تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     11-03-2016

جے آئی ٹی

پاکستان میں عوام اور رائے عامہ کو متاثر کرنے والے افراد اور ادارے‘ دونوں ایک بات پر متفق ہیں۔ یہی کہ جو کام نہ کرنا ہو اس کے لئے کمیٹی بنائی جائے گی۔ جو کام بالکل نہ کرنا ہو اس کے لئے ٹاسک فورس تشکیل پائے گی۔ جس مقدمہ یا تنازع کی جان نکالنی ہو اس کے لئے کمیشن بٹھایا جائے گا۔ اور جس ہائی پروفائل کیس کو کُھڈے لائن لگانا مقصود ہو، اس کے لئے جے آئی ٹی۔
جے آئی ٹی کو انگریزی زبان میں (Joint Investigation Team) کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے مشترکہ تحقیقاتی جتّھہ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آج انصاف اور قانون کی دنیا مختلف جتھوں کے ہاتھوں میں یرغمالی ہو چکی ہے۔ اسی لئے کھلے قتلِ عام سے لے کر چھپے ہوئے سازشی عناصر تک کوئی جے آئی ٹی کبھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی۔
کراچی بدامنی کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی ہے۔ اس سوئوموٹو مقدمہ کی فائل چار سال بعد پھر کھلی۔ جس دور میں سابق سیاسی چیف جسٹس اس قومی مقدمے کو سیاست چمکانے کے لئے استعمال کر رہا تھا، تب میں اس مقدمے میں وفاقِ پاکستان کا وکیل مقرر ہوا تھا۔ کراچی بدامنی کیس کے دوران میرے دلائل پر مبنی کتاب مارکیٹ میں موجود ہے۔ ''کراچی قتلِ عام‘‘ نامی یہ کتاب جمہوری پبلیکیشنز نے شائع کی۔ اس میں کچھ ''ان کہی‘‘ باتیں پڑھنے کے قابل ہیں۔ کراچی بدامنی کیس اسلام آباد سے شروع ہوا۔ پھر سپریم کورٹ کا سپیشل بنچ کراچی چلا گیا۔ اس دوران مجھے کراچی میں کافی وقت گزارنے کا موقع ملا۔ مقدمے کے دوران کچھ دستاویزات اور جے آئی ٹی کی رپورٹس ایسی تھیں‘ جو صرف سپریم کورٹ کے متعلقہ بنچ‘ اُس وقت کے اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق‘ اور میری نظر سے گزریں۔ صرف ایک جے آئی ٹی رپورٹ کے نامزد ملزم نے 200 سے زیادہ قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ اس سیریل کِلر نے ٹارگٹ کِلنگ کی کمانڈ اینڈ کنٹرول کے نام بتائے۔ ہر ٹارگٹ کئے گئے بے گناہ شہری کے قتل میں شریک ملزموں کی نشاندہی کی۔ ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا اُسے پاکستان کے غریب شہری قتل کرنے کے لئے بھارت نے کیا سہولت اور ٹریننگ دی تھی۔
یہ بھی عظیم المیہ ہے کہ ہر حکمران قاتلوں کو کٹہرے تک لانے کا اعلان کرتا رہا‘ لیکن قاتلوں کے سرپرست اقتدار کے ایوانوں تک جا پہنچے۔ عدالت اور انصاف کا کٹہرا‘ منہ تکتے رہ گئے۔ پاکستان کا آئین اپنے شہریوں کو آرٹیکل 9 اور 4 کے تحت زندگی کا تحفظ دے سکا‘ نہ مرنے کے بعد ان پر قانون کا کفن چڑھا پایا۔ کراچی قتلِ عام سے لے کر ماڈل ٹائون قتلِ عام کی دونوں قسطوں تک ثبوتوں کے ٹرک بھرے ہوئے ہیں‘ اور لاشوں کے قبرستان‘ لیکن جمہوری ایوانوں اور انصاف کے مندروں میں قبرستان جیسی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ ہر لاش ابنِ آدم و حوا کی ہے‘ ہر مقتول محسنِ انسانیتﷺ کا کلمہ گو اُمتی۔ ہر واردات کسی سہاگن کو بیوہ کر گئی۔ ہر لاش اپنے پیچھے بہت سے یتیم چھوڑ گئی۔ ہر لاش کی اپنی ایک تاریخ اور اپنی ایک کہانی ہے۔ ہر لاش بہت ساروں کو بے آسرا اور بے سہارا چھوڑ گئی۔
سب سے بڑی اور تازہ ترین ٹریجڈی مگر اور ہے۔ حکمران مقتولوں کے ساتھ ظالمانہ نہیں بلکہ قاتلانہ مذاق پر اتر آئے ہیں۔ جن کے نام قتل کی ایف آئی آر میں ہیں‘ وہ ایوانِ اقتدار میں ہیں۔ جن کے خلاف جے آئی ٹی کو ہتھکڑی لے کر گھومنا چاہیے‘ ان لوگوں کو جے آئی ٹی والے سلیوٹ مارنے پر مجبور ہیں۔ انصاف کے موجود ہ نظام اور اندھے قانون نے سیاسی اشرافیہ نہیں‘ بلکہ سیاسی بدمعاشیہ کے ملاپ سے کئی بچے پیدا کئے۔ اب یہ بچے ملکی وسائل پر قابض ہیں۔ کہیں انہیں منی لانڈرنگ والے کہا جاتا ہے‘ کہیں ان کا نام ہے ڈالر مین اور ڈالر گَرل جبکہ کسی جگہ ان کا لبادہ قانون کے کفن اور آئین کے تابوت میں لپٹا ہوا ہے۔ میں نے ضابطہ فوجداری کو کئی بار پڑھا‘ مگر فوجداری مقدمات کے حوالے سے جے آئی ٹی کا کوئی کردار نظر نہیں آیا۔ چاہیے تو یہ کہ ہم ہاتھ گُھما کر کان پکڑنے کے بجائے سیدھا کان پکڑیں۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سارے ارکان کو مقدمے کا گواہ بنائیں۔ ان کی شہادت ریکارڈ ہو تاکہ مجرم سزا پا سکیں‘ ورنہ یہ اعتراض خاصا وزنی لگتا ہے کہ جے آئی ٹی ملزموں کے لئے مٹی پاؤ اور جان بچاؤ کا وسیلہ ہے۔
چلئے فرض کرتے ہیں‘ جے آئی ٹی کا کام بہت ہی اہم ہے۔ اس بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے قانون کے سامنے کوئی ایک بھی ایسا مقدمہ نہیں رکھا جا سکتا، جس میں جے آئی ٹی کی تفتیش نے ملزم کے گلے میں قانون کا رسہ ڈالا ہو۔ آئیے جان لیں کہ کس طرح کے مقدمات میں جے آئی ٹی کی رپورٹیں ایوانِ عدل کے بجائے پکوڑے والی کی دکان تک جا پہنچی ہیں۔ 
1: Mass Murdersیا اجتماعی قتل کی وارداتیں‘ جن کے ذریعے قاتلوں نے ایک ہی دن میں درجنوں شہریوں کو موت کی نیند سُلایا۔ ان کا گناہ کبھی ہڑتال میں شامل نہ ہونا تھا‘ کبھی بھتہ دینے سے انکار۔
2: اغوا اور اغوا برائے تاوان کے مقدمات‘ جن کے کچھ مظلوم جائیدادیں بیچ کر گھر واپس آ سکے، اور کچھ کی بے نشان قبرستانوں میں لاوارث قبریں بن گئیں۔
3: ریاست کے خلاف مختلف نوعیت کے جرائم‘ جن میں سے ہر جرم کی سزا موت ہے۔
4: دشمن ممالک کے خفیہ اداروں سے روابط۔ ملک کے خلاف دشمن ممالک کے ایجنڈے کی سہولت کاری۔
5: مختلف قسم کے سنگین مالی جرائم۔
6: سمگلنگ، بارڈر ٹریڈ، گولہ بارود کا کالا کاروبار، انسانوں کی خرید و فروخت۔ عورتوں اور بچوں کی عزت و ناموس کے خلاف گینگ وارداتیں۔ سیاسی اختلاف رکھنے والی جماعتوں کے خلاف حکومتی ایما پر کھلا تشدد۔ برسرِ عام فائرنگ کے ذریعے قتل وغیرہ۔
اس تناظر میں بنیادی اہمیت کا سوال ایک ہی ہے۔ جس ملک کا قانون پولیس سے تفتیش کا تقاضا کرتا ہے‘ اور حکمرانوں سے ایکشن کا‘ وہاں ریاست کے کارندے اور حکومت، ثبوتوں کے لنڈا بازار میں کھڑے ہو کر کھلے عام عوام سے کہتی ہے: وحشت گری کے ثبوت لاؤ۔ قاتلوں کو تلاش کرو۔ ڈاکوؤں کا کُھرا ڈھونڈو۔ لٹیروں کے بینک اکاؤنٹ پیش کرو۔ کالا دھن اور سفید دھن میں فرق بتاؤ۔ گواہوں کو تحفظ دو۔ ملزم کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹ کر تھانے تک لاؤ... پھر ہم ایکشن لیں گے۔ ایسے سماج کے عوام پر اللہ رحم کرے۔
پیاری، جے آئی ٹی آواز دے کہاں ہے...؟ کیونکہ...
عام ہے قاتل و مقتول کی روداد ابھی
خُون روتے ہیں کئی خانماں برباد ابھی
دامنِ شب سے جھلکتا ہے ستاروں کا لہو
کھیلتی ہے لبِ خورشید پہ فریاد ابھی
عصمتِ زہرہ وشاں جنس ہے بازاروں کی
شہ رگِ عدل پہ ہے خنجر جلاد ابھی
برسرِ اَوج ہیں، ہامان کے فرزند جدید
برسرِ کار ہے، نُمرود کی اولاد ابھی
تابکَے؟ ان کے اداروں کا فسوں ٹوٹے گا
خان زادوں کی جبینوں سے لہو پھوٹے گا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved