تشویشناک بات تو یہ ہے کہ لوگ صاف گوئی کو عیب جوئی سمجھتے ہیں۔ اور اگر عیب جوئی ہو بھی تو اصلاحِ احوال کیلئے ہوتی ہے نہ کہ دوسروں کا تمسخر اڑانے کیلئے۔ ہمارے اکثر کالم نگار دوست اپنی تحریروں میں اشعار کا استعمال تو بڑے ذوق و شوق سے کرتے ہیں لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ عروض سے نا واقف ہونے کی بناء پر شعر یا مصرعہ نقل کرتے وقت غلطی کر جاتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک مصرعے کو اپنے کالم کا سرنامہ بناتے ہیں لیکن وہ ساقط الوزن ہوتا ہے یا اس میں کسی لفظ کی کمی بیشی ہوتی ہے اور جس کی مثالیں ہم پہلے بھی دے چکے ہیں اور یہ بھی، کہ شعر جیسی نازک و نفیس چیز کے ساتھ یہ کوئی اچھا سلوک نہیں ہے۔
مثلاً ایک مشہور کہاوت جو شعر کی شکل میں ہے اور اس طرح نقل کی جاتی ہے کہ ؎
جس کا کام اُسی کو ساجھے ...اور کرے تو ٹھینگا باجے
اس میں ساجھے کا لفظ پتا نہیں کیوں گھسیڑ دیا گیا ہے حالانکہ یہ ''ساجے‘‘ ہے، ''ساجھے‘‘ نہیں۔ اس کیلئے دو دلیلیں پیش ہیں۔ ایک تو یہ کہ ساجھے کا مطلب ہے مشترکہ جس کے استعمال سے پورا شعر ہی بے معنی ہو جاتا ہے جبکہ ساجے اس لیے بھی صحیح ہے کہ ایک تو ''باجے‘‘کا مکمل طور پر ہم قافیہ ہے اور دوسرے، معنوی لحاظ سے بھی شعر اسی صورت صحیح ہو سکتا ہے یعنی جس کا کام ہو، اسی کو سجتا ہے، اور کوئی اور کرے تو ٹھینگا بجتا ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ کم و بیش سو فیصد حضرات ایسا ہی کرتے ہیں۔
ہمارے عزیز اور محترم دوست مسعود اشعر نے بھی اگلے روز ایسا ہی کام دکھایا ہے، مثلاً اپنے ایک کالم کا عنوان جمایا ہے۔ ''اے ہجرکی رات کاٹنے والو۔‘‘ یہ مشہور بھارتی شاعر فراق گور کھپوری کا مصرعہ ہے جبکہ صاحب موصوف نے یہ پورا شعر بھی آگے جا کر نقل کیا ہے کہ ؎
اے ہجر کی رات کاٹنے والو ... کیا کرو گے اگر سحر نہ ہوئی
اس میں مصرعۂ اوّل میں لفظ ''اے‘‘ نہیں ہے یعنی صحیح مصرعہ ہو گا ع
ہجر کی رات کاٹنے والو
کیونکہ اس میں، جیسا کہ نقل کیا گیا ہے، لفظ ''اے‘‘ نہ صرف یہ کہ سراسر زائد ہے بلکہ شعر کے وزن کو بھی مجروح کرتا ہے۔ بیشک مسعوداشعر شاعر نہیں، بلکہ فکشن رائٹر ہیں اور فکشن رائٹر کا شاعر ہونا ضروری بھی نہیں ہے لیکن اگر نثر میں شعر کا ٹانکا لگانا بھی ہو تو اسے صحیح نقل کرنا بھی بے حد ضروری ہے کیونکہ ایک تو اس کے اس طرح غلط صورت میں رائج ہونے کا خدشہ ہے بلکہ خود شاعر کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔ تاہم شاعری کے اس ذوق و شوق اور اس پر اتنی توجہ کے حوالے سے شعراء کرام کو بھی فکشن رائٹر حضرات کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ تا ہم مذکورہ مصرعہ اس طرح بھی ہو سکتا تھا ع
اے شبِ ہجر کاٹنے والو
نیکی اور پوچھ پوچھ
اگلے ہی روز ایک مؤثر قومی روزنامے میں اطلاع عام کے عنوان سے اشتہار سٹی ڈسٹرک گورنمنٹ کی طرف سے شائع ہوا ہے کہ کرکٹ کے معروف کھلاڑی سابق بیٹسمین، حنیف محمد، جنہوں نے پاکستان کا نام بین الاقوامی سطح پر روشن کیا، کو خراجِ تحسین پیش کرنے اور ان کی گراں قدر خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اہل علاقہ ہربنس پورہ کی درخواست پر ضلعی حکومت، لاہور میڈیکل ڈینٹل کالج کے بالمقابل ایک گلی کا نام حنیف محمد سٹریٹ
رکھنا چاہتی ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخص یا تنظیم یا ادارے کو مذکورہ بالا روڈ کا نام رکھنے کے سلسلے میں کوئی اعتراض ہو گا یا وہ کوئی اور نام تجویز کرنا یا دینا چاہیں تو نوٹس ہٰذا کی اشاعت کے بعد 7 یوم کے اندر ڈاکٹر ندیم الحسن گیلانی چیف پبلک ریلیشنز آفیسر سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور کو سی پی آر او آفس جناح ہال شاہراہ قائداعظم لاہور کے ایڈریس پر تحریری طور پر آگاہ فرمائیں۔ 7یوم کے بعد آنے والا کوئی اعتراض یا تجویز قابل قبول نہ ہو گی۔ شعبۂ تعلقات عامہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور۔
یہ رجحان بجائے خود قابلِ صدشائش ہے اور ہم اہل علاقہ ہربنس پورہ کے اس جذبے کی قدر کرتے ہوئے خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ یہ اشتہار بھی ظاہر ہے کہ کسی تکنیکی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے شائع کیا گیا ہے ورنہ ایسے مستحسن اقدام پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے بلکہ سٹریٹ کی بجائے باقاعدہ کسی روڈ کو اس نام سے موسوم ہونا چاہیے تھا، اگرچہ اس نام کے بعد یہ سٹریٹ خودبخود ہی روڈ کا درجہ حاصل کرلے گی۔ اس طرح کا اہتمام تو ہر شہر میں ہونا چاہیے اور اپنے مشاہیر کی قدر افزائی مختلف طریقوں سے ہوتی رہنی چاہیے، اور ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے اپنے ہیروز کا نام اس طرح زندہ رکھناخود ہمارے زندہ ہونے کی ایک نشانی کا اظہار ہے۔ مثلاً لاہور کے جن انڈر پاسز کو جن مشاہیر کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے، یہ ادارہ اس کیلئے بھی شکریے اور تحسین کا مستحق ہے۔ نیز، کرکٹ ہی کے میدان میں ظہیر عباس، جاوید میاں داد، وسیم اکرم، انضمام الحق اور یونس خان جیسے کئی اور درخشندہ ستارے بھی موجود ہیں جن کے کارناموں کا اعتراف اسی طرح کیا جانا ضروری ہے۔ اور، اب مانسہرہ سے موصولہ رستم نامی کی شاعری کے کچھ تازہ نمونے:
عشق کے ہم مزاج ہیں ہم لوگ/غم کے زیرِ علاج ہیں ہم لوگ/ کل نہ ہوں گے کہیں بھی ہم نامی/ہے غنیمت کہ آج ہیں ہم لوگ/میسّر تو نہیں ہیں ہم کو لیکن/لب ورخسار سازی ہے ہماری/خیالوں اور خوابوں میں ہی نامیّ/درو دیوار سازی ہے ہماری/اس لیے اس کے ستم سہتے ہیں ہم/ اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں/اس لیے آتا نہیں ہے یاد وہ/وہ مرے دل سے گیا ہے ہی نہیں/پتا چلتا نہیں کچھ اس لیے بھی وقت کا ہم کو/کہ ہم جاتی ہوئی ساعت کو بھی آتی سمجھتے ہیں/چلو یہ بھی ہمارے واسطے اعزاز ہے اُن کا/ہمیں اپنی محبت کا مضافاتی سمجھتے ہیں/ہمارا ذہن ہے قیدی، ہماری سوچ گروی ہے/ہم اپنے آپ کو نا می حوالاتی سمجھتے ہیں
آج کا مقطع
شرمندہ بہت ہیں‘ ظفر‘ اس عیب ِسخن پر
اور اِس کے سوا کوئی ہنر بھی نہیں رکھتے