تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     13-03-2016

ایک ندامت آمیز کہانی

الطاف حسین کے نئے باغیوں کی زبانی اُن کی بے توقیری و بے وقاری کی کہانیاں سن کر، ایک کہانی ہمیں بھی یاد آئی۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی (پہلی) حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد 12ووٹوں سے ناکام ہو گئی تھی۔ 16 نومبر 1988ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 207 میں سے 94 نشستیں جیتنے والی پیپلز پارٹی نے جن پارٹنرز کے ساتھ کولیشن بنائی ان میں خان عبدالولی خان کی اے این پی اور الطاف حسین کی ایم کیو ایم بھی شامل تھیں (آئی جے آئی کی 54 نشستیں تھیں)۔ حکومت سازی کے لیے محترمہ کو ایوانِ صدر اور ''اسٹیبلشمنٹ‘‘ کو جو یقین دِہانیاں کرانا پڑیں اور افغان پالیسی سمیت خارجہ اور دفاعی امور میں اختیارات سے دستبرداری، ضیا دور کی آٹھویں ترمیم کو برقرار رکھنے اور بابائے اسٹیبلشمنٹ کو صدر منتخب کرانے سمیت جو شرائط قبول کرنا پڑیں‘ وہ ایک الگ کہانی ہے۔ اس میں محترمہ کے امریکی دوستوں کی دلچسپی اور مختلف سطح پر سفارتی سرگرمیوں کا بھی عمل دخل تھا۔ عام انتخابات 16نومبر کو ہو گئے تھے‘ لیکن ایوانِ صدر کی طرف سے وزیر اعظم کی نامزدگی میں کسی بے قراری کا اظہار نہ تھا۔ (تب آئین کے تحت صدرِ مملکت کا صوابدیدی اختیار تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے کسی بھی رُکن کو، جس کے متعلق اِن کا گمان ہو کہ ایوان کی اکثریت کا اعتماد حاصل کر سکتا ہے، وزیر اعظم نامزد کر سکتے تھے جس کے بعد اس کے لیے 60 دن کے اندر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا لازم تھا)۔ 
ایوانِ صدر کا مؤقف تھا کہ وزیر اعطم کی نامزدگی قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے الیکشن کے بعد ہو گی تاکہ اس سے قبل یہ معلوم ہو سکے کہ کس گروپ کو ایوان کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہے۔ اپنی نامزدگی کے لیے ایک طرف محترمہ ایوانِ صدر اور جنرل اسلم بیگ سے ملاقاتیں کر رہی تھیں‘ دوسری طرف اُن کے امریکی دوست سرگرم ہو گئے تھے۔ 22 نومبر کو امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے (جنہیں بعد میں اپوزیشن اسلام آباد میں امریکی وائسرائے کہنے لگی) ایوانِ صدر میں غلام اسحاق خاں سے ملاقات کی۔ وہ سرکاری گاڑی کی بجائے عام کار میں آئے تھے۔ 25 نومبر کو اوکلے نے نیازی ہاؤس اسلام آباد میں محترمہ سے ملاقات کی۔ اِن دنوں یہ ان کی دوسری ملاقات تھی۔ 
25 نومبر کو امریکہ کے دو نائب وزرا پاکستان پہنچے۔ 30 نومبر کو نائب وزیر خارجہ رچرڈ مرفی اور نائب وزیر دفاع آرماکوسٹ نے نیازی ہاؤس میں محترمہ سے ملاقات کی۔ 28 نومبر کو محترمہ نے روسی سفارت خانے جا کر روسی سفیر سے ملاقات کی۔ یہ سعی و کاوش بے ثمر نہ رہی‘ اور ایوان صدر کے گزشتہ مؤقف کے برعکس سپیکر (اور ڈپٹی سپیکر) کے انتخاب سے قبل ہی محترمہ کی نامزدگی کا فیصلہ ہو گیا۔ 
اس کے ساتھ ہی پنجاب کے ساتھ محاذ آرائی کا آغاز ہو گیا تھا۔ گورنر پنجاب مخدوم سجاد حسین قریشی (مخدوم شاہ محمود قریشی کے والدِ گرامی) کے لیے محترمہ کا پیغام تھا کہ وہ ان کی وزارتِ عظمیٰ کی حلف برداری سے قبل نواز شریف سے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا حلف نہ لیں (یہاں آئی جے آئی کے 108 اور پیپلز پارٹی کے 94 ووٹ تھے)۔ محترمہ کا خیال تھا کہ وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھانے کے بعد وہ پنجاب اسمبلی کے آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر اور آئی جے آئی میں نقب لگا کر نواز شریف کا راستہ روکنے میں کامیاب ہو جائیں گی‘ لیکن گورنر اس پر آمادہ نہ ہوئے۔ ایوانِ صدر کی آشیرباد کے ساتھ عین اس وقت جب محترمہ ایوانِ صدر میں وزارتِ عظمیٰ کا حلف لے رہی تھیں، لاہور میں نواز شریف وزارتِ اعلیٰ کا حلف اُٹھا رہے تھے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت پنجاب کے حوالے سے مکمل مایوس نہیں ہوئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ پنجاب کے منتخب ایوان میں نواز شریف کو اکثریت سے محروم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ پنجاب میں اس معرکے کی کمان سردار فاروق لغاری کے سپرد تھی جسے وہ وفاقی حکومت کی سرپرستی اور سرکاری وسائل کے بھرپور استعمال کے باوجود سر نہ کر سکے۔ بطورِ وزیر اعظم محترمہ کی لاہور میں پہلی آمد پر، وزیر اعلیٰ نواز شریف (پروٹوکول کے تقاضوں کے مطابق) اُن کا خیرمقدم کرنے ایئرپورٹ گئے، جہاں انہیں جیالوں کے توہین آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑا‘ جس کے بعد وہ محترمہ کی 20 ماہ کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران کبھی اُن کے خیرمقدم کے لیے نہ گئے۔ آبادی کے لحاظ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں وزیر اعلیٰ نواز شریف کے ساتھ اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں وزیر اعلیٰ اکبر بگٹی کے ساتھ وفاق کی محاذ آرائی شدید تر ہوتی چلی گئی۔ اُدھر راجیو گاندھی کی اسلام آباد آمد پر بے نظیر حکومت کی طرف سے اُن کی پذیرائی کو ضرورت سے زائد قرار دیا جا رہا تھا۔ ''مردِ اوّل‘‘ اور اُن کے دوستوں کی کرپشن کے قصے بھی چار سُو پھیل رہے تھے۔ بالآخر اس ''نااہل، کرپٹ اور سکیورٹی رسک‘‘ حکومت سے نجات کا فیصلہ ہو گیا۔ اگرچہ آئین کے آرٹیکل 58/2B کے تحت
حکومت (اور اسمبلی) کی برطرفی کا صدارتی اختیار موجود تھا لیکن اس کی بجائے عدم اعتماد کا ''سیاسی و پارلیمانی‘‘ راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ (آپریشن مڈنائٹ جیکالز کی کہانی بھی پڑھنے سننے میں آئی) اے این پی اور ایم کیو ایم وفاقی حکومت سے الگ ہوکر متحدہ حزبِ اختلاف کا حصہ بن گئیں‘ اور محترمہ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آ گئی۔ آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کو یہ کہنے میں کوئی عار نہ تھی کہ ایم کیو ایم کے 15 ارکان انہوں نے اپوزیشن کو ڈیلیور کئے تھے۔ تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہو گئی اور بے نظیر حکومت 12 ووٹوں کی اکثریت کے ساتھ سروائیو کر گئی لیکن ''سکیورٹی رسک‘‘ سے نجات کا ''عالمِ بالا‘‘ کا فیصلہ برقرار رہا۔ ہر روز نت نئے کرپشن سکینڈل منظرعام پر آرہے تھے۔ متحدہ حزبِ اختلاف دباؤ بڑھاتی جا رہی تھی۔ کراچی میں 16جنوری 1990ء کو شاہراہ قائدین پر متحدہ حزبِ اختلاف کا جلسۂ عام اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ ایم کیو ایم اس جلسے کی میزبان تھی۔ اسلام آباد اور لاہور سے بھی اخبار نویس اس کی کوریج کے لیے مدعو تھے۔ یہ بلاشبہ تاریخی جلسہ تھا۔ چاروں طرف دور تک انسانوں کا سمندر تھا۔ (الطاف حسین نے 6 ملین کا دعویٰ کیا) میاں صاحب سمیت حزبِ اختلاف کی تمام مرکزی قیادت یہاں موجود تھی۔ نسلی و لسانی تعصبات سے بالاتر، قومی اتحاد و یکجہتی پر مبنی سیاست کے حوالے سے الطاف حسین کی تقریر اتنی زوردار اور ایسی دلپذیر تھی کہ جناب صلاح الدین (شہید) نے آگے بڑھ کر انہیں گلے لگا لیا۔
جناب سعود ساحر اور میں نے کراچی میں چند روز مزید قیام کا فیصلہ کیا جس کے لیے ہماری میزبان ایم کیو ایم نے جدید سہولتوں سے آراستہ ایک ریسٹ ہاؤس میں بندوبست کر دیا تھا۔ یہاں درمیانی عمرکے ایک صاحب ہماری خدمت پر مامور تھے۔ ہم صبح بیدار ہوتے، تو کُنڈی کھلنے کی آواز سنتے ہی وہ دروازے پر آ جاتے(معلوم ہوا وہ رات بھر برآمدے میں کرسی پر موجود ہوتے ہیں)۔ وہ ناشتے کے لیے ہماری پسند کا آرڈر لیتے۔ کپڑوں پر استری کی ضرورت ہوتی، تو یہ خدمت بھی انجام دیتے۔ ہم شہر کے لیے روانہ ہوتے تو وہ پوچھتے، ہم لنچ تک واپس آ جائیں گے تو کیا کھانا پسند فرمائیں گے۔ ہم رات گئے واپس لوٹتے، تو انہیں اپنی خدمت کے لیے مستعد پاتے۔ چار پانچ روز بعد ہم نے واپسی کا قصد کیا۔ اٹیچی کیس گاڑی میں رکھ کر وہ پوچھ رہے تھے کہ ہماری خاطر مدارت میں اس سے کوئی کوتاہی تو نہیں ہوئی؟ میرے پاس بڑے نوٹوں کے سوا سو روپے کا صرف ایک نوٹ تھا، میں نے یہ چپکے سے سعود بھائی کی مٹھی میں دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس میں کچھ اپنے پاس سے حسبِ توفیق ملا کر ٹپ دے دیں جس نے ہماری خدمت میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی تھی۔ سعود نے شکریے کے ساتھ یہ رقم اسے ہدیہ کرنا چاہی تو وہ وصولی سے معذرت کرنے لگا۔ ہمارے اصرار پر اس نے بتایا کہ وہ اس علاقے کا ایم پی اے ہے اور اسے الطاف بھائی نے اس ڈیوٹی پر مامور کیا تھا۔ اس نے سادگی سے یہ بات کہہ دی لیکن ہمیں ندامت نے آ لیا، محاورے کی زبان میں، ہم پر گھڑوں پانی پڑ گیا تھا، کاٹو تو بدن میں لہو نہیں، ہم اس صدمے سے نکلے تو سعود ساحر اپنے مزاج کے مطابق الطاف بھائی کو صلواتیں بھیجنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی ہم اس سے معذرت چاہ رہے تھے کہ ایک معزز رُکن اسمبلی سے یہ خدمت کرواتے رہے اور ادھر وہ بے چارہ اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا، اسے تشویش تھی کہ کوئی سُن نہ رہا ہو، مبادا سعود ساحر کا ''خراجِ تحسین‘‘ الطاف بھائی تک پہنچ جائے اور اس کی سزا اس بچارے کو بھگتنا پڑ جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved