تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     12-03-2016

ژولیدہ فکری

سچا آدمی ایثار کیش ہوتا ہے‘ متحمل مزاج اور معاف کر دینے والا ،بزدل اور بے حمیت کبھی نہیں۔ اصل دشمن ہمارا بھارت نہیں‘ ہماری ژولیدہ فکری ہے‘ اِس انتہا پر یا اُس انتہا پر۔
بھارت کے بارے میں اپنے اندازفکر پر وزیراعظم کو نظرثانی کی ضرورت ہے۔ چوہدری نثار علی خان اور سید مشاہد حسین دل و جان سے کبھی ان کے ساتھ تھے ۔ اس طرح کے پیچیدہ مسائل پر ہمیشہ انہیں موزوں مشورہ دیا کرتے۔ جنرل پرویزمشرف کے عہد میں بے وفائی کا ارتکاب کرنے والے اکثر مرغانِ باد نما انہوں نے قبول کر لیے۔ چوہدری سے وہ ناخوش رہتے ہیں اور مشاہد حسین نے اپنے راستے الگ کر لیے؛حالانکہ جنرل کے پورے عہد میں‘ انہوں نے شریف خاندان کے بارے میں کبھی کوئی ناگواربات نہ کی۔ اب زبانِ حال سے وہ یہ کہتے ہیں۔
بلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھا لیا
اپنی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے
جنرل مشرف کے ریزہ چین کیوں گوارا ہیں۔ اپنے قدیم ہوش مند رفیق کیوں نہیں؟ اس لیے کہ آزادانہ وہ رائے دیتے ہیں۔ اپنی آنکھ سے زندگی کو دیکھتے ہیں۔ جنرل کے تابع مہمل‘ اب وزیراعظم کے تابع مہمل ہیں، ناکارہ بیل !پنجابی کا محاورہ ان کے بارے میں یہ ہے: چور لے جائیں یا کھونٹے سے بندھا ہو‘ فرق کیا ہے؟
کرکٹ ٹیم کو بھارت بھیجنے کا سوال ہو‘ ملک میں تخریب کاری یا الطاف حسین کے مسلح لشکر کی سرپرستی‘ وزیراعظم مخمصے کا شکار رہتے ہیں۔ کھل کر بات تک نہیں کرتے۔ من موہن سنگھ نے ان کی تقریب حلف وفاداری میں شرکت سے انکار کردیا‘ خود مگر وہ سر کے بل نریندر مودی کے ہاں گئے۔ اسی وقت عرض کیا تھا کہ عسکری قیادت کیا‘ خود اپنی پارٹی کے رہنمائوں کے ساتھ مشورہ کرنے سے پہلے انہوں نے آمادگی ظاہر کر دی۔ دفترخارجہ اور خواجہ سعد رفیق ہی سے پوچھ لیا ہوتا۔ اگرچہ اب وہ ارب پتی ہیں لیکن خواجہ رفیق کے فرزند ہیں۔
وزیراعظم کے قابل اعتماد اور محتاط مشیر سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ بھارتی سٹیٹ ایکٹر ''را‘‘ پاکستان میں تخریب کاری کی مرتکب ہے۔ سوال ذہن میں ابھرتا ہے۔ معقول اور شائستہ انداز میں قدم بہ قدم دونوں ملکوں میں کشیدگی کا خاتمہ کرنے کی بجائے دہلی سے مراسم بحال کرنے کے لئے وزیراعظم بے تاب کیوںہیں ، ہیجان اور تعجیل کا شکار کیوں؟ پرویزرشید کے ترقی پسند دانشوروں کے مشورے ؟ امریکہ اور برطانیہ کی فرمائش یا عاصمہ جہانگیر کی تلقین پر؟سپریم کورٹ بار کے الیکشن میں جس کے حریف سے میاں صاحب نے تائید کا وعدہ کیا اورآخری وقت پر بے وفائی کی۔ عاصمہ یہ کہتی ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر ریاست کی تخلیق کا جواز ہی نہ تھا۔ حیرت ہے کہ اقبالؔ کو قائداعظم ثانی بھول گئے‘ مغرب اور بھارت کی اس وکیل کو یاد رکھا۔ اقبالؔ نے یہ کہا تھا ع
قوم مذہب سے ہے‘ مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
عجیب قوم ہے‘ جس کا ایک طبقہ مذہبی جنونیوں سے حسن ظن رکھتا ہے۔ساٹھ ہزار بے گناہ شہری انہوں نے شہید کر دئیے ۔ دوسری طرف ان لوگوں کی تو قیر ہے جو دنیا کو پاکستان کے نقطہ ئِ نظر سے نہیں دیکھتے۔ اپنے وطن کو دشمن اور اجنبیوں کی نگاہ سے جانچتے ہیں۔ 
مولانا فضل الرحمن اور ان کے فکری رفیق ، نام نہاد سیکولر‘ بھارت کے باب میں دونوں کا روّیہ ایک ہے۔ ایک مولوی صاحب کے بارے میں جنرل پرویز مشرف نے اپنی کابینہ کو بتایا تھا کہ بھارت سے وہ نقد روپیہ لائے تھے۔ بعدازاں اپنی صدارتی مدت کو دراز کرنے کے لیے انہی سے مدد مانگی۔ یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ وہ لیبیا کے جنونی کرنل قذافی اور عراق کے ''صلاح الدین ایوبی ‘‘صدام حسین کے خوشہ چیں تھے۔ اردن سے بھی راہ و رسم رکھی۔ حالات بدلے تو سعودی عرب تشریف لے گئے اور سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ سے ملاقات کی۔ والد مرحوم ان کے دنیا سے مقروض اٹھے تھے۔ وہ اربوں میں کھیلتے ہیں۔فقط عربوں کے طفیل نہیں ،پاکستانی حکومتوں کی سرپرستی کے سبب بھی۔
قائد اعظم کا قول دہرایا جاتا ہے کہ دونوں ملکوں میں امریکہ اور کینیڈا ایسے تعلقات ہونے چاہئیں ۔ کون ہوش مند پاکستانی ایسے تعلقات نہ چاہے گا؟ آویزش ‘نفرت اورجنگ سے کیا حاصل ؟جی ہاں مگر سوالات ہیں۔ اوّل یہ کہ کیاقائدِ اعظم نے یہ بات کشمیر پر بھارتی قبضے سے پہلے کہی تھی یا بعد میں۔ثانیاً،کیا امریکہ نے کینیڈا کے کسی علاقے پر قبضہ جمایا؟ علیحدگی کی تحریکیں کینیڈا میں بھی تھیں۔ اس کے فرانسیسی بولنے والے علاقوں میں۔ کیا امریکیوں نے ان کی مدد کی یا کینیڈین ریاست کی؟ کیا پڑوسی ملک میں اس نے تخریب کار بھیجے؟ کیا اس کی عاصمہ جہانگیروں‘ آئی اے رحمانوں اور نجم سیٹھیوں کی حوصلہ افزائی کی؟ اس کے اخبارات ،فلمی اور ادبی دنیا میں کارندے تلاش کیے ؟ ؎
شیخ صاحب خدا خدا کیجے
آپ کی منطقیں نرالی ہیں
ایم کیو ایم ایک نہیں‘ کئی ہیں۔ اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ ایک اس کے ووٹر ہیں۔ اتنے ہی محب وطن جتنا کوئی دوسرا ہو سکتا ہے۔ سارے ملک میں ہر کہیں طاقتوروں نے افتادگانِ خاک پر ظلم روا رکھا۔ ان کے حقوق بھی غصب ہوئے ۔ ردّ ِعمل کا شکار ہو کر وہ انتہا پسندی کی طرف مائل ہو گئے۔ پھر ارکانِ اسمبلی ، درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے معقول لوگ۔ اپنی قیادت کے سامنے ویسے ہی بے بس‘ جیسے کہ سب پارٹیوں میں ہوتے ہیں ۔ہر کہیں شخصیت پرستی ہے، یہاں کچھ زیادہ ہے اور ایک منصوبے کے تحت کہ ''جو قائد کا غدار ہے، موت کا حق دار ہے‘‘۔ حال ہی میں الطاف حسین نے یہ کہا :مصطفی کمال نے میرے ساتھ وہ کیا‘جو ابلیس نے ذات باری تعالیٰ سے کیا تھا۔ آڈیو موجود ہے اور ایک سوال: کیا وہ خدائی کے دعویدار ہیں؟ یہ بات فاروق ستار اور اس کے ساتھیوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آ رہی کہ تکبر کے انہدام کا وقت آ پہنچا۔ مہاجر باقی رہیں گے مگر الطاف حسین نہیں۔ کوئی باقی نہیں بچتا‘ کسی کو دوام نہیں ؎
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے۔ زمین پر اکڑ کر نہ چلو‘ تم اسے پھاڑ نہیں سکتے اور نہ پہاڑوں سے اونچے ہو سکتے ہیں۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: زمین پر نرم روی سے چلا کرو‘ وہ تمہاری ماں ہے۔
سب دفینے زمین میں ہیں۔ اسی میں شجر اگتے اور وہی سبزہ و گل اگاتی ہے۔ سب سمندر‘ دریا‘ ندیاں اور چشمے اس کے سینے پر گیت گاتے ہیں۔ پانیوں سے بخارات اڑتے اور بادل بن کر دھرتی پر نچھاور ہو جاتے ہیں۔ شجر اور طیور‘ جنگل اور اس کے باسی
جو ازل سے ہمارے رفیق ہیں‘ اسی ماں کے دامن میں آسودہ ہوتے ہیں، جو چھ ارب سال میں تخلیق کے عظیم الشان مراحل سے گزری۔ سب جانوروں کے لیے‘ جس میں رزق کی ضمانت دی گئی۔ ومامن دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا۔ زمین میں کوئی ذی روح ایسا نہیں ،جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔ حاکمیت اس کی ہے‘ جس نے یہ زمین و آسمان بنائے اور کھربوں میل کی وسعتوں میں دمکتی ہوئی کہکشائیں۔ انبیاء ؑ ،اولیاؒ اورتصوف کے چراغ دائم دمکتے رہیںگے ۔اس لیے کہ وہ اس راز سے واقف ہیں۔ کائنات کی تخلیق میں وہ غور کیاکرتے ہیں۔خودپسندی سے گریزاں‘ خدائی کے فتور سے پاک۔نفی ء ذات کے لیے سرگرداں۔ علم کے متلاشی ،بغض اورحسد سے مبرا۔ سربسجود خاکسار: اے ہمارے رب بے شک تو نے زمین اور زندگی کو بے سبب پیدا نہیں کیا۔ ہمیشہ انہیں یاد رہتا ہے کہ ایک دن وہ چلے جائیں گے اور خالق کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔ بادشاہ خوار ہوتے ہیں اور اپنی انائوں کا علم لہرانے والے سب الطاف حسین بھی ۔تاریخ ان کا کوڑے دان ہے۔
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری
مجنون ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ پڑوسی ملک سے دشمنی کی آبیاری کی جائے۔ مسلمان کا یہ شعار نہیں۔ اس کے لیے رہنما اصول یہ ہے ''الدین ا لنصیحہ‘‘۔ دین خیر خواہی ہے۔ دلیل کے بغیر‘ الفت اور انس کے بغیر مذہب کیا ہے؟ رحمت للعالمینؐ کا شیوہ کیا تھا؟صوفیا نے ایمان اور خیر کی فصلیں اگائیں تو کس طرح؟ ملّا کے ہاتھ پر کوئی ایمان کیوں نہیں لاتا؟
سچا آدمی ایثار کیش ہوتا ہے‘ متحمل مزاج اور معاف کر دینے والا ،بزدل اور بے حمیت کبھی نہیں۔ اصل دشمن ہمارا بھارت نہیں‘ ہماری ژولیدہ فکری ہے‘ اِس انتہا پر یا اُس انتہا پر۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved