لگتا ہے کہ کراچی کے اچھے دن آرہے ہیں ،جنابِ سید مصطفی کمال کا ایک کمال تو جناب ڈاکٹر فاروق عبدالستار کے خطاب سے معلوم ہوگیاکہ کراچی کے دن پھر گئے ہیں ،مقدر جاگ اٹھا ہے اور سڑکوں ،گلیوں ،سیورج لائن ،واٹر لائن حتیٰ کہ درودیوار تک ہرچیز کی صفائی ہوجائے گی اور کچرے کو اس کے ٹھکانے یا ان کے بقول آخری منزل تک پہنچادیا جائے گا اور یہ مہم سرِ دست غیر معیّنہ مدت تک جاری رہے گی۔جنابِ ڈاکٹر فاروق عبدالستار اچھا شعری اور ادبی ذوق بھی رکھتے ہیں اور اشعار کا برمحل استعمال بھی جانتے ہیں ، لیکن انہوں نے خود دعویٰ کیا کہ وہ ذومعنی الفاظ استعمال کر رہے ہیں ،گویاانہوں نے غالب کے الفاظ میں یہ نہیں کہا :
روئے سخن کسی کی طرف ہو، تو روسیاہ
سودا نہیں، جنوں نہیں،وحشت نہیں مجھے
صادق ہوں اپنے قول میں، غالب! خدا گواہ
کہتا ہوں سچ، کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
بلکہ یہ کہا کہ جن کے لیے کہہ رہا ہوں ،وہ سمجھ جائیں گے ۔اُن سے گزارش ہے کہ ذرا نازک وقت ہے ،اس طرح کے ذو معنی الفاظ استعمال نہ کریں کہ : ''کچرے کے ساتھ خرافات بھی صاف کریں گے ،اپنے ٹھکانے تک پہنچائیں گے ،اپنی آخری منزل تک پہنچائیں گے ،وغیرہ‘‘۔کیونکہ دوسری طرف بھی اہلِ زبان ہیں اور وہ بھی اردو کے محاورات ،تلمیحات اور اشارات وکنایات کو سمجھتے ہیں اور اِن الفاظ کے معانی کوسمجھنے کے لیے اردو میں پی ایچ ۔ڈی ہونابھی ضروری نہیں ہے ، اہلِ زبان ماں کی گود میں ہی سیکھ لیتے ہیں ۔
پس معلوم ہوا کہ اگر یہ حضرات اِس اُفتاد سے پہلے توجہ فرمالیتے توکراچی کی صفائی ہوسکتی تھی ،کیونکہ متعلقہ شہری اداروں میں انہی کے عقیدت مند اور نظم کے پابند کارکنان رونق افروز ہیں ۔جناب سید مصطفی کمال کا سنِ پیدائش 1971ء اور ڈاکٹر صغیر احمد کا 1972ء ہے اور ہم دسمبر 1964ء سے کراچی میں ہیں ۔لہٰذا کراچوی (Karachiiot) ہونے میں ان سے سینئر ہیں ۔مزید اعزاز یہ ہے کہ 1965ء سے ہم نائن زیرو سے کم وبیش ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر مقیم ہیں اور نائن زیرو کے بزرگوں سے براہِ راست یا فاصلاتی ملاقات اور تعارف کا شرف حاصل رہاہے اور باہمی احترام کا رشتہ بھی قائم ہے۔
جنابِ سید مصطفی کمال اور ڈاکٹر صغیر احمد نے فنِ خطابت کا اچھا مظاہرہ کیا ہے ،اُن کی پیش کش کاانداز عمدہ ہے اور ''ذاکری‘‘کا تڑکا لگا نا بھی جانتے ہیں ۔جنابِ الطاف حسین نے تو اپنے لیے ایک الگ شعارِ خطابت ایجاد کیا ہے،کیونکہ خطابت اُن کی ضرورت بلکہ مجبوری اور روحانی غذا ہے،استاذابراہیم ذوق نے کہا تھا ؎
اے ذوق! دخترِ رَز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے‘ یہ کافر لگی ہوئی
لہٰذا اُن کے طویل خطابات تو اُن کے تنظیمی عقیدت مند اور نظم کے پابند جان نثار یا ''آزاد میڈیا‘‘کے وہ دانائے روزگار دانشور ہی سن سکتے ہیں جنہوں نے بعد میں اُس پر تبصرہ کرنا ہوتا ہے یا اُس کی تشریحات و تعبیرات بیان کرنی ہوتی ہیں یا اُس پر حسبِ توفیق تنقید کرنا ہوتی ہے ۔بہر حال اس سعادت کا حصول اپنے بس کی بات نہیں ہے ،بس ٹیلی ویژن چینلز کے ٹِکر یا اخبارات کی سرخیوں سے اُن کے فرموداتِ عالیہ کے بارے میں آگہی حاصل کرلیتے ہیں ۔
سکرین پر رونق افروز ہونا کسے پسند نہیں،لیکن جنابِ سید مصطفی کمال اور اُن کے پیروکاروںکو مشورہ ہے کہ خطابت نپی تُلیاور مناسب وقت تک ہونی چاہیے تاکہ طلب باقی رہے اورسامعین کی طبیعت اُکتا نہ جائے ۔بار بار ایک ہی جیسی باتوں کی جگالی طبیعت پر گراں گزرتی ہے اور جبر کے تحت ہی سنی جاسکتی ہے ۔ایم کیو ایم میں قادر الکلام لوگ کافی ہیں ،مگر ہمیں چند ہی لوگوں کا انداز پسند آتا ہے، جو سلجھے ہوئے انداز میں اور ٹھہرا ئو کے ساتھ بات کرتے ہیں ،جیسے فیصل سبزواری اور رضا ہارون وغیرہ۔ جناب حیدر عباس رضوی چیختے اور چلاتے ہیں ، وہ یونیورسٹی کے مباحثے اور پریس کانفرنس کا فرق ملحوظ نہیں رکھ پاتے ، الفاظ کا بے تحاشا اور بے محل استعمال کرتے ہیں۔ ہم دنیا کے مُدبِّرین کو جب سنتے ہیں تو لگتا ہے کہ وہ ایک ایک لفظ ناپ تول کر اور سوچ سمجھ کر بول رہے ہیں ،الفاظ کے استعمال میں نہایت کفایت شعارہوتے ہیں ، فضول خرچی نہیں کرتے ،کیونکہ انہیں الفاظ کے معانی اور اُن کے معنوی اثرات اور پھیلائو کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہ شِعار نہیں ہے ۔
ایم کیو ایم کی قیادت نے اپنے مخالفین کو صفر اور صفروں کا مجموعہ اور ناقابلِ التفات قرار دیا ہے ۔یہ اُن کا حق ہے ،مگر شاطر کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں ،کبھی وہ شطرنج کی بساط پر شاہ سے پیادوں کو مات دیتا ہے ، جسے شاہ مات کہتے ہیں اور کبھی شاہ کو پیادوں سے گھیر کر شکست دے دیتا ہے ۔علامہ اقبال کے اس شعر سے ہمیں بار بار استفادہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ پیادے کی زبانِ حال سے شاہ کو اِن الفاظ میں مخاطَب کرتے ہیں ؎
شاطر کی عنایت ہے‘ تو فَرزیں‘ میں پیادہ
فَرزیں سے بھی پوشیدہ ہے‘ شاطر کا ارادہ
صِفرکی قیمت اُس کی وضع یاPositioningسے متعیّن ہوتی ہے ۔اگر وہ عدد کے بائیں جانب ہے تو جتنے بھی صفرلگالیں اُن کی کوئی قدر نہیں ہے۔لیکن اگر صفر عدد کے دائیں جانب لگتا چلا جائے تو بتدریج اُس کی قیمت بڑھتی چلی جاتی ہے ۔اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہاں صورتِ حال کیا ہے، اگر شطرنج کی بساط کسی ماہر نے بچھائی ہے تو اس کے ذہن میں اس کا نقشہ اور انجام کیا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ:''تدبیر کُند بندہ،تقدیر زِندخندہ ‘‘یا ''ہزاروں لغزشیں حائل ہیں ،لب تک جام آنے میں ‘‘،اسی کو انگریزی میں "There are many slips between the cup and the lips"سے تعبیر کرتے ہیں اورغالب نے کہا ہے ؎
دامِ ہر موج میں ہے‘ حلقۂ صد کام نِہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے‘ قطرے یہ گُہر ہونے تک
سید مصطفی کمال کے کچھ سوالات وہ ہیں ،جن کا ڈاکٹر فاروق عبدالستار کے پاس قابلِ قبول جواب نہیں ہے ۔1992ء کے بعد ایم کیو ایم کے دورِ ابتلا میں ڈاکٹر فاروق عبدالستار سے اُن کی خواہش پرہماری ایک ملاقات ہوئی تھی۔میں نے اُس موقع پراُن سے عرض کی کہ ہم کراچی میں رہتے ہیں ،کراچی نے ہمیں شناخت عطا کی ہے ،ہم اہلِ کراچی کے ممنون اور شکر گزار ہیں۔لہٰذا اگر کراچی کے مفاد میں کوئی بات ہو تو ہم برملا اس کی حمایت کے لیے تیار ہیں اور اس میں ہمیں کوئی تردُّد نہیں ہوگا ۔کراچی کی فلاح اور کراچی کا مفاد پورے پاکستان کا مفاد ہے ۔لیکن آپ کی تحریک کے بعد کراچی کو سب سے زیادہ نقصان تعلیم کے شعبے میں پہنچا۔ نقصان کسی بھی شعبے میں ہو ، بہرحال نقصان ہے ،لیکن کسی بھی قوم کا سب سے بڑا نقصان انسانی استعداد کا ہے ،جسے آج کل ہیومن ریسورس کہتے ہیںاور انسانی صلاحیت واستعداد اور جوہر کا نکھار تعلیم وتربیت ہی سے ہوتا ہے ،پس کراچی کا افتخار میرٹ تھا۔کراچی کے ہمیشہ دو ہی مطالبات تھے : میرٹ اورکوٹہ سسٹم کا خاتمہ یعنی آزادانہ مسابقت کی فضا قائم کرنا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اہلِ کراچی کی نظروں سے اس وقت گرے جب جنابِ ممتاز علی بھٹو نے صوبۂ سندھ میں ملازمتوں اور پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے دیہی اورشہری کی بنیاد پربالترتیب ساٹھ فیصد اور چالیس فیصد کوٹے کی پالیسی بنائی ۔
کوٹہ سسٹم کا فلسفہ یہ ہے کہ پسماندہ علاقوں میں طلبہ کو معیاری تعلیم کے وہ مواقع میسر نہیں ہوتے جو شہروں میں ہوتے ہیں ، لہٰذا انہیں شہری معیار تک پہنچنے کی عبوری مدت میں میرٹ میں رعایت دی جائے ۔ اس فلسفے کا تقاضا یہ تھا کہ جو بچے سندھ کے پسماندہ علاقوں کے اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم پاتے ہیں ،اُن کو رعایت دی جائے ۔ لیکن ہوا یہ کہ اندرونِ سندھ کے وڈیروں اور اہلِ ثروت کے بچے تعلیم تو کراچی کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پاتے ہیں اور دیہی علاقے کا ڈومیسائل بناکرپیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں داخلے اور ملازمتوں کے حصول میں پسماندہ دیہی نوجوانوں کے استحقاق پر قبضہ کرلیتے ہیں اور یہ استحصال کی جدید شکل ہے ۔
الغرض ایم کیو ایم اپنے بنیادی مطالبات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکی ۔اس کے برعکس اداروں میں اپنی ذیلی تنظیموں کو غلبہ دے کرداخلوں اور ملازمتوں میں میرٹ کا خاتمہ کردیا ۔ یہ رپورٹس بھی اخبارات میں آتی رہیں کہ سیکنڈری اور انٹر میڈیٹ بورڈز میں خاص لوگوں کے لیے خاص انتظامات کے تحت امتحانات منعقد ہوتے ہیں ، واللہ اعلم بالصواب۔جب ہم معیارِ تعلیم کی بات کرتے ہیں تو اس سے پبلک سیکٹر یعنی سرکاری تعلیمی ادارے مراد ہوتے ہیں ،جن میں غریب لوگوں کے بچے تعلیم پاتے ہیں۔ چونکہ ہمارے ملک میں اعلیٰ معیاری پیشہ ورانہ اور فنّی تعلیم سب سے منفعت بخش صنعت اور کاروبار بن چکی ہے ،تعلیم قابلِ فروخت جنس بن چکی ہے ‘اس لیے وہ جوہرِ قابل جو ملک کے گلی کوچوں ،میدانوں ، صحرائوں اور کہساروں میں رُل رہا ہے ، اعلیٰ معیاری تعلیم اُس کی پہنچ سے بہت دور ہے ، بلکہ ناقابلِ تصور ہے ۔وہ صرف ورکشاپس پر چھوٹے ،کاکے یابھَٹے اور بھٹی کے مزدور یا زیادہ سے زیادہ قاصد یا کلرک بن کر ہی رہ سکتے ہیں ۔
مصطفی کمال کا دوسرا اعتراض بندے کا خدا بن جانا ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرک ناقابلِ معافی جرم ہے۔ تاریخ انسانیت بتاتی ہے کہ جو بندے خدا بن بیٹھے ،خدا وندِ لَمْ یَزَلْ نے اُنہیں درسِ عبرت بناکے چھوڑا۔ان کا تیسرا اعتراض کراچی کی اصطلاح میں ٹُن ہونا ہے ۔باقی جو چارج شیٹ یا فردِ جرم انہوں نے عائد کی ہے ،وہ قائدِ تحریک کے اپنے خطابات ہیں ۔ جب انسان طاقت کی معراج پر ہوتا ہے تو اُسے اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ،لیکن جب قدرت کا قانونِ مکافاتِ عمل حرکت میں آتا ہے ،تو یہی فرمودات قانون کی زبان میں اعترافِ جرم قرار پاتے ہیں ۔سو ڈاکٹر فاروق عبدالستار نے عقل مندی کی کہ اصل اعتراضات کو اپنے خطاب کا موضوع ہی نہیں بنایا ، کیونکہ وہ ذہین آدمی ہیں اور انہیں سب حقائق معلوم ہیں۔ اسی لیے کہاجاتا ہے کہ تجربے کا کوئی بدل نہیں اور ڈاکٹر فاروق عبدالستار کا سیاست میں طویل تجربہ ہے ۔آپ نے تیلی اور جاٹ کا مکالمہ سنا ہوگا، تیلی نے کہا:''جاٹ رے جاٹ ،تیرے سرپہ کھاٹ‘‘، جواباً جاٹ نے کہا:''تیلی رے تیلی ،تیرے سر پہ کولہو‘‘۔جاٹ سے پوچھا گیاکہ وزن تو بنا نہیں ،اُس نے کہا:''وزن بنے یا نہ بنے ،سر تو پھوٹ جائے گا‘‘۔سو سر پھوٹنے سے غرض ہونی چاہیے، وزن سے کیا لینا دینا۔