تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     12-03-2016

ان کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں!

امریکہ کے کینیڈی خاندان، روس ( اب یوکرائن) کے چرنوبل ایٹمی پلانٹ اور جاپان کی آٹو انڈسٹری مٹسوبشی کی پس پردہ کہانی پڑھتے ہوئے سوچیے کہ ان کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں اور دنیا بھر میں یہ جو بھی چاہیں کر سکتے ہیں۔ اپریل 1986ء میں چرنوبل کے ایٹمی پلانٹ میں ہونے والے پر اسرار دھماکے نے دنیا بھر کو لرزا کے رکھ دیا۔ اس کے نتیجے میں انسان تو ایک طرف دور دور تک کے چرند پرند اور نباتات بھی آج تک اس کے ماحولیاتی اثرات میں جکڑ ے ہوئے ہیں۔ روس، یوکرائن اور بیلارس میںکھانے پینے کی اشیاء میں اس کے اثرات موجود ہیں۔ چرنوبل حادثے کو گزرے تیس سال ہونے کو ہیں لیکن آج بھی روس کے عوام اپنے گھروںاور دفتروں کے لئے جو لکڑی استعمال کرتے ہیں اس میں ایٹمی ذرات شامل ہوتے ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین کے عالمی گروپ نے جو ٹیسٹ کئے ان کے مطابق روس اور یوکرائن کی سخت سردی میں گھروں، دفتروں اور دوسرے مقامات پر جو لکڑی جلائی جاتی ہے اس میں بھی تابکاری اثرات موجود ہوتے ہیں، جن سے انسانی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ ''گرین پیس‘‘ کی حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق تیس سال قبل چرنوبل کے ایٹمی پلانٹ سے پھیلنے والا Radiation level کم ہونے میں نہیں آ رہا۔
کیف (Kiev) شہر کے وسط میں خوبصورت گھوڑے پر سوار یوکرائن کی تاریخ کی سب سے طاقتور شخصیت kheimenitsky کا
بہت بڑا مجسمہ نصب ہے جو ایک ہاتھ میں تلوار تھامے ہوئے ہے اور اس کا دوسرا ہاتھ آسمان کی بلندیوں کی جانب اٹھا ہوا ہے۔ وہ یوکرائن کا فخر سمجھا جاتا ہے اور اس کا یہ خوبصورت مجسمہ دیکھنے کے لئے سیاح کھچے چلے آتے ہیں۔ kheimenitsky یہودیوں کا سخت دشمن تھا۔ اس نے یہودیوںکی عبادت گاہوں کو جلا کر بھسم کر دیا تھا۔ اس نے روس میں بسنے والے یہودیوں کے گائوں کے گائوں جلا دیئے تھے، یہودی عورتوں اور بچوں کا بھی کوئی لحاظ نہ کیا۔ جس شہر میں اس نے یہودیوں کی اینٹ سے اینٹ بجاتے ہوئے ہزاروں افراد کو نذر آتش کیا وہ چرنوبل تھا۔ یہاں صومعہ ( یہودیوں کا معبد) تھا۔ عین اسی عبادت گاہ کی جگہ پر بعد میں ایٹمی پلانٹ (چرنوبل) تعمیر کیا گیا۔
ایک حقیقت جسے امریکہ سمیت دنیا اچھی طرح جانتی ہے، اس کا تعلق امریکہ کے کینیڈی خاندان اور ان کے المناک انجام سے ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں جب یہودیوں کی قسمت بھنور میں آئی اور وہ اپنے بچائو کے لئے ہر حربہ اختیار کرنے لگے تو یورپ کے چند سو متمول یہودیوں نے ایک چھوٹا بحری جہاز خرید کر اس کے ذریعے اپنے خاندان کے افراد کوامریکہ لے جانے کا ارادہ کیا۔ اس کے لئے انہیں ویزے کی ضرورت تھی۔ انہوں نے لندن میں امریکی سفیر سے رابطہ کیا لیکن اس نے قطعی انکارکر دیا۔ یہودیوں کے سامنے چونکہ اپنی اور خاندان کی زندگیاں بچانے کا سوال تھا، اس لئے وہ بغیر ویزے کے ہی جہاز میں سوار ہو کر امریکہ روانہ ہو گئے۔ بندرگاہ پر حکام نے انہیں
امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔ اب ان کے لئے دو ہی راستے تھے۔۔۔۔ سمندر میں گھومتے رہیں یا واپس یورپ کا رخ کریں۔ سو وہ یورپ واپس روانہ ہو گئے جہاں ان سب کو نازی کیمپوں میں جلا کر بھسم کر دیا گیا۔ اس واقعے کی خبر باہر آئی تو یہودیوں کا رِبّی لندن میں امریکی سفیر کے پاس گیا اور اس سے کہا: ''تمہارا عمل ثابت کرتا ہے کہ تم اس منصب کے لائق نہیں، بلکہ تم تو انسان کہلانے کے بھی قابل نہیں ہو۔ چونکہ تمہارے ویزہ نہ دینے کی وجہ سے سیکڑوں مجبور یہودی خاندانوں کوگیس چیمبر کی نذر کر دیا گیا ہے، اس لئے آج سے تم اور تمہارے خاندان کی آنے والی نسلیں تباہی و بربادی کے لئے تیار رہیں۔ اس امریکی سفیر کا نام تھا ''جوزف کینیڈی‘‘جو امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا باپ تھا۔ اسے اس طرح قتل کیا گیا کہ چند گھنٹوں بعد اس کے قاتل کو پولیس کی حراست میں ہی قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد کینیڈی اور اس کے بھائیوں کے ساتھ جو ہوا سب کے سامنے ہے۔
اب تیسری کہانی کی جانب چلتے ہیں جس کا تعلق دوسری جنگ عظیم میں لتھوینیا میں تعینات جاپان کے سفیر سے ہے۔ وہ نازیوں کے جرائم کو سخت ناپسند کرتا تھا اور یورپ میں رہنے والے یہودیوں کی ممکن مدد کرتے ہوئے انہیں جاپان کے ویزے آسانی سے جاری کر دیتا تھا۔ جاپان سے امریکہ منتقل کر کے اس نے ہزاروں یہودیوں کی زندگیاں بچائیں۔ جب جرمنوں کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس سفیر کو فوری طور پر یہاں سے نکالا جائے۔ جاپان چونکہ اس جنگ میں جرمن نازیوں کا حلیف تھا اس لئے اس نے اس سفیر کی تقرری منسوخ کر تے ہوئے اسے واپس آنے کا حکم دے دیا۔ اس کی واپسی میں دو ہفتے باقی تھے۔اس نے اس دوران ہنگامی بنیادوں پر یہودیوں کو جاپان کے ویزے جاری کر نے شروع کر دیئے۔ اس کام کے لئے اس نے ملازمین کی اچھی خاصی تعداد بھی عارضی طور پر بھرتی کر لی تاکہ زیا دہ سے زیا دہ ویزے جاری کیے جا سکیں۔ یہ بہت ہی خطرناک عمل تھا؛ تاہم اس نے کئی ہزار یہودی خاندانوں کی زندگیاں محفوظ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جاپان واپسی سے ایک دن قبل ولنا کی یہودی عبادت گاہ سے ایک وفد اسے ملنے آیا جس نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ''آپ نے یہودیوں کی فلاح و بہبود کے لئے جو کچھ کیا، اسے ہماری قوم کبھی نہیں بھلائے گی۔ آپ اور آپ کی آنے والی نسلوں کے لئے ہم جو کچھ کریں گے وہ آپ ہی نہیں ساری دنیا دیکھے گی۔ ہزاروں یہودیوں کی زندگیاں بچانے والے جاپانی سفیر کا نام Mitsubishi ( مٹسوبشی) تھا۔ آج یہ نام جاپان کی آٹو انڈسٹری اور دوسری بڑی صنعتی مصنوعات کی تیاری کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے۔
آپ نے چرنوبل کا انجام دیکھا، یہودیوں کو ویزہ جاری نہ کرنے والی امریکی سفیر جوزف کینیڈی اور اس کے خاندان کے پراسرار قتل دیکھے اور پھر لتھوینیا میں تعینات جاپانی سفیر مٹسوبشی کو یہودیوں کو بچانے پر دیا جانے والا انعام بھی دیکھ لیا۔ 19جنوری2010 ء کو حماس کے لیڈر محمد المبوح کو قتل کرنے کے لئے موساد کے 33 ایجنٹ یورپ کے مختلف ممالک سے جعلی پاسپورٹو پر دبئی پہنچ کر مختلف ہوٹلوں میں ٹھہرے۔ ان میں سے۔ تین نے محمود کو اس کے ہوٹل کے کمرے میں منہ پر تکیے رکھ کر قتل کیا اور چپکے سے فرار ہو گئے۔ ان کی تصویریں آج بھی انٹر پول کے پاس ہیں لیکن کوئی کچھ نہ کر سکا سوائے اس کے کہ برطانیہ، آئر لینڈ اور آسٹریلیا کی حکومتوں نے 'سیریس آرگنائزڈ کرائم ایجنسی‘ کی رپورٹ پر اپنے اپنے ملکوں میں تعینات اسرائیلی سفارتکار وںکو نکل جانے کا حکم دے دیا۔ سوچیے، امریکیوں سے انتقام لینے کے لئے نائن الیون کی منصوبہ بندی کرنا یہودیوں کے لئے مشکل تھی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved