کچھ دن ہوئے، بھائی امجد چوہدری کا فون آیا۔ بہت دنوں سے سب کچھ ٹھنڈا ٹھار چل رہا تھا۔ جی خوش ہوا کہ شاید کوئی کام کی خبر مل جائے کیونکہ امجد چوہدری صرف نام کے نہیں بلکہ خبروں کے بھی چوہدری ہیں کیونکہ ان کے ''رابطے‘‘ ہیں۔ مگر وہ بھی ٹھنڈے ٹھار نکلے۔ کوئی کام کی خبر تو نہ دے سکے، حکم البتہ ضرور دیا کہ کل ایک تقریب میں شریک ہونا ہے اور لازمی طور پر شریک ہونا ہے کہ ایک کام کی شخصیت کچھ کہنا چاہتی ہے۔ کچھ دیر بعد موٹر وے پولیس (سندھ) کے ترجمان فرحان احمد صاحب کا فون آیا۔ معلوم ہوا کہ پیشہ ورانہ مہارت، دیانت اور (کسی سے خوفزدہ ہوئے بغیر) ٹھوس کارکردگی کے حوالے سے غیر معمولی شہرت رکھنے والے بیورو کریٹ ذوالفقار چیمہ میڈیا بریفنگ کرنے والے ہیں۔ فرحان احمد صاحب نے تاکید کی کہ آنا ہی پڑے گا۔
رپورٹر تو ہم ہیں نہیں اس لیے بریفنگ میں شرکت کی دعوت پاکر حیران ہوئے۔ اور پھر ذوالفقار چیمہ تو موٹر وے پولیس کے سربراہ ہیں، پھر ہمیں کیوں یاد کیا جارہا ہے؟ خیال آیا کہیں اوور اسپیڈنگ کا چکر تو نہیں؟ کیا پتا کسی دشمن نے ذوالفقار چیمہ صاحب کو خبر کردی ہو؟ بات یہ ہے کہ چند ماہ سے ہم باقاعدگی سے لکھ رہے ہیں۔ مرزا تنقید بیگ سمیت کئی احباب ہمیں ''اوور اسپیڈنگ‘‘ کا طعنہ دے چکے ہیں۔ اور بعض مَن چلے تو، دوسرے بہت سے لکھاریوں کے مزاج کی طرح، ہماری اِس کیفیت کو بھی ''ہیضہ‘‘ اور ''ہَوکا‘‘ قرار دینے سے بھی نہیں چُوکے! مگر صاحب، وہ اور ہوں گے جو ایسی باتوں سے خوفزدہ ہوکر لکھنے کی رفتار گھٹالیتے ہوں گے۔ ہم ایسے تمام مراحل سے گزرتے وقت ثابت قدم رہتے ہیں۔ ؎
باطل سے دبنے والے اے آسماں! نہیں ہم
سو بار لے چکا ہے تو امتحاں ہمارا
کچھ ہی دیر میں اوور اسپیڈنگ پر قدغن لگانے سے متعلق ہمارا خدشہ بے بنیاد ثابت ہوا۔ ہم اِس مغالطے میں تھے کہ ذوالفقار چیمہ صاحب موٹر وے پولیس کے سربراہ ہیں۔ وہ بھی ''اوور اسپیڈنگ‘‘ کے شکار نکلے۔ اِس ادارے کو چھوڑ کر آگے جاچکے ہیں یعنی اب نوجوانوں کو پیشہ ورانہ تربیت دینے سے متعلق ادارے یعنی ''نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن‘‘ (نیوٹک) کے سربراہ ہیں۔ آپ سوچیں گے ایسا ہے تو پھر موٹر وے پولیس (سندھ) کے ترجمان کہاں سے بیچ میں آگئے؟ وضاحت چاہی تو بتایا گیا کہ جب بھی چیمہ صاحب کراچی آتے ہیں تو پرانی ورکنگ ریلیشن شپ کے تحت فرحان احمد ہی اُن کی رابطہ کاری فرماتے ہیں۔
بریفنگ کے دوران چیمہ صاحب نے چند غیر روایتی باتیں کی اور بریفنگ کے بعد کھانے کی میز پر غیر رسمی گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ کھانے میں ہم پرہیز کے قائل نہیں، ہاں کھانے کی میز پر رسمی یا غیر رسمی ہر طرح کی گفتگو سے ضرور پرہیز کرتے ہیں! مگر اِس بات چونکہ چیمہ صاحب کا سامنا تھا اِس لیے کھانے کے دوران باتوں پر بھی توجہ دینا پڑی!
چیمہ صاحب اس خیال کے حامل ہیں کہ نئی نسل کو بیرون ملک کام کرنے کے لیے مختلف شعبوں میں غیر معمولی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ معیاری افرادی قوت کی برآمد کے حوالے سے عالمی منڈی میں غیر معمولی مسابقت کا سامنا ہے۔ چین، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، تھائی لینڈ، ویتنام اور دوسرے بہت سے ممالک کے ہنر مند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان امریکہ، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بھارت اِس وقت نالج ورکرز برآمد کرنے والا ایک نمایاں ملک ہے۔ امریکہ، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں بھارت کے اعلٰی تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان نہایت مستعدی سے خدمات انجام دے کر اپنے ملک کے لیے خطیر زرِ مبادلہ کا اہتمام کر رہے ہیں۔ کیا ہمارے نوجوان ایسا نہیں کرسکتے؟
ایسا کیوں ہے؟ سوال بہت حد تک آبادی کے فرق کا بھی ہے۔ دنیا بھر میں بھارتی نژاد باشندوں کی تعداد پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ان میں تال میل بھی غیر معمولی ہے۔ بھارتی حکومت نے نئی نسل کو بیرون ملک کام کرنے کے قابل بنانے پر توجہ بھی دی ہے۔ بیرون ملک کام کرنے والے یعنی غیر مقیم بھارتی افرادی قوت کی برآمد میں اضافے کے لیے کوشاں بھی رہتے ہیں۔ پچیس سے زائد ممالک میں بھارتی نژاد باشندوں کی تعداد کم و بیش تین کروڑ ہے! ان تمام افراد کو اصطلاحاً ''غیر مقیم بھارتی‘‘ (NRI) کہا جاتا ہے۔
کھانے کے دوران چند صحافی احباب نے یہ بات زور دے کر کہی کہ پاکستانی خواہ کہیں کام کرتے ہوں، اصول پسندی ترک نہیں کرتے اور کوئی بھی غلط بات برداشت نہیں کرتے۔ اور بالخصوص ملک کے خلاف کوئی بھی ایسی ویسی بات نہیں سنتے۔ اس ''نکتۂ جاں فزا‘‘ کو خوب سراہا۔ خاکسار نے عرض کیا کہ بھارت کو افرادی قوت کی ترسیل کے حوالے سے دنیا بھر میں جو فوقیت میسر ہے وہ قابلیت اور محنت کے ساتھ ساتھ اس بنیاد پر بھی ہے کہ بیشتر بھارتی باشندے
بیرون ملک کام کے معاملے میں غیر معمولی استعداد کے ساتھ ساتھ چند بنیادی انسانی خوبیوں کو بھی بروئے کار لاتے ہیں۔ امارات، سعودی عرب، قطر، بحرین اور دیگر خلیجی ریاستوں میں بھارتی باشندوں کو اس لیے زیادہ پسند کیا جاتا ہے کہ وہ خوش اُسلوبی اور خوش اخلاقی سے کام کرتے ہیں۔ اگر ڈیوٹی کے اوقات سے دو تین گھنٹے زیادہ بھی کام کرنا پڑے تو بخوشی کرتے ہیں۔ غیر ضروری طور پر باتیں نہیں کرتے۔ تھوڑا سا کام زیادہ کریں۔ لڑنے جھگڑنے سے گریز کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر تھوڑا سا کام زیادہ کریں تو اُس کے پیسے نہیں مانگتے۔ یعنی سَر جُھکاکر کام کرتے ہیں اور اپنے آپ کو منواتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستانیوں کا یہ حال ہے کہ انتہائی باصلاحیت اور پُراعتماد ہوکر بھی کم کام کرتے ہیں اور ذرا سی بات پر جھگڑ بیٹھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ امریکہ اور یورپ تو ایک طرف رہے، خلیج کے ممالک میں بھی افرادی قوت کے حوالے سے پاکستانیوں کو ترجیح نہیں دی جاتی۔
ذوالفقار چیمہ صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ افرادی قوت کی برآمد کے لیے نوجوانوں کو تیار کرتے وقت اُنہیں مختلف ہنر سکھانے کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے۔ انٹیلی جنس سے انکار نہیں مگر ایموشنل انٹیلی جنس کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔ افرادی قوت کی عالمی منڈی میں مسابقت غیر معمولی ہے اس لیے یہ بات خاص طور پر سکھانا پڑے گی کہ بیرون ملک کچھ کمانے اور کر دکھانے کے لیے سَر جُھکاکر کام کرنا پڑتا ہے۔