہیں۔ لیکن امریکہ جیسی 'سپر پاور ریاست‘ اگر نیویارک، شکاگو اور بوسٹن میں مافیا کو جڑ سے نہیں اکھاڑ سکتی تو پاکستان کی کھوکھلی اور کالے دھن سے زنگ آلود ریاستی مشینری سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ یہ جرائم آخری تجزیے میں سرمایہ داری کی ناگزیر پیداوار ہیں اور یہ اسی کے خمیر سے پھوٹتے ہیں۔ دولت کالی ہو یا سفید، دولت کے نظام پر قائم ریاستیں اس کے جبر سے کبھی آزاد نہیں ہو سکتیں۔ سرمایہ سیاست اور ریاست میں سرایت کر کے اپنے راستے خود بنا لیتا ہے۔ پاکستان کی سرمایہ داری کا کردار آج یکسر بدعنوان اور طفیلی ہو چکا ہے۔ ٹیکس اور بجلی گیس کے بل ادا کر کے، محنت کشوں کے لئے حفاظتی انتظامات لاگو کر کے اب کوئی سیٹھ ''جائز‘‘ منافع حاصل نہیں کر سکتا۔
اس پس منظر میں جس حقیقت سے ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ نظام اتنا گل سڑ چکا ہے کہ کرپشن اور جرائم نہ صرف اس کی ناگزیر پیداوار ہیں‘ بلکہ یہ نظام ان کے بغیر چل ہی نہیں سکتا۔ جب اس نظام کے ادارے انہیں ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یا ان اداروں کے اندر سے بدعنوانی اور کالے دھن کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے تو بحران ختم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کر جاتا ہے۔ ایم کیو ایم جیسے سیاسی اوزاروں کی شکل و صورت، نام یا قیادت بدل دینے سے ان کا کردار بدل نہیں سکتا‘ لیکن یہ اوزار تب کارگر تھے‘ جب معیشت میں ان کی گنجائش موجود تھی۔ تب بھتہ دے کر بھی کاروباری طبقے کا گزارا چل جاتا تھا، آج اتنی سکت موجود نہیں رہی‘ لیکن حکمران اس اوزار کو کھونا بھی نہیں چاہتے اور عوام کے سامنے جو نیا ناٹک پیش کیا جا رہا ہے اس کی حقیقت کارپوریٹ میڈیا خود ہی بے نقاب کر رہا ہے۔
حکمرانوں کے لئے سب سے سنگین خطرہ یہ ہے کہ کہیں کراچی کے عوام ہر مذہبی یا نسلی تعصب کو مسترد کر کے طبقاتی بنیادوں پر ان کے خلاف صف آرا نہ ہو جائیں۔ محنت کش طبقے کی جدوجہد اور اضطراب مختلف چنگاریوں کی شکل میں اپنا اظہار مسلسل کر رہے ہیں۔ پی آئی اے کی حالیہ ہڑتال، بالخصوص کراچی میں جرات مندانہ بغاوت اگرچہ عوام کی وسیع تر شراکت کے فقدان اور قیادت کی مصالحت کی وجہ سے پسپا تو ہو گئی‘ لیکن محنت کش طبقے کے سامنے کھڑی ڈر اور تذبذب کی دیوار پر ضرب بھی لگا گئی ہے۔ روشنی کی چند کرنیں یہاں سے پھوٹ رہی ہیں۔ کراچی کو پاکستان کا پیٹروگراڈ (انقلابِ روس کا مرکز) کہا جاتا ہے۔ اس کی تڑپ بغاوت بنی تو روکے سے رکے گی نہیں۔