تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     11-03-2016

نیب اور مالی بے ضابطگیاں

جب 2008ء کے عام انتخابات کے ساتھ مشرف دور کا اختتام‘ اور جمہوری دور کا آغاز ہوا تو پاکستان کے شہریوں کا خیال تھا کہ حکمران عوام کی طرف سے ملنے والے جمہوری مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے شفاف اور بے لاگ احتساب کے عمل کو آگے بڑھائیں گے‘ اور ایک فلاحی معاشرے کا قیام عمل میں لائیں گے‘ لیکن گزشتہ سات برسوں کے دوران یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی دونوں حکومتوں کے طرز عمل نے اُن کی امیدوں کو چکنا چور کر دیا ہے کیونکہ اب بھاری بھرکم بدعنوانی، ٹیکس چوری اور ناقص گورننس کی مزید ہوشربا رپورٹس منظر عام پر آرہی ہیں۔ 
ملک بھر میں جاری اور فروغ پاتی ہوئی بدعنوانی کی روک تھام کے لیے نیب کا کردار انتہائی مایوس کن رہا ہے۔ اس کی بابت سپریم کورٹ میں متعدد بار رپورٹس پیش کی گئیں، لیکن نیب ایک بھی مجرم کو سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ اس کی فعالیت کا سارا زور اس بات پر ہے کہ ملزمان پلی بارگین کے ذریعے تھوڑی سی رقم ادا کر دیں‘ جبکہ باقی اپنی جیب میں ڈال کر کلین چٹ حاصل کر لیں۔ معاشرے میں چاروں طرف پھیلی بدعنوانی کی وجہ سے اب کالے دھن پر مبنی متوازی معیشت کا حجم بڑھتا جا رہا ہے۔ ٹیکس حکام کے تعاون سے ٹیکس چوری کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ ٹیکس میں چھوٹ باقاعدہ وقفوں سے دی جاتی ہے، اور اس سے فائدہ اٹھانے والے ٹیکس جمع کرانے کی بجائے تھوڑا سا انتظار کر لیتے ہیں تاکہ وہ سمیٹے ہوئے بے پناہ کالے دھن کو سفید کر لیں۔ اس دوران کبھی ایسی کوئی سنجیدہ رپورٹس سامنے نہیں آئیں‘ جن سے پتہ چلتا ہو کہ مختلف حکومتوں نے، چاہے وہ سول ہوں یا ملک پر طویل 
عرصے تک مسلط رہنے والی فوجی حکومتیں، کبھی بدعنوانی، کالے دھن اور ٹیکس چوری کو سنجیدہ جرم سمجھا اور کالے دھن کو معیشت میں داخل ہو کر اسے آلودہ کرنے کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ بھاری بھرکم کالے دھن سے غیر معمولی اغماض نے پاکستان کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ عوامی ادارے خطرے سے دوچار ہو چکے ہیں‘ کیونکہ نااہل اور بدعنوان ہاتھوں میں بھاری اثاثے ہیں، اور یہ لوگ عوامی نمائندے بن کر ریاستی امور کو اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں۔ 
کوئی نہیں جانتا کہ 13 جولائی 2015ء کو نیب کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ کا کیا بنا۔ اس رپورٹ میں بدعنوانی کے ایک سو پچاس میگا کیسز کا ذکر ہے۔ ان کیسز میں موجودہ وزیر اعظم، موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب، سابق وزرائے اعظم، وزرا، بعض سابق جنرلوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کے خلاف بھاری بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے سنگین الزامات ہیں۔ ان کیسز میں کرپشن کی رقم کا حجم کئی ٹریلین روپے ہے۔ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے بھائی کے خلاف 126 ملین روپے کے کیس کی انکوائری ہو رہی تھی۔ اس کا تعلق شریف فیملی کے گھر تک جانے والی کسی سڑک کی تعمیر سے تھا۔ اسی طرح سابق صدر، آصف علی زرداری کے خلاف بھی بہت سے کیسز کی بازگشت سنائی دیتی رہتی ہے۔ ان کے خلاف 2,2 اور 1.5 بلین ڈالر مالیت کی رقم کی مبینہ بدعنوانی کا کیس تھا۔ اس کے علاوہ نیب کا اپنا بیان ہے کہ موجودہ فنانس منسٹر کے خلاف بھی 23 ملین پائونڈ اور کئی سو ملین ڈالر مالیت کے کیسز موجود ہیں۔
حسب معمول سیاست دان ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے نیب کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں کہ وہ 'ان پر بے بنیاد الزمات لگا کر اُنہیں بدنام کر رہا ہے‘۔ خادم اعلیٰ کا کہنا ہے: ''اگر میرے خلاف ایک پیسے کی بھی بدعنوانی ثابت ہو جائے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا‘‘۔ اس سے پہلے ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے دعویٰ کیا: ''ہم نے مختلف بینکوں کے بائیس بلین روپے ادا کرکے اپنا حساب بے باق کر دیا ہے‘‘۔ محترم خادم اعلیٰ نے فی الحال ایک شائع شدہ رپورٹ کی تردید نہیں کی‘ جس کے مطابق ''اورنج لائن ٹرین تعمیر کرنے والے ٹھیکیدار نے ایک اور منصوبے میں بہت سی بے ضابطگیوں کا اعتراف کرتے ہوئے رقم واپس کرنے کا وعدہ کیا ہے‘‘۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے مشکوک معاملات رکھنے والے ٹھیکیدار کو اس اہم منصوبے کی تعمیر کا ٹھیکہ کس نے اور کیوں کر دے دیا؟ کہا جاتا ہے کہ اسے فروری میں گرفتار کیا گیا اور اُس نے دو سو پچاس ملین روپے واپس کرنے کی پیش کش کی۔ نیب نے دو مارچ 2016ء کو اس کی درخواست قبول کر لی۔ یہ ہے کہ پاکستان میں احتساب کا اصل چہرہ!
نیب کا دعویٰ ہے کہ اس نے گزشتہ پندرہ سالوں میں 265 بلین روپے وصول کیے ہیں۔ جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں نیب نے ظاہر کیا تھا کہ 1999ء سے لے کر 2014ء کے درمیان عرصے میں 270,675 شکایات اور 5,872 انکوائریاں کی گئیں، 2,908 کیسز پر تفتیش کرکے ملک بھر کی احتساب کی عدالتوں میں 2,159 کیسز فائل کیے گئے۔ اس کے باوجود سیاست دانوں کا موقف ہے کہ اُن کی کردار کشی ہو رہی ہے۔ اگرچہ نیب اور اس کے ناقدین کے درمیان تنائو ہے‘ لیکن یہ کسی کو نہیں یاد کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کا کیا بنا‘ جو سوئو موتو کیس نمبر 26، 2007 اور انسانی حقوق کیسز نمبر 2698/06, 133, 778-P, 13933 and 14072-P of 2009 تھے۔ تین جون 2011ء کو ان کیسز پر ایک تین رکنی کمیشن، جس کی سربراہی جسٹس سید جمشید علی نے کی، قائم کیا گیا۔ اس کمیشن نے 1971ء کے بعد معاف کیے جانے والے قرضہ جات کی تفصیل کی تحقیقات کی۔ اس کمیشن نے بیس جنوری 2013ء کو اپنی رپورٹ پیش کر دی۔ فاضل عدالت نے حکم دیا کہ اس رپورٹ کو عوام کے 
سامنے پیش کیا جائے۔ عقل حیران ہے اس رپورٹ کی بنیاد پر نیب نے اب تک کارروائی کیوں نہیں کی ہے؟ آج تک کسی اخبار نے اس رپورٹ کو شائع نہیں کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق اڑتیس برسوں کے دوران 87 بلین روپے معاف کیے گئے۔ یہ رپورٹ نہ صرف قرضے معاف کرانے والوں کے خلاف، بلکہ ایسا کرنے والے بینکاروں اور افسران کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کی سفارش کرتی ہے۔ فی الحال نیب ایسا کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ 
کمیشن نے ایسی کمپنیوں کے نام ظاہر کیے ہیں‘ جنہوں نے قرضے معاف کرائے لیکن ان کے اور ان کے ڈائریکٹرز کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔ کمیشن کی سفارش کے مطابق، ان سے رقم وصول کی جائے، اگر ایسا ہو تو قائم ہونے والی ٹریبونل کی سربراہی ہائی کورٹس کے ریٹائرڈ جج حضرات کریں، قرضے معاف کرانے کے خلاف قانون سازی کی جائے، کریڈٹ کمیٹیوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ آج تک کسی بڑی مچھلی پر نہ تو ہاتھ ڈالا جا سکا اور نہ کسی سے ایک روپیہ تک وصول ہوا۔ یہ ہے پاکستان کا اصل بحران اور اس کے تمام مسائل کی جڑ، کہ یہاں احتساب کی کوئی روایت موجود نہیں۔ درحقیقت بدعنوانی نے پاکستان کے تمام اداروں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ جب سیاست دانوں پر الزام آئے تو وہ کہتے ہیں کہ پہلے جوڈیشل اور دفاعی اداروں کے بدعنوان افسران کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ الزامات صرف ''سیاسی پوائنٹ سکورنگ‘‘ ہے‘ جس کا مقصد انہیں بدنام کرنا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہر سیاست دان احتساب کی ضرورت پر ضرور دیتا ہے‘ لیکن وہ اپنا گریبان پیش نہیں کرتا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved