بیدی اور جوش صاحب ایک کونے میں کھڑے اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے۔ نہرو فائل میں کھوئے ہوئے تھے۔ اتنی دیر میں وجے لکشمی، اندرا اور وزیر اعظم کے گھر کا عملہ وہاں پہنچ گیا۔ ان سب کو دیکھ کر نہرو نے جوش صاحب سے کہا: آپ بھی بیٹھ جائیں اور اطمینان سے وہی رباعیات سنائیں جو کل شام نشہ بندی پر سنائی تھیں۔ جوش صاحب لاکھ کہتے رہے کہ صاحب مجھ سے غلطی ہو گئی... رات نشہ میں نہ معلوم کیا کہہ گیا... آپ اسے بھول جائیے‘ لیکن پنڈت جی بولے: جوش صاحب! میں بھی آپ کا ہم خیال ہوں‘ لیکن حکومت کی پالیسی نشہ بندی کے حق میں ہے‘ اس لیے اعلانیہ کچھ نہیں کہہ سکتا‘ ورنہ میں بھی وہی محسوس کرتا ہوں‘ جو آپ نے کہا ہے۔ اس پر جوش صاحب نے وہی رباعیات سنائیں۔ وزیر اعظم نہرو خوب ہنسے اور جوش صاحب کو داد دی۔
بیدی کی جان میں جان آئی۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نے بڑا پن دکھایا تھا۔
بیدی لکھتے ہیں کہ جوش صاحب بنیادی طور پر ایک باغی انسان تھے۔ وہ کسی بھی نظام سے زیادہ دیر تک مطمئن نہیں رہ سکتے تھے۔ حیدر آباد میں نظام دکن کی ملازمت میں ہوتے ہوئے اس کے خلاف ایک سخت نظم لکھ دی‘ جس پر انہیں چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر حیدر آباد چھوڑنے کا حکم ملا۔ انہی جوش صاحب نے انگریز حکومت کے خلاف انقلابی نظمیں لکھیں اور جو جوش ہمیشہ ہندوستان کی آزادی کے خواب دیکھا کرتا تھا‘ اسی نے ہندوستان کی آزادی کے چند برس بعد ہی ماتم آزادی کے نام سے ایک نہایت سخت نظم کہہ ڈالی‘ جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہم نے کیا خواب دیکھے‘ لیکن اس کی تعبیر کیا نکلی۔ جوش جب بھی نظم لکھتے تو وہ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کو ضرور سناتے تاکہ وہ حکومت کے نقطہ نظر سے دیکھ لیں۔ جب انہوں نے بیدی کو وہ نظم سنائی تو بیدی نے انہیں کہا: بہت سخت ہے مگر اچھی اور حقیقت پر مبنی ہے‘ اس لیے بہتر ہو گا کہ مجمع میں سنانے سے پہلے وزیر اعظم نہرو کو سنا دیجیے تاکہ ان کے علم میں آ جائے۔ جوش صاحب نے بیدی کو ساتھ لیا‘ وزیر اعظم نہرو سے ملنے پہنچ گئے اور نظم سنائی۔ نہرو دیر تک چپ وہ نظم سنتے رہے۔ نظم ختم ہوئی تو بولے: جوش صاحب نظم تو بہت اعلیٰ ہے۔ آپ نے جو کچھ کہا سچ کہا‘ لیکن میں ایک دوست کی حیثیت سے مشورہ دیتا ہوں کہ آپ یہ نظم عوام میں نہ سنائیں‘ کیونکہ اگر آپ نے ایسا کیا تو وزیر داخلہ سردار پٹیل کی زد میں آئیں گے۔ وہاں میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکوں گا۔
مولانا آزاد سے بھی جوش کے اچھے مراسم تھے۔ جوش ان سے اکثر ملنے جاتے تھے۔ بیدی بھی ساتھ ہوتے۔ مولانا نے ایک دفعہ کہا: آپ آتے رہا کریں‘ ادب پر گفتگو رہتی ہے۔ ایک دفعہ گئے تو مولانا سیاسی لیڈروں میں گھرے بیٹھے تھے۔ پندرہ بیس منٹ انتظار کیا لیکن مولانا فارغ نہ ہو سکے۔ جوش نے پرزے پر یہ شعر لکھا کر اجمل خان کے حوالے کر دیا اور اٹھ کر چل پڑے:
نامناسب ہے خون کھولانا
پھر کسی اور وقت مولانا
بیدی اور جوش ابھی اپنی موٹر گاڑی تک بھی نہیں پہنچے تھے کہ اجمل خان بھاگتے ہوئے آئے اور کہنے لگے دو منٹ رک جائیں۔ مولانا ابھی آپ سے ملتے ہیں۔ واپس گئے تو مولانا تشریف لائے اور اندر لے گئے اور معذرت چاہی۔
بیدی لکھتے ہیں ان کی جوش سے ملاقات 1942ء میں دہلی میں ہوئی۔ جوش ملیح آبادی نے تھوڑے ہی عرصے میں بہت زیادہ اثر و رسوخ پیدا کر لیا۔ لوگ دور دراز سے اپنی مشکلیں آسان کرانے ان کے پاس آتے تھے۔ دہلی کے چیف کمشنر شنکر پرشاد ان کا کہنا کبھی نہ ٹالتے۔ اگر مرکز میں ضرورت ہوتی تو بھی شنکر مدد کرتے۔ بات زیادہ اوپر ہوتی تو جوش صاحب براہ راست وزیر اعظم نہرو کے پاس پہنچ جاتے۔ وزیر اعظم نہرو پنڈت جوش صاحب کا بہت احترام کرتے تھے بلکہ کسی حد تک ان سے بے تکلف بھی تھے۔ نہرو کے دل میں جوش صاحب کا کتنا احترام تھا اس بارے میں بیدی لکھتے ہیں: ایک مرتبہ وہ پرشوتوم سروپ کے ہاں کھانے پر گئے ہوئے تھے کہ نواب صاحب مالیر کوٹلہ اور ان کے چچا بیدی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے آن پہنچے۔ بولے: آپ سے کام ہے۔ نواب کے چچا تقسیم کے وقت فسادات کے دوران ٹونک سے لکھنو چلے گئے تھے مگر مخالفین نے شکایت کی کہ وہ پاکستان چلے گئے ہیں‘ جس وجہ سے ہندوستان کی حکومت نے ان کی قیمتی جائیداد پر قبضہ کر لیا تھا‘ ہر جگہ سے کورا جواب ملا ہے‘ آپ مدد کریں۔ بیدی نے کہا: ایک ہی بندہ آپ کی مدد کر سکتا ہے‘ وہ جوش ملیح آبادی ہیں۔ ان کو لے کر وزیر اعظم نہرو کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں؛ چنانچہ اگلی صبح بیدی‘ جوش اور نواب صاحب کو لے کر وزیر اعظم نہرو کی کوٹھی چلے گئے۔ نہرو وزیر اعظم ہونے کے باوجود بھی سب لوگوں سے ملتے تھے اور ان سے ملنے میں کسی کو کوئی دشواری نہ ہوتی تھی۔ جب وہ سب کوٹھی پر پہنچے تو وزیر اعظم نہرو بالائی منزل پر سرکاری کاغذات دیکھ رہے تھے۔ سب وہاں بیٹھ گئے۔ وہاں ایک مسلمان لڑکا بھی بیٹھا تھا جو غالباً لکھنو سے آیا تھا‘ اور حافظ محمد ابراہیم وزیر حکومت اتر پردیش کا سفارشی خط لایا تھا۔ جب وزیر اعظم نہرو سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے‘ اور ابھی وہ دو تین زینے اوپر ہی تھے تو وہ لڑکا بیتابی سے آگے بڑھا اور خط نکال کر پنڈت نہرو کو پیش کرنا چاہا۔ نہرو دل کے صاف تھے لیکن قدرے تیز مزاج۔ ان کا پارہ چڑھ گیا اور لڑکے سے پوچھا یہ خط کیوں لائے ہو؟ لڑکے نے جواب دیا: ملازمت چاہتا ہوں۔ وزیر اعظم نہرو بولے: ملازمت میری جیب میں تو نہیں رکھی ہوئی۔ یہ کہہ کر پنڈت جی آگے بڑھ گئے۔ وہاں بیدی اور جوش اور نواب مالیر کھڑے تھے۔ جوش صاحب آگے بڑھے اور نواب اور ان کے چچا کا تعارف کرایا۔ وزیر اعظم نہرو خاموش کھڑے رہے۔ جوش نے کہا: نواب کے چچا نہ کہیں گئے نہ آئے لیکن ان کی تمام جائیداد سرکار نے ضبط کر لی ہے۔ وزیر اعظم بولے: یہ تو محکمہ بحالیات کا کام ہے۔ اس کا وزیر الگ ہے۔ میں کیا کر سکتا ہوں؟ اس پر جوش صاحب بولے: میں ہندوستان کے وزیر اعظم سے یہ سن کر حیران ہوں کہ یہ اس کا محکمہ نہیں ہے۔ حیران تو ہوا ہوں لیکن پریشان بھی کہ کیوں خواہ مخواہ سوال کر کے اپنی بات گنوائی۔ نہرو خاموشی سے آگے بڑھ گئے اور سب سے ملتے ملاتے ڈیوڑھی میں آ گئے جہاں موٹر ان کو لے جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ جب چپڑاسی نے دورازہ کھولا تو وزیر اعظم نہرو نے ایک قدم گاڑی میں رکھا اور گھوم کر دیکھا۔ وہ مسلمان لڑکا سہما ہوا ایک کونے میں کھڑا تھا۔ اسے اشارہ کر کے بلایا اور اپنی گاڑی میں بٹھایا۔ چلنے سے پہلے بیدی سے کہا: بیدی صاحب! جوش صاحب سے کہیے موہن لال سکسینہ وزیر بحالیات کے پاس جائیں۔
نہرو کے جانے کے بعد بیدی نے جوش صاحب کو بتایا کہ چلیں وزیر بحالیات کے پاس چلتے ہیں۔ پنڈت جی کہہ گئے ہیں۔ جوش ملیح آبادی نے انکار کر دیا۔ بولے: اب ہم کہیں نہیں جائیں گے‘ جب وزیر اعظم نہرو نے ہی جواب دے دیا ہے تو پھر اور کوئی کیا کرے گا۔ بیدی بولے: جوش صاحب! آپ کسی کے کام کے لیے آئے ہیں۔ اپنی پٹھانی کو بلائے طاق رکھ کر میرے ساتھ چلیے۔ بیدی انہیں لے کر موہن لال کے پاس گئے۔ دیکھا تو وزیر صاحب ان سب کا باہر نکل کر انتظا رکر رہے تھے۔ جاتے ہی کہنے لگے: جوش صاحب! آپ نے کیا غضب کر دیا۔ وزیر اعظم نہرو کا فون آیا تھا کہ جوش ملیح آبادی آپ کے پاس آ رہے ہیں‘ پٹھان ہیں‘ غصے میں ہیں‘ ان کا کام فوراً کر دیجیے گا۔ وزیر کو درخواست دی گئی اگلے دن تمام جائیداد بحالی کا حکم جاری ہو گیا۔
ایک مرتبہ بیدی اور جوش صاحب وزیر ڈاکٹر کیلاش ناتھ کاٹجو کو ملنے گئے۔ وہ اس وقت پوجا کر رہے تھے۔ وہاں سے سیدھے پنڈت نہرو کے پاس چلے گئے۔ وزیر اعظم نہرو نے پوچھا: آپ لوگ کیسے آئے تو جوش بولے: میں آپ کو بتانے آیا ہوں کہ میں نے آپ کے بارے رائے تبدیل کر لی ہے۔ وزیر اعظم نہرو بہت ہنسے اور بولے: حضرت مجھ سے کیا خطا ہو گئی۔ جوش بولے: آپ کو یہ بتانے آیا ہوں‘ ہم تو آپ کو بہت معقول انسان سمجھتے تھے لیکن آپ نے ایسے وزیر رکھ چھوڑے ہیں جنہیں پوجا کے علاوہ کوئی اور کام نہیں۔ اس بات کا ذکر پنڈت جی نے شاید ڈاکٹر کاٹجو سے کیا ہو گا کہ اگلے دن جوش صاحب کو ڈاکٹر کاٹجو کا فون آیا‘ جس میں انہوں نے جوش صاحب سے نہ مل سکنے کی معذرت کی۔
جوش ملیح آبادی‘ جس کو ہندوستان کا وزیر اعظم اتنا احترام دیتا تھا‘ اس نے ایک دن ہندوستان چھوڑ دیا اور پاکستان آ گئے اور پاکستانی شہریت لے لی۔ پاکستان آنے کے بعد ایک مرتبہ دہلی گئے تو وزیر اعظم نہرو سے بھی ملنے گئے‘ اور التجا کی وہ ان کے ساتھ ان کے دوست کے گھر پر کھانا کھائیں۔ وزیر اعظم نہرو نے کہا: آپ ہندوستان کے مہمان ہیں‘ اس لیے شام کا کھانا میرے ساتھ میرے گھر پر کھائیں۔ پریشان نہ ہوں۔ آپ کے لیے میں خود شراب سمیت تمام لوازمات کا بندوبست کروں گا۔ جوش صاحب اپنی ضد پر قائم رہے کہ نہیں پنڈت جی شام کا کھانا آپ میرے ساتھ کھائیں گے۔ آخر نہرو مان گئے اور درخواست کی کہ زیادہ مہمان نہ بلائے جائیں اور مہمانوں کی فہرست پہلے انہیں دکھائی جائے۔
سرکاری پروٹوکول کے تحت وزیر اعظم اور صدر ہمیشہ کوئی بھی دعوت قبول کرنے سے پہلے سیکریٹ ایجنسی سے پوچھتے ہیں کہ وہ دعوت قبول کریں یا نہیں؛ چنانچہ خفیہ نے وزیر اعظم نہرو کو رپورٹ دی: جس شخص کے گھر جوش صاحب نے وزیر اعظم کو دعوت پر بلایا ہے‘ وہاں انہیں نہیں جانا چاہیے۔ وہ خفیہ رپورٹ وزیر اعظم نہرو کو دکھائی گئی۔ لکھا تھا آپ نہیں جاسکتے۔ وزیر اعظم نہرو سوچ میں ڈوب میں گئے۔ نہرو جوش ملیح آبادی سے مل کر یہ بھی پوچھنا چاہتے تھے کہ انہوں نے ہندوستان کیوں چھوڑ دیا تھا؟ اب خفیہ والوںنے انہیں وہاں جانے سے روک دیا تھا۔ ایک طرف خفیہ اداروںکی رپورٹ اور دوسری طرف پاکستان سے آئے ہوئے ان کے پرانے دوست جوش ملیح آبادی سے کیا ہوا وعدہ... اور نہرو کے اندر ابلتا ہوا سوال کہ جوش ملیح آبادی نے ہندوستان کیوں چھوڑ دیا تھا۔ نہرو کے ذہن میں جوش صاحب کے لیے ایک پُرکشش پیشکش بھی تھی تاکہ وہ ہندوستان سے بھی اپنا تعلق نہ توڑیں‘ چاہے وہ پاکستان میں رہیں۔ نہرو جوش کو مل کر وہ پیشکش خود کرنا چاہتے تھے‘ اور اب یہاں خفیہ رپورٹ میں لکھا تھا کہ وہ جوش ملیح آبادی کی دعوت پر ان کے دوست کے گھر ہرگز نہیں جا سکتے تھے۔
جوش نے بے شک ہندوستان چھوڑ دیا تھا لیکن پھر بھی وہ ہندوستان کے وزیر اعظم نہرو کو ایک اور امتحان میں ڈالنے سے باز نہیں آئے تھے۔ اب وزیر اعظم کیا کرے؟ جوش ملیح آبادی سے دوستی بچائے یا پھر سرکاری پروٹوکول کا احترام کرے۔ وزیر اعظم نہرو گہری سوچ میں غرق... شام کے گہرے ہوتے سایوں میں جوش کی دعوت کا وقت قریب آ رہا تھا۔ (جاری)