متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پر بھارت سے خفیہ تعلق کا پہلا باقاعدہ الزام اس وقت لگا جب نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم، جام صادق علی سندھ کے وزیراعلیٰ اورجنرل اسلم بیگ مسلح افواج کے سربراہ تھے۔ کراچی میںایک خفیہ ایجنسی کے مقامی سربراہ نے جنرل اسلم بیگ کو بتایا کہ ایم کیو ایم کو نہ صرف ''را‘‘ کی طرف سے سرمایہ فراہم کیا جاتا ہے بلکہ پیغام رسانی کے کچھ جدید آلات بھی فراہم کیے گئے ہیں۔ جنرل صاحب نے یہ تفصیلات سن کر بریفنگ دینے والے سے کہا ، ''آپ کی اطلاعات ناقص نظر آتی ہیں اور ان سے نکالے گئے نتائج اور بھی زیادہ ناقص ہیں‘‘۔ بریفنگ دینے والے افسرنے انہیں بتایا کہ چیف آف آرمی سٹاف کی خدمت میں پیش کی جانے والی یہ اطلاعات نہ صرف پوری احتیاط سے مرتب کی گئی ہیں بلکہ 'میرے پیشرو نے کافی عرصہ پہلے سے ہی اس نوعیت کی معلومات فوجی ریکارڈ میں درج کررکھی ہیں‘۔ جنرل صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے اس افسر کو روکا اور اسے ہدایت کی کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے ذاتی طور پر مل کر ان کی اور اپنی غلط فہمیاں دور کرے۔ افسر موصوف نے با دلِ نخواستہ اپنے چیف کے حکم کی تعمیل کی اور ایک دوسرے افسر کی معیت میں الطاف حسین سے ملنے کراچی کے عباسی شہید ہسپتال پہنچ گئے جہاں وہ علاج کے لیے داخل تھے۔
ان دنوں ایم کیو ایم مرکز اور سندھ میں برسرِ اقتدار مسلم لیگ ن کی اتحادی جماعت تھی اور سندھ کی کابینہ میں اس کے وزراء بھی شامل تھے۔ ان میںسے ایک وزیر بدراقبال (صوبائی وزیرِٹرانسپورٹ)کے بارے میں چہ میگوئیاں جاری تھیں کہ انہوں نے پیسے لے کر کچھ روٹ
پرمٹ جاری کیے ہیں ۔ جب وزیرموصوف کی کرپشن کی خبریں الطاف حسین تک پہنچیں تو انہوں نے بدر اقبال کو نائن زیرو بلاکر وزارت چھوڑنے کے لیے کہا ۔ وزیر موصوف ان الزامات پر بپھر گئے اور وزارت چھوڑنے سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ الطاف حسین کو بھی تلخ نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنے کا مشورہ دیا۔ الطاف حسین کا خیال تھا کہ ان کی پارٹی کاایک کارکن اگر ان سے طاقت آزمائی پر اتر آیا ہے تو اس کے پیچھے ملک کے خفیہ اداروں یعنی ایم آئی یا آئی ایس آئی کا ہاتھ ہوگا۔ایک واسطے کے ذریعے الطاف حسین نے جنرل مرزا اسلم بیگ سے شکوہ کیا کہ ان کی ایجنسیاں ایم کیو ایم کو توڑنے کی کوششیں کررہی ہیں۔ اسی شکوے کو دور کرنے کے لیے پاک فوج کے دو افسروں نے الطاف حسین کو یقین دلایا کہ پاک فوج کے ان دونوں اداروں میں سے کوئی بھی کم ازکم ا ن کی جماعت کے اندر پھوٹ ڈالنے کے لیے کام نہیں کررہا۔ان افسروں سے ملاقات کے بعد الطاف حسین نے عباسی شہید ہسپتال کے اسی کمرے میں اس وزیر سمیت کچھ دیگر لوگوں کو بلایا اور ان کے سامنے اسے استعفیٰ دینے کے لیے کہا مگر وہ اپنے انکار پر قائم رہا۔ الطاف حسین کے اصرار اور اس کے انکار پر پارٹی کے سینئر لوگ درمیان میں آئے اور اسے کسی نہ کسی طرح استعفیٰ دے کر بیرون ملک جانے پر تیار کرلیا۔ جب بدر اقبال نے استعفیٰ دیا تو ان کے ساتھ دوسرا شخص جو اس فیصلے پر ناراض ہوکر کمرے سے باہر آیا اس کا نام آفاق احمد تھا۔
جنرل اسلم بیگ نے فوج کی سربراہی سے رخصت ہونے سے کچھ ہفتے پہلے متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف فوجی آپریشن کا اصولی فیصلہ کرلیا تھا اور کراچی کور میں آپریشن کی تیاریوں کے حوالے سے کم ازکم تین اجلاسوں کی صدارت بھی کرچکے تھے۔ اس آپریشن کا فیصلہ اس لیے نہیں کیا گیا تھا کہ ایم کیوایم بھارت کی خفیہ ایجنسی سے رابطے میں ہے بلکہ اس کی وجہ رینجرز کے ایک میجراور چار اہلکاروںکے اغوا اور بازیابی کا معاملہ تھا۔اس اغوا کی ایف آئی آر براہ راست الطاف حسین کو ملزم نامزد کرکے کٹوائی گئی تھی جس کی بنیاد پر جنرل اسلم بیگ کراچی میں آپریشن کرنا چاہتے تھے۔ کسی وجہ سے کراچی میں آپریشن ملتوی ہوتا رہا اور اس وقت شروع ہوسکا جب پاک فوج کی کمان جنرل آصف نواز کے ہاتھ میںآچکی تھی۔ اسی آپریشن میں جناح پور کے نقشے بھی نکلے، ٹارچر سیل بھی دریافت ہوئے ، آفاق احمد کو فوجی سرپرستی بھی میسر آگئی اور ''را‘‘ سے تعلق کا الزام خفیہ فائلوں سے نکل کر خبروں تک آ پہنچا۔ آفاق احمد اور بدر اقبال کو جو کردار دیا گیا وہ ایم کیو ایم پر لگنے والے ہر الزام کی تصدیق کرنا تھا۔ بالکل مصطفٰی کمال کی طرح ان دونوں حضرات نے الطاف حسین کو را کا ایجنٹ بھی کہا، ان پر مہاجروں کی ایک نسل کو برباد کرنے کی ذمہ داری بھی ڈالی اور ٹارگٹ کلنگ کا مجرم بھی ٹھہرایا۔ اس آپریشن کے بعد 1993ء کے انتخابات ہوئے، ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا لیکن دو دن بعدہی بائیکاٹ ختم کردیا اور ایک بار پھر پوری قوت سے سندھ اسمبلی میں آ بیٹھی۔
مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے ایم کیو ایم پر بھارت سے مدد لینے کا الزام کوئی نیا نہیں۔ قرائن بتاتے ہیں کہ اس طرح کی کچھ معلومات (یا الزامات) جنرل ضیاء الحق کے علم میں بھی ہوں گے۔ ان کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ تو بالیقین اس بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔ بے نظیر بھٹو بھی،جن کی اپنی پارٹی کے کارکنوں پر 'را‘ سے رابطوں کا الزام لگتا رہا، الطاف حسین کو پوری دیانت داری سے غدار سمجھتی تھیں اور انہوں نے ان کے ساتھ مل کر 1988ء میں حکومت بنائی، اس حکومت میں چودھری اعتزاز احسن وزیرداخلہ تھے جو یقینا اس بارے میں بہت کچھ جانتے ہوں گے۔ 1993ء تک ''را‘‘ کے ایجنٹوں کی اس جماعت کی حمایت سے نواز شریف وزیراعظم تھے اور ان کے وزیر داخلہ چودھری شجاعت حسین بھی الطاف حسین کی ''اصلیت‘‘ سے واقف ہوں گے۔ جنرل پرویز مشرف کے وزیرداخلہ جنرل معین الدین حیدر سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ انہیں ایم کیو ایم کے ''را‘‘ کنکشن کے بارے میں علم نہیں ہوگا۔2002ء سے 2008ء تک مسلح افواج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کے حکومتی بندوبست میں یہی' 'غدار وطن ‘‘ حکومت کا اہم ترین حلیف تھا۔ 2008ء سے 2013ء تک ایک بار پھر انہی ایجنٹو ں کی مدد سے پاکستان کی ایک دستوری حکومت چلتی رہی۔ آج بھی اس جماعت کے پاس قومی اسمبلی میں 23، سندھ اسمبلی میں 50 اور سینیٹ میں 8 نشستیں ہیں۔ اگر ان الزامات میں کچھ سچائی ہے تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں ''را‘‘ کا عمل دخل روکنے میں ہم بحیثیت قوم ناکام رہے ہیں۔ ہمارے بدقسمتی کی انتہا ہے کہ جنرل ضیا ء الحق ، جنرل مرزا اسلم بیگ،جنرل وحید کاکڑ، جنرل جہانگیر کرامت ، جنرل پرویز مشرف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی اس بارے میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی کچھ نہ کرسکے۔ سیاست کے میدان میں بے نظیر بھٹو شہید، نواز شریف، جنرل پرویز مشرف، چودھری شجاعت حسین، آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف غداروں کے ساتھ مل کر حکومتیں بناتے رہے! اگر ایم کیو ایم قدیمی غدار جماعت ہے تو کچھ نہ کرنے والوں اور اس کے ساتھ مل کر حکومتیں بنانے والوں سے بھی تو کچھ پوچھا جائے کہ آخر کس چیز نے انہیں ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور کیا تھا؟ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف دستور شکنی کا مقدمہ دوبارہ کھلتے ہی غداری کا ایسا الزام سامنے کیوں آگیا جس کی زد سے کوئی صاحبِ فضیلت بچتا نظر ہی نہیں آتا؟ بقول پروین شاکر ؎
بہت جلد سمجھ میں آنے لگتے ہو زمانے کو
بہت آساں ہو، تھوڑے بہت دشوار ہو جاؤ