جب ایک سی ای او اعلان کرتا ہے کہ وہ جس بزنس کی قیادت کر رہا ہے، وہ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے تو اس کاروبار کے شراکت دار پریشان ہوجاتے ہیں۔جب چیف جسٹس انور ظہیر جمالی فرماتے ہیں کہ ''ہمارے روایتی جوڈیشل سسٹم میںکوئی خامی نہیں‘‘ تو ہمارا رد ِعمل کیا ہونا چاہیے؟ کیا محترم چیف صاحب نے اسی جوڈیشل سسٹم پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے جس نے ماضی میں بارہا طالع آزمائو ں کی توثیق کی اور منتخَب حکومتوں کا تختہ الٹنے میں جنرلوں کے ساتھ کھڑا دکھائی دیا؟ کیا یہ وہی جوڈیشل سسٹم ہے جس میں سترہ لاکھ سے زیادہ کیسز زیر ِالتوا ہیں؟ ان میں سے بیس ہزار کیسز کا انبار تو صرف سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس ہے۔ اس کے باجود فاضل عدالت، فوری طور پر انگریزی کی جگہ اردو نافذ کرنے یا چینی جیسی اجناس کی قیمتوں کا تعین کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
چیف جسٹس جمالی حال ہی میں کراچی میں تھے جب اُنہوں نے ایک حیران کن دعویٰ کیا۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اُنہوں نے دو مقامات پر خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا، اس نے میرے کان کھڑے کردیے، مثال کے طور پر وہ فرماتے ہیں: '' قدرتی وسائل سے مالا مال ملک پاکستان انتہائی خوشحال ہوسکتا ہے لیکن ہمارا عقیدہ کمزور ہے۔ یہ کمزور عقیدہ ہمیں گمراہی اور پستی کی طرف لے جا رہا ہے‘‘۔ محترم چیف صاحب! کیا واقعی ایسا ہے؟ میرا تو خیال تھا کہ یہ ہمارے نظریات ہیں جو ہمیں پستی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ جہالت، غذائی قلت اور بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی بھی ہمارے زوال کا باعث ہیں۔ لیکن چیف صاحب کے مطابق عقیدے کی کمی ہمیں ترقی سے محروم کر رہی ہے۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے افراد، خاص طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان چیف جسٹس جمالی کی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ''ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں لوگوں کو خدا کا خوف نہیں اور عدالت کے احکامات پر عمل درآمد نہیںہوتا‘‘۔
میرا خیال ہے کہ اس شکایت کے پہلے حصے کے متعلق تو چیف صاحب کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ یہ معاملہ خدا اور اس کے بندوں کا ہے، لیکن عدالت کے احکامات پر عمل درآمد کرانے کے لیے تو ان کے پاس کافی اختیارات ہیں۔ ہمارے ہاں توہین عدالت کے قانون کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے تاکہ عوام عدالت پر کسی قسم کی تنقید کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچیں۔ عدلیہ کے ریکارڈ کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہادتوں کی کمی کی وجہ سے کیسز التوا کا شکار ہیں۔ یہ ہمارے قانونی نظام میں ایک کمزور لنک ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ گواہی دینے سے ڈرتے ہیں، حتّی کہ ان کیسز میں بھی جہاں دہشت گردی کا خوف نہیں ہوتا۔ اس کے نتیجے میں کیس لامحدود تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ رجسٹرار ایک ہی جج کو درجنوں کیسز کی ایک ہی تاریخ دے دیتے ہیں۔ چونکہ یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں اس لیے گواہ اور وکیل انتظار کرتے رہ جاتے ہیں۔ یہ انتظار کئی سالوں پر محیط ہو سکتا ہے۔ اس دوران ان کیسز سے متعلق لوںگوں کو متعدد مرتبہ عدالت میں بلایا جاتا ہے لیکن ان کابیان ریکارڈ نہیں ہو پاتا۔ اس طرح عدالتی عمل ان افراد کی روز مرہ کی زندگی میں بے پناہ پریشانی لے کر آتا ہے۔ وکلا بھی کسی جواز کے بغیر اگلی تاریخیں حاصل کرلیتے ہیں۔ اس سے سائلین کی رقم خرچ ہوتی ہے اور پریشانی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ خیال تھا کہ اس''روایتی عدالتی نظام‘‘ پر اعتماد اسی صورت میں ہوسکتا تھا جب اس کی یہ خامیاں دور ہوجاتیں اور ہم عدالت میں کیسز کو تیزی سے نمٹتا اور سائلین کو فوری انصاف ملتا دیکھتے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ گواہ پیش ہونے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ وہ جاتنے ہیں کہ ایک بار جب ان کا نام روسٹر (طلب کیے گئے افراد کی فہرست) میں آگیا تو پھر ان کے لاتعداد ایام عدالت میں ضائع ہوجائیںگے ۔ باوجود اس کے کہ 2001ء میں ایشین ڈویلپمنٹ بنک نے 350 ملین ڈالر کا قرضہ منظور کیا تھا تاکہ ''انصاف تک رسائی کے منصوبے‘‘ کے ذریعے ملک سے غربت دور کرنے کے لیے درکار قانون کی حکمرانی قائم ہو۔ 2009 ء میںاپنی رپورٹ میں مذکورہ بینک نے اس منصوبے کے نتائج کو ''اطمینان بخش ‘‘ قرار دیا۔ اس کی بظاہر وجہ یہ تھی کہ ایک عشرے کے دوران سپریم کورٹ کے پاس زیر ِالتو کیسز کی تعداد 80,000 سے کم ہوکر 20,000 رہ گئی۔ کیسز کی تعداد میں کمی ہونا یقیناً ایک کامیابی ہے، لیکن پھر بھی 20,000 کیسز کا معرض التوا میں رہنا کسی طور قابل ستائش نہیں۔
اس منصوبے کا ایک حصہ جج حضرات اور رجسٹراروں کے غیر ملکی دوروں کے لیے مختص تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اُنہوں نے اس موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہوگا۔ تاہم اس بات کا ثبوت ملنا باقی ہے کہ کیا اُنہوں نے ان دوروں کے دوران یہ نہیں سیکھا کہ کس طرح کیسز کو ایک ٹائم فریم کے مطابق نمٹایا جاتا ہے؟ عام طور پر وکلا اور ان کے کلائنٹس (موکلین) کو سماعت کی تاریخ کے بارے میں پہلے سے ہی باخبر کیا جاتا ہے اور اس دن کسی طور پر بھی تاخیر برداشت نہیں کی جاتی۔ اس وقت پاکستان میں حال یہ ہے کہ ملزمان کے کیسز کئی برسوں تک التوا کا شکار رہتے ہیں۔ اگر کوئی ملزم غریب ہو تو چاہے اُس پر جرم ثابت نہ بھی ہو، اسے کئی برسوںتک جیل میں رہنا پڑتا ہے۔ سول مقدمات میںتو کئی نسلیں بیت جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ کچھ عرصہ پہلے سوات کے شہریوں نے طالبان کی عدالتوں کا اسی لیے خیر مقدم کیا تھا کہ وہاں فوری انصاف ملتا تھا۔ شاید میں صرف عدلیہ کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے غیر منصفانہ رویے کا مظاہرہ کررہا ہوں کیونکہ ہمارے ہاں کون سا محکمہ درست کام کر رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب جج حضرات سماجی تقریبات کے دعوت نامے وصول کرنے سے انکار کردیتے تھے تاکہ ان کا کسی کی طرف جھکائو ظاہر نہ ہو۔ اب تو اُنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سیاسی جماعتوں کی حمایت چاہیے تاکہ وہ بلٹ پروف گاڑیوںمیں سفر کرسکیں۔ چنانچہ چیف صاحب سے گزارش ہے کہ عقید ے کی اصلاح کے ساتھ عدلیہ کی اصلاح کا بھی بہت سا کام باقی ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔