تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     13-03-2016

سُرخیاں‘ متن‘ ٹوٹا اور اے جلیلؔ کی شاعری

بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی قیادت
سنبھال لی ہے: یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی قیادت سنبھال لی ہے‘‘ جبکہ کام سارا زرداری صاحب کی ہدایات کے مطابق ہی ہوگا جس سے بلاول کی قیادت کو کوئی فرق نہیں پڑے گاجبکہ خاکسار‘ رحمن ملک اور دیگر خواتین و حضرات موصوف کی رہنمائی کے لیے حاضر ہوں گے اور بتائیں گے کہ زیادہ سے خدمت کس طرح کی جا سکتی ہے‘ اول تو زرداری صاحب سمیت ہم لوگوں نے ہی ملک و قوم کی اس قدر خدمت کر رکھی ہے کہ ملک و قوم اس سے زیادہ خدمت کی تاب ہی نہیں لا سکتے‘ حتیٰ کہ خدمت کرتے کرتے خاکسار کے تو ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے تھے کیونکہ خدمت دونوں ہاتھوں سے کرنی پڑتی تھی اور وہ بھی دن رات‘ اگرچہ دیگر اہل خانہ بھی اس میں پوری طرح سے ہاتھ بٹاتے تھے‘ تب کہیں جا کر یہ اوسط پوری ہوتی تھی۔ اب اس کا صلہ ہم سب کو مقدمات کی صورت میں دیا جا رہا ہے اور اوپر سے مفاہمت بھی قصۂ ماضی بن چکی ہے۔ نیکی کا کوئی جہان ہے؟ آپ اگلے روز ملتان میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
موجودہ قیادت نے ملکی ترقی کا 
روڈمیپ وضع کردیا ہے: حمزہ شہباز
نوازلیگ کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی حمزہ شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''موجودہ قیادت نے ملکی ترقی کا روڈمیپ وضع کردیا
ہے‘‘ جو موٹروے اور اس پر چلنے والی میٹروبس سروس سے بخوبی واضح ہے جبکہ باقی کسر اورنج ٹرین سے نکالی جا رہی ہے اور سب سے کمال کی بات یہ ہے کہ یہ روڈ میپ 2½ سال کی قلیل مدت ہی میں وضع ہوگیا ہے جبکہ ذاتی ترقی کا روڈمیپ شروع ہی میں وضع کرلیا گیا تھا‘ جس کے مطابق باقی سارے راستے بند کرنا پڑے تھے‘ تاکہ لوگوں کو پتا چل سکے کہ صحیح معنوں میں ترقی کیا ہوتی ہے‘ جبکہ خاکسار کے ذمے ذرا مختلف قسم کی ترقی ہے جو اعلیٰ پولیس اور محکمہ مال کے افسروں کی پوسٹنگ اور تبدیلی سے شروع ہو کر کہیں کی کہیں پہنچ چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ والد صاحب نے چیلنج کر رکھا ہے کہ کوئی دھیلے کی کرپشن بھی ثابت کر دے تو اپنا نام بدل دیں گے‘ جبکہ خاکسار اپنے نام کی تبدیلی ہرگز نہیں چاہتا‘ اسی لیے ایسا چیلنج بھی کبھی نہیں کیا جبکہ والد صاحب کو خود کرپشن کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر ایوب گولو وغیرہ کے ن لیگ میں شامل ہونے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
بلاول بھٹو زرداری عوام کو اکیلا
نہیں چھوڑنا چاہتے: عبدالقادر شاہین
پیپلزپارٹی سینٹرل کونسل کے رکن عبدالقادر شاہین نے کہا ہے کہ ''بلاول بھٹو زرداری عوام کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتے‘‘ کیونکہ سابقہ دور میں زرداری صاحب اور ان کے ساتھی دیگر معززین نے بھی عوام کو ایک منٹ کے لیے تنہا نہیں چھوڑا تھا تاکہ ان کی خدمت میں کوئی کمی نہ رہ جائے‘ بلکہ وزیراعظم گیلانی نے تو بطور ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی انہیں تنہا نہیں چھوڑا اور انہیں جملہ بیماریوں سے نجات دلا کر ہی چھوڑتے تھے اور اب یہ صدری نسخے بلاول کو بھی بتانے اور سمجھانے کو تیار ہیں کیونکہ وہ کوئی لالچی آدمی نہیں ہیں کہ یہ ہنر دوسروں کو بتائے اور لکھائے بغیر ہی دنیا سے کوچ کر جائیں‘ کیونکہ علاج معالجے کی یہ سہولت نسل در نسل آگے چلنی چاہیے تاکہ عوام پوری طرح سے صحت مند رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پسماندگی کی وجہ سے بلاول بھٹو زرداری عوامی رابطہ مہم جنوبی پنجاب سے شروع کر رہے ہیں‘‘ اور یہ پسماندگی موصوف کی اپنی بھی ہے کیونکہ ساری جمع پونجی پارٹی پر قربان کر دی گئی تھی اور اب نوبت فاقہ کشی تک آ گئی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
آج کے انسان کو روٹی نہیں
تعلیم چاہیے: اسلم گورداسپوری
شاعر اور دانشور اسلم گورداسپوری نے کہا ہے کہ ''آج کے انسان کو روٹی نہیں‘ تعلیم چاہیے‘‘ اسی لیے ہماری پارٹی نے عوام سے کیا گیا روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ پورا نہ کیا کہ دراصل تو عوام کو زیور تعلیم سے آراستہ ہونا چاہیے اور اسی لیے سابقہ دور میں جملہ معززین تعلیم کی طرف ہی متوجہ رہے‘ حتیٰ کہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو تو باقاعدہ میڈیکل تعلیم بھی حاصل کرنی پڑی‘ جس میں آگے چل کر انہوں نے بڑا نام کمایا۔ انہوں نے کہا کہ ''آج تک جتنے بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں ان میں ایک بھی شاعر‘ ادیب‘ دانشور‘ فلسفی‘ انجینئر اور استاد نہیں تھا‘‘ جس سے اس طبقے کی نالائقی پوری طرح واضح ہوتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ یہ بالکل ناکارہ لوگ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ وہ طبقہ ہے جو نسلوں کی تربیت اور تہذیب کرتا‘ اس کو علم کی روشنی دیتا اور مشکل حالات کے باوجود ہر ظلم‘ ناانصافی اور استحصال کے خلاف لڑ رہا ہے‘‘ حالانکہ لڑائی کچھ اچھی چیز نہیں ہے اور سب کو صلح صفائی سے رہنا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیراہتمام پاک ٹی ہائوس میں شاعر طاہر شبیر کے شعری مجموعے ''چنگاری سے شعلے تک‘‘ کی تقریب رونمائی میں صدارتی خطبہ دے رہے تھے۔ 
گٹکے کی تباہ کاریاں
ایک اخباری اطلاع کے مطابق لاہور میں گٹکے کی فروخت دھڑلے سے جاری ہے‘ جبکہ دو لاکھ لاہوریے اس سے کینسر اور جگر کے امراض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ دفعہ 44 نافذ ہوئے 3 سال گزر گئے لیکن فوڈ اتھارٹی تاحال رولز پر عمل نہیں کرا سکی‘ جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس کی سرپرستی شروع کردی ہے۔ ریلوے سٹیشن‘ پان منڈی‘ انارکلی اس کے بڑے مراکز ہیں جبکہ بھارت سے اس کی سمگلنگ جاری ہے اور ہزاروں ٹن ماہانہ گٹکا وہاں سے سمگل ہو کر آ رہا ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سے فوری ایکشن کی اپیل تو کی گئی ہے لیکن اس کا کوئی اثر ہونے کی امید نہیں ہے۔ ویسے بھی سمگلنگ کی روک تھام صوبائی نہیں بلکہ وفاق کا معاملہ ہے؛ تاہم امید ہے کہ اورنج لائن وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد وہ اس معاملے پر غور ضرور کریں گے کہ آخر غور کرنے میں ہرج ہی کیا ہے!
اور اب اوکاڑہ سے موصول ہونے والی اے جلیلؔ کی شاعری:
ملی ہے ماں کی دعائوں سے یہ امان مجھے
کہ اب تو دھوپ بھی لگتی ہے سائبان مجھے
ابھی فلک کو میں قدموں تلے بچھا رہا ہوں
پھر اس زمیں کو بنانا ہے آسمان مجھے
میں کربلائوں سے ہر روز ہی گزرتا ہوں
بھلا ڈرائیں گے کیا تیرے امتحان مجھے
ہدف پہ اپنے میں اب خود ہی آگیا ہوں جلیلؔ
اُٹھا کے دینا ذرا تیر اور کمان مجھے
آج کا مقطع
نازاں ہوں اپنے عیبِ سخن پر ہزار بار
لازم ہے آدمی کو ظفر کچھ ہنر تو آئے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved