تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     11-03-2016

جو چال ہم چلے‘ سو نہایت بُری چلے

خانپور کے درویش صفت اُستاد رفیق راشد کا شعر ہے ؎
یہ کس دور میں‘ مجھ کو جینا پڑا ہے
کہ زخموں کو کانٹوں سے سینا پڑا ہے
کراچی میں زخموں کو کانٹوں سے سینے کی مشق جاری ہے اور روز ایک نئی کہانی سامنے آتی ہے۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ کائونٹرٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD) کے تین افسران کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے گئے ہیں‘ جو بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔ جب باڑہی کھیت کو کھانے پر تُل جائے تو انجام معلوم۔
کراچی کسی زمانے میں غریب نواز اور لجپال شہر تھا۔ اب بھی بہت سی قباحتوں کے باوجود اس کا دامن کشادہ اور یہاں روزگار کے مواقع زیادہ ہیں۔ پولیس ‘ انتظامیہ اور دیگر قومی اداروں پر نسلی و لسانی تعصّب کی نحوست چھانے سے پہلے یہ دیالو شہر ہر زبان‘ نسل ‘ علاقے‘ مذہب اور مسلک کے لوگوں کی پناہ گاہ تھا۔ رواداری و روشن خیالی کا مرکز و منبع۔1972ء کے لسانی فسادات اور کوٹہ سسٹم کے ذریعے دیہی سندھ و شہری سندھ کے مابین تفریق نے اسے منی پاکستان کے بجائے ایسے جنگل میں تبدیل کر دیا جہاں ایک کونے میں ایک لسانی یا نسلی درندوں کے گروہ کی بالادستی تھی تو دوسرے کونے میں دوسرے کی۔ بھٹو کے ٹیلنٹڈ کزن ممتاز بھٹو کے دور حکمرانی میں ملازمتیں‘ سہولتیں‘ مراعات اور شہری حقوق اہلیت و صلاحیت کی بنا پر نہیں‘ صرف زبان اور نسل کی بنیاد پر لینے اور دینے کا رواج پڑا۔ استدلال یہ تھا کہ چونکہ مہاجر پڑھے لکھے ہیں لہٰذ ااس علم اور تجربے کی سزا انہیں اگلے دس سال تک بھگتنی پڑے گی تاکہ کم پڑے لکھے سندھی نوجوانوں کو دیہی کوٹے پر ان کے برابر لاکر میرٹ اور انصاف کی مٹی پلید کی جا سکے۔
دس سال تک کوٹہ سسٹم تو پھر بھی قابل برداشت تھا مگر اس عرصے میں اندرون سندھ تعلیم کی بہتر سہولتیں فراہم کر کے مقررہ مدت میں کوٹہ سسٹم کی لعنت کو ختم کرنے کے بجائے طول دیا جاتا رہا اور کراچی کو جہنم بنا کر بھی کوٹہ سسٹم جاری رکھنے والی حکمران اشرافیہ کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا۔ یہ معاملے کا ایک پہلو ہے‘ دلآزاراور تکلیف دہ۔ کوٹہ سسٹم اور مہاجروں کے ساتھ ناانصافیوں کی بنیاد پر لسانی سیاست کے علمبرداروں نے بھی ردعمل میں کراچی کو دکھ ہی دیئے۔ ایم کیو ایم کے مخالفین جب یہ سوال کرتے ہیں کہ 1981ء سے اب تک کراچی کو کیا ملا تولسانی شناخت کے سوا کوئی جواب بن نہیں پڑتا۔
چونکہ 1987ئسے 2014ء تک ایم کیو ایم کسی نہ کسی صورت مرکزی‘ صوبائی اور بلدیاتی سطح پر شریک اقتدار رہی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں تو اس کی پانچوں گھی میں تھیں اور سر کڑاہی میں۔ صوبائی اختیارات گورنر اور شہری اختیارات میئر کے پاس تھے لہٰذا سوال بہت اٹھتے ہیں اور لوگ جواب مانگتے ہیں مثلاً:
1۔ کیا سندھ میں کوٹہ سسٹم ختم ہو گیا جس کا نعرہ لگا کر ایم کیو ایم میدان سیاست میں کودی۔
2۔ کیا بہاری بنگلہ دیش سے پاکستان آگئے۔اور اُس ابتلا کا شکار نہیں جس کا نوحہ الطاف بھائی پڑھا کرتے تھے۔
3۔ عروس البلاد کراچی سے لینڈ مافیا ختم ہو گیا۔‘ واٹر مافیا کہیں نظر نہیں آتا۔ شہریوں کو پینے کا صاف پانی وافر مقدار میں دستیاب ہے۔
4۔ نوجوانوں کو سرکاری محکموں اور اداروں میں میرٹ پر نوکریاں ملنے لگیں۔
5۔ ٹرانسپورٹ کی سہولتیں بہتر ہو گئیں کیونکہ کراچی میں پہلا خونی احتجاج بشریٰ زیدی کی افسوسناک ہلاکت کے بعد ہوا تھا۔
6۔ سرکاری ہسپتال اور سکول معیاری طبی و تعلیمی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔
7۔ امن و امان کی صورتحال مثالی ہے اور سندھی‘ مہاجر‘ پٹھان ‘ بلوچ‘ اور سرائیکی پیار محبت سے شہر کی ترقی و خوشحالی میں مگن ہیں۔
میڈیا دو اڑھائی عشروں تک دبائو اور خوف کی وجہ سے یہ سوال کسی سے پوچھ نہیں سکا مگر اب لب آزاد ہیں اور سوالات ہر زبان پر مچل رہے ہیں صرف الطاف حسین‘ فاروق ستار‘ وسیم اختر اور ان کے وفادار ساتھی نہیں‘ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کو بھی ان سوالات کا سامنا ہے کیونکہ کل تک یہ بھی اسی لسانی سیاست کا بااختیار حصہ تھے اور حقوق کے علمبردار۔ جو کچرا ایم کیو ایم کے رہنما آج صاف کرنے نکلے ہیں یہ ایک دن ‘ ہفتے یا مہینے میں جمع نہیں ہواپچھلے کئی عشروں کا انبار ہے ‘جسے برسوں تک ہٹانے کی ضرورت کسی نے محسوس نہیں کی بلکہ کوڑے کرکٹ اورگندگی کے اس ڈھیر پر سیاست ہوتی رہی۔
اسی سنگدلانہ اور میرٹ دشمن نسلی و لسانی سیاست کا کیا دھرا ہے کہ مختلف سیاسی‘ لسانی اور نسلی گروہ تو ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان میں ملوث تھے ہی‘ یہ اپنے مخالفین کے علاوہ مال دار تاجروں‘ صنعت کاروں اور حکیم سعید ‘ عبدالستار ایدھی جیسے قومی خدمت گزاروں کو بھی نشانہ ستم بناتے مگر اب اس کاروبار میں ریاستی اداروں کے اہلکار بھی شریک ہو گئے ہیں جو شہر کو امن اور شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ سی ٹی ڈی سے پنجاب کے عوام کو بھی شکایات ہیں کہ ناقص معلومات پر بسا اوقات شریف شہریوں کی عزت نفس مجروح کرتا ہے مگر ابھی تک یہ شکایت کسی نے نہیں کی کہ کوئی مال پانی بنانے کے لیے اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہا ہے۔ سندھ میں سی ٹی ڈی نے مگر یہ کارنامہ بھی انجام دے کر سید قائم علی شاہ کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ سندھ پولیس کے افسر و اہلکار پہلے ہی بدنام تھے کہ یہ صرف انہی لوگوں کے وفادار ہیں جن کی مہربانی سے بھرتی ہوئے۔ جرائم پیشہ سیاسی اشرافیہ اپنے سیاسی مقاصد اور مالیاتی مفادات کے لیے انہیں بری طرح استعمال کرتی ہے۔ رینجرز کو گلہ ہے کہ بڑی محنت اور جانفشانی سے جن دہشت گردوں ‘ ٹارگٹ کلرز ‘ بھتہ خوروں اور اغوا کاروں کو گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے وہ باعزت بری ہو کر شہریوں اور قانون کے لیے سنگین خطرہ بن جاتے ہیں۔ سیاست زدہ پولیس اس کے سوا کچھ کر بھی نہیں سکتی مگر سی ٹی ڈی ؟ کیا یہ بھی سندھ پولیس کا چربہ ہے؟۔ سفارشی بھرتی‘ تربیت کا فقدان‘ مجرمانہ ذہنیت اور سرپرستوں کے ایما و شہ پر شریک جرم۔ 
کرپشن قومی جسد کو لاحق وہ عارضہ ہے جس کا قلع قمع کیے بغیر دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری ‘ اغوا برائے تاوان کا خاتمہ ممکن ہی نہیں۔ شہباز تاثیر لاہور میں اغوا ہوا‘ گنجان آبادی میں کئی روز تک محبوس رہا اور پھر قبائلی علاقوں میں لے جایا گیا۔ کیا خیال ہے اغوا کار اسے سلیمانی ٹوپی پہنا کر پنجاب کے صوبائی دارالحکومت سے قبائلی علاقوں اور پھر افغانستان کے صوبہ زابل لے گئے؟۔ کچلاک واپسی بھی اسی انداز میں ہوئی؟ ہرگز نہیں ہر ناکے‘ ٹول پلازے اور سرحدی چوکی پر لین دین ہوا ہو گا۔ کراچی میں سی ٹی ڈی کے جو تین افسران اغوا برائے تاوان کا شغل فرما رہے تھے یہ بھی اپنے بل بوتے پر نہیں کسی طاقتورفرد یا مافیا کی سرپرستی میں سرگرم عمل ہوں گے۔ معلو م نہیں مزید کتنے افسران و اہلکاروںکا دھندا چل رہا ہے۔ رینجرز نے بلاوجہ تھانے‘ ایف آئی آر کے اندراج اور تفتیش کے اختیارات نہیں مانگے۔ جنرل بلال جانتے ہیں کہ جمہوریت کے نام پر جو نحوست اس ملک پر مسلّط ہے وہ آپریشن کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے نہ بلو آئیڈکسی مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے حق میں ہے۔ آپریشن کو ناکامی سے بچانے کی واحد صورت یہی ہے کہ ذمہ داری اور نمبرداری تقسیم نہ ہو۔ جو ذمہ دار ہے وہی نمبرداری کا حق دار بھی‘تاکہ سنگین جرائم میں گرفتار کوئی شخص دے دلا کر یا سفارش کے ذریعے رہائی کے بعد رینجرز‘ عدالت اور ریاست سب کا منہ چڑاتا نہ پھرے۔
ایس ٹی ڈی کے یہ اہلکار گرفتار ہو بھی گئے تو وثوق سے یہ کہنا مشکل ہے کہ رینجرز کی شکایات دور ہوں گی اور آپریشن یکسوئی سے جاری رہے گا۔ بُری بھلی جمہوریت اور صوبے میں منتخب نظام کو مزید خطرے میں ڈالنے کے بجائے بہتر یہی ہے کہ رینجرز کو فری ہینڈ دے دیا جائے ورنہ خدشہ یہ ہے کہ کراچی میں قیام امن کے ذمہ دار اداروں کو کہیں اور سے فری ہینڈ لینا پڑے گا کیونکہ بے نیازی حد سے گزر چکی ہے اور بندہ پرور حکمرانوں کو ہوش ہی نہیں ۔وہ بھنگ پی کر اپنی ڈگر پر قائم ہیں۔ ع
جو چال ہم چلے‘ سو نہایت بُری چلے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved