طومار
...مطالعے کی لت کچھ ایسی بڑھی کہ بات رفتہ رفتہ خدا‘ رسولؐ‘ قرآن تک بھی پہنچی۔ عربی یہاں کون جانتا ہے‘ ترجمہ اور تفسیر سے کام چل ہی جاتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ سب سے مزے کی کتاب قرآن ہی ہے‘ لگی لپٹی رکھے بغیر اگر کسی نے لکھا ہے تو کاتب تقدیر نے ‘کوئی تکلف‘ کوئی تصنع نہیں‘ درخت کو پلنگ اور کرسی کو جھاڑو نہیں بتایا‘ حتیٰ کہ انسانی اعضاء کے نام تک بلاتامل نقل ہوئے ہیں۔ پاکستانی اگر بے خیالی میں بھی ایک بار پڑھ ڈالے تو مسلمان ہو جائے‘ پوری انسانی تہذیب و ثقافت ہی نہیں‘ تاریخ بھی بھری پڑی ہے۔ زندگی کرنے کے گُر الگ‘ یہ کتاب حرف آخر ہے‘ یہ میرا ایمان ہے پُختہ۔
پہلے پہل میرا قلم حرکت میں مولوی عبدالحق کے نام سے آیا۔ ''برگ گُل‘ کا بابائے اُردو نمبر دیکھ کر باسی تو نہیں تازہ کڑھی میں اُبال کچھ ایسا آیا کہ مرحوم کے اپنے نام آنے والے چار خطوں کی آڑ لے کر اِدھر اُدھر کے مواد کا ردّا جما ‘ایک مضمون سا تیار کر دیا۔ خاکہ چیزے دیگر است‘ میں تو اسے مضمون ہی کہتا ہوں۔ طُرفہ یہ کہ وہ نیاز فتح پوری کی نگاہوں میں جچ کر ''نگار‘‘ میں چھپا بھی۔ شورش کاشمیری نے نگار سے حوالہ دیئے بغیر اپنے ہفت روزہ چٹان میں نقل کیا۔ داد دلّی سے نثار احمد فاروقی نے بھی دی‘ یہ ان کی ادبیانہ سخاوت کے علاوہ یہ بھی تھا کہ دیدہ دلیری اور دیدہ ریزی سے مولوی عبدالحق کی خشونت مزاج کے قصے اس سے پہلے اِدھر اُدھر‘یہاں وہاں بیان اور نقل تو ہوتے رہے‘ یکجا میں نے کر دیئے۔ میں نے مولوی صاحب کے مذہبی مسلک پر بھی لکھا تھا‘ وہ نہیں چھپا۔
مضمون آرائی کے لیے میرے پاس کیا رکھا تھا‘ البتہ مختلف چیزیں نظر سے گزرتی رہیں۔ نقوش کے شخصیات نمبر وغیرہ تو بعد کی باتیں ہیں‘ شخصیت نگاری کا سلسلہ نیا نہیں‘ اچھا بھلا پرانا ہے‘ بہت دنوں سے چلا آ رہا ہے۔ ڈاکٹر شاہ علی نے اُردو میں سوانح نگاری عنوان باندھ کر کتاب چھپوا ڈالی‘ اُردو میں خاکہ نگاری کی جگہ خالی پڑی ہے‘ نذیر احمد کی کہانی 1944ء میں اّبا نے خریدی‘ میرے کتب خانے میں محفوظ اور موجود‘ اقتباس اِس کے اُس کے مضامین میں نظر انداز ہوتے رہے۔ پُورا خاکہ‘ درجن بھر خاکے خود لکھ لیے تو پڑھا اور محظوظ ہوا۔ یہ تو سب کچھ تھا اور ہے‘ لیکن عصمت چغتائی کا دوزخی جسے بدقسمتی سے رشید احمد صدیقی نزاکت مزاج کی جھونجھ میں ناپسند کر چکے ہیں‘ پڑھ کر کچھ کچھ میرا دھیان خاکہ اور خاکہ نگاری کی طرف گیا۔ جائزہ اور ذراگہری نظر سے لیتا ہوں تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ بھرپور احساسِ خاکہ نگاری اور خاکے کا دوزخی ہی پڑھ کر ہوا۔ ویسے مجھے خاکہ نگاری کا لطف سب سے زیادہ نہیں کہہ سکتا کس کے ہاں آیا‘ مولوی عبدالحق‘ شاہد احمد دہلوی‘ مولانائے دریا باد‘ اشرف صبوحی‘ محمد طفیل نقوش‘ اخلاق احمد دہلوی‘ عبدالحمید سالک‘ نظیر صدیقی‘ لالہ دوارکا داس شعلہ‘ جلیل قدوائی‘ جس کو جہاں پایا دبوچ لیا‘ پڑھے بغیر نہ چھوڑا۔
خاکہ کیا ہے‘ اپنے یہاں سبھی کہتے ہیں یہ ولائتی مال ہے‘ سات سمندر پار سے سفر کرتا ہوا آیا ہے‘ یہ رسم عام بھی ہے‘ ہر اچھی چیز پر مغرب کی مُہر بھی آپ لگا دیتے ہیں‘ اچھائیاں ہم میں بھی تھیں‘ انہیں اُجاگر کرنا تو کُجا‘ اُلٹا شرماتے ہوئے ملے ہیں۔ یاران طریقت‘ محمدالدین جوہر مُصرہیں‘ انگریزی ہی سے ذہن کُھلتا اور چودہ طبق روشن ہوتے ہیں‘ انگریزی شرافت پناہ اور عزت مآب ہے‘ اس میں کیا شک ہے‘ مُوجدوں کی زبان ہے‘ وہی ترقی یافتہ بھی ہوگی‘ مالدار بھی۔ سُناہے رُوسی اور ایک ارب چینی بھی انگریز اور انگریزی ہی کا مطیع اور فرمانبردار ہے‘ یہ سب کچھ ہے‘ لیکن دلنشیں اور دلپذیر اور رہزن ہوش و ایمان ہونا دوسری چیز ہے۔ اُردو کی ہندی برج بھاشا کے علاوہ عربی فارسی سے بھی آشنائی ہے۔ اس کے لوچ اور بانکپن کے کیا کہنے‘ دل میں کبھی جاتی ہے‘ کوئی کیسے نظروں سے گرا دے‘ دل سے نکال دے‘ یہ علیحدہ بحث ہے۔ نجانے سعدی شیرازی کو کیا گھوٹ کر پلایا گیا تھا‘ انگریزی سے نابلد ہونے کے باوجود ایسا کچھ بک گیا جس کا کوئی جواب نہیں۔ علم و ادب کی حد تک تو روا ہونا ہی چاہیے‘ تہذیب و ثقافت کے طور پر اپنا لیا انگریزی کو‘ یہ کیا ہُوا...
خاکہ میرا محبوب اور مرغوب موضوع ہے۔ پڑھنے کا جنون کم نہیں ہوتا‘ خاکہ نگاری سے مجھے خاص شغف ہے‘ لکھ نہیں سکتا لیکن اٹکل پچو جوڑجاڑ کر شہیدوں میں نام لکھوانے میں ہرج ہی کیا ہے۔
مجھے دعویِٰ سخن وری نہیں ہے۔ سُنی سنائی باتوں کو ضبط تحریر میں لانا عیب نہیں‘ ہُنر ہے۔ راوی معتبر ہونا چاہیے۔ خاکہ تاریخ کی کتاب نہیں ہوا کرتا جس میں جگہ جگہ حوالہ اور صفحہ نمبر حاشیے میں درج ہوتا رہے۔ یہ اور بات کہ اقتباسی خرابی سے میرے لکھے ہوئے خاکے بھی لبریز ہیں۔ خاک اڑانا بھی تو ایک محاورہ ہے۔ اپنے یہاں تو سُنی سنائی کیا‘ مروّت یہ ہے کہ آنکھوں دیکھی کو بھی لکھنے کی ہمت بہت کم پڑا کرتی ہے۔ یہ گویا ہمارا طُرّہِ امتیاز ہے۔ صاف گوئی کو عیب جوئی کہہ کر پہلو بچایا اور خاطر میں نہیں لایا جاتا‘ میں تو اپنی والی کوشش یہی کرتا ہوں جیسا جس کو پایا گھسیٹ دیا۔ مرنے والے کی خوبیوں کو یاد کرو‘ اس کی بشری خامیوں‘ کمزوریوں اور خرابیوں نے لاکھ معاشرتی فساد برپا کیے ہوں‘ پی جائو‘ چرکیں کا ذکر کھلے بندوں نہیں ہو گا۔ نجی محلفوں میں بزرگان ملت رفیع احمد خاں کو کیا کیا لطف سے گنگناتے ہیں‘ قلم کو ان سے آلودہ کیوں کروں‘ یہ عام مزاج ہے‘ میں تو کھری کھری سُننے سُنانے کا قائل ہوں۔
شخصیت خیروشر کا مرقع اور مجموعہ اضداد نہ ہو‘ یہ کیونکر ممکن ہے۔ میں نے خرابیوں کو شامل مسل کرنے کی جستجو نہیں کی۔ چوریاں پکڑنے کا لطف بات میں بات نکلنے میں پایا گیا ہو تو اس کے لیے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں جس کی تصویر کھینچتا ہوں وہ میں بھی تو ہو سکتا ہوں۔ میں خود بھی بہت نظر آئوں گا۔ اسے آپ خُودنمائی نہیں‘ موضوع سے والہانہ ربط اور انکشافِ ذات سے تعبیر اگر نہ کیجئے گا تو میرا ممدوح میرے پہلو سے نکل بھاگنے میں کامیاب بھی ہو سکتا ہے۔ میں اگر نہ ہوں گا تو کون ہو گا۔ آڑی ترچھی تصویریں وہ لوگ اُترواتے ہیں جن میں آئینے کے مقابل ہونے کا ظرف نہیں ہوتا‘ اس لیے مجھے کتابی اور اُترے ہوئے سیاہ چشموں والے چہرے زیادہ بھلے لگتے ہیں۔
لکھنے والے کا اپنا ایک ضمیر ہوتا ہے، خمیر بھی۔ میں نے یہ خاکے بے ساختہ لکھے ہیں۔ مُردوں کے کفن میں نے نہیں پھاڑے‘ تاہم ضرورت پڑے تو اس میں قباحت بھی کیا ہے۔ زندوں سے خوفزدہ میرا دل ہو سکتا ہے۔ قلم گردن ناپنے میں بہت بیباک ہے۔ خدائی فوجدار بننا مجھے منظور نہیں‘ اس کے باوجود میں تو یہی کہوں گا جو کچھ کتاب دل پر مرقوم ہے، یہ اس کا پاسنگ بھی نہیں۔
انیس
28 مئی 1984ء ( 1404ھ)
آج کا مقطع
کیا زبردست آدمی ہو، ظفرؔ
عیب کو بھی ہنر بنا دیا ہے