تمام عمر نارسا خوابوں کا عذاب جھیلنے والے شاعر انقلاب حبیب جالب 13 مارچ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے اور مارچ ہی کی 24 تاریخ ان کا یوم پیدائش بھی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اردو شاعری کی تاریخ میں حبیب جالب ایک ہی ہے۔ جس جرأت‘ بہادری اور ادائے بے نیازی سے حبیب جالب نے بے حس حکمرانوں کو للکارا اور ہمیشہ غریب اور پسے ہوئے عوام کی بات اپنی شاعری میں کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ نابغۂ روزگار کیا کسی درویش سے کم تھا کہ جس نے ہر حکمران کی آفرز کو ایک ادائے بے نیازی سے ٹھکرا دیا اور حکمرانوں سے کسی بھی قسم کے مالی فوائد حاصل کرنے کی بجائے پاکستان اور اس کے غریب عوام کے حق میں آواز بلند کرنے کو ترجیح دی۔ جمہوری حکومتیں ہوں یا مارشل لاء‘ سبھی جالب کے انقلابی قلم کی زد میں رہے۔ ماریں کھائیں‘ جیلیں کاٹیں مگر اپنے نظریات پرسمجھوتہ نہیں کیا۔ حبیب جالب کے خاندان نے ان کے اس انقلابی طرز زندگی کے اثرات کو بھگتا اور یوں مسلسل غربت اور کسمپرسی میں زندگی گزاری۔ حبیب جالب کی وفات کے بعد ان کی بیوہ اور بچوں کی مالی معاونت مختلف حکومتیں کرتی رہیں اور ان کے آپس کے اختلافات بھی منظرعام پر آتے رہے۔ بہرحال یہ حبیب جالب کی پاکستان کی مٹی اور پاکستان کے لوگوں کے ساتھ کمٹمنٹ تھی کہ ہر نظریے کی حکومت نے ان کے شعری قدوقامت کو تسلیم کیا۔ اور ان کی وفات کے بعد انہیں ستارۂ امتیاز سے‘جو پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز ہے‘ نوازا۔
میں نہیں مانتا‘ میں نہیں مانتا۔ حبیب جالب کی وہ شہرہ آفاق نظم ہے جو ایوب کے مارشل لاء کے دور میں لکھی گئی اور مری کے ایک جلسے میں شاعر انقلاب نے اپنے مخصوص ترنم کے ساتھ پڑھی تو گویا جلسے کے سامعین میں ایک آگ بھڑکا دی۔ اسی جلسے سے جالب کو گرفتار کرلیا گیا۔ آئیے جالب کو یاد کرتے ہوئے اُس نظم کو دہرائیں ؎
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو‘ صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر‘ کوئی مانے مگر
میں نہیں جانتا‘ میں نہیں مانتا!
گزشتہ سے آج تک کے حکمرانوں کو اپنے ذہن میں لائیے۔ کیا یہ نظم آج بھی اتنی ہی Relevant نہیں ہے جتنی کبھی ماضی میں تھی۔ ''گولی والے ڈرتے ہیں ایک نہتی لڑکی سے‘‘۔ یہ بھی جالب نے بھٹو کی بیٹی کے لیے کہا مگر جب بینظیر بھٹو کی حکومت میں بے حسی اور کرپشن کی نئی داستانیں رقم ہونے لگیں تواسی جالب نے بھٹو کی بیٹی کی حکومت کو للکارا اور کہا ؎
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بینظیروں کے
سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر حق اور سچ کی بات کہے جانا جالب ہی کا اعزاز تھا۔ جالب کا ایک اعزاز یہ ہے کہ ان کی زندگی میں ہم عصر شعرا ء نے ان کو شعری خراجِ تحسین بھی پیش کیا۔ امجد اسلام امجد‘ قتیل شفائی اور فیض احمد فیض نے بھی حبیب جالب کی جرأت اظہار کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ ایک ایسی فضا میں جہاں ادبی مخاصمت کی بنا پر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہوں‘ وہاں اتنے بڑے بڑے ناموں کا حبیب جالب کی انقلابی شاعری اور عظمت کا اعتراف کرنا بہت بڑی بات ہے۔شاعرِ انقلاب کا ایک اور خوبصورت شعر یاد آ رہا ہے ؎
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب
چاروں جانب سناٹا ہے‘ دیوانے یاد آتے ہیں
ایسا لگتا ہے کہ شاعر نے جو دعا نہ جانے کن حالات میں مانگی اور
اس خواہش کا اظہار کیا کہ کوئی دیوانہ اس خوف کی فضا میں نکلے اور سناٹے کو توڑے‘ وہ آج عملی صورت میں کراچی کی سیاست کے منظر نامے پر مصطفی کمال کے آنے سے دکھائی دیتی ہے۔ کراچی کی سیاست پر جس طرح خوف کا راج تھا ‘ آج سے کچھ سال پیشتر کوئی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ الطاف حسین کے خلاف کوئی لفظ منہ سے نکالے‘ مگر آج خوف اور سناٹے کا راج ٹوٹ چکا ہے اور لوگ اپنے گریبانوں کے پرچم بنائے‘ اس خوف کو شکست دینے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک طرف فاروق ستار اپنے ساتھیوں کے ساتھ باقاعدہ جھاڑو اٹھائے سڑکوں کی صفائی کر رہے ہیں تو دوسری جانب سیاسی ماحول سے بھی میل کچیل صاف ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے۔ کراچی کے عوام نے خوف‘ بدامنی اور گھٹن کا بدترین دور گزارا ہے۔ اس گھٹن سے نجات کی خوشخبری بھی انہیں مارچ کے مہینے میں ملی ہے۔ سرما کے یخ بستہ اور خزاں رسیدہ موسم کے بعد مارچ بہار کی نوید سناتا ہوا مہینہ ہے۔ مصورِ قدرت کا ہاتھ خالی منظرنامے کو اس طرح پھولوں سے بھرتا ہے کہ چار سو رنگینی بکھر جاتی ہے۔ مارچ کیولری گرائونڈ کے ایک گھر کے انتظار کرتے مکینوں کے لیے بھی اُن کی زندگی کی سب سے بڑی خوشخبری لا یا ہے۔ یقینا شہباز تاثیر کی ساڑھے چار سال کے بعد طالبان کی قید سے واپسی بہت بڑی خوشخبری ہے۔ انتظار کی سولی پر لٹکتے اُن کے گھر والوں کو جو قرار آیا‘ اللہ کرے یہی قرار‘ اطمینان اور خوشی اُن ہزاروں لاپتہ افراد کے خاندانوں کو بھی نصیب ہو جن کے بھائی‘ باپ‘ شوہر کئی کئی سال سے لاپتہ ہیں۔ اُن کی کچھ خبر نہیں کہ وہ زندہ ہیں بھی یا نہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق پاکستان میں پانچ ہزار افراد لاپتہ ہیں۔ آمنہ مسعود جنجوعہ کے شوہر کی گمشدگی اور ماما قدیر کے بیٹے کی پراسرار ہلاکت انہیں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تحریک چلانے پر مجبور کر چکی ہے۔ یہ موضوع ایک الگ کالم کا متقاضی ہے۔ بلوچستان اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ ہے۔ شہبازتاثیر کی بازیابی میں جہاں اُن کی قسمت کا بڑا دخل ہے‘ وہیں اُن کے خاندان کے اثرورسوخ اور دولت کوبھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بازیابی کے بعد اُن کی پہلی تصویر دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے ہیں۔ وہ اچھی صحت اور بہتر جسمانی حالت میں نظر آئے۔ ہو سکتا ہے کہ اُن کے خاندان سے اغوا کار انہیں بہتر حالت میں رکھنے کا بھی تاوان وصول کرتے رہے ہوں۔ اور اُن کی بازیابی بھی ایسے ہی کسی معاہدے اور تاوان کا نتیجہ ہو۔ یہ قیاس آرائیاں ہوتی رہیں گی جب تک وہ خود اُن حقائق سے پردہ نہیں اٹھائیں گے کہ کن شرائط پر اُن کی بازیابی ہوئی۔ بہرحال یہ بھی بہت دلچسپی کا حامل ہوگا کہ اگر شہبازتاثیر ساڑھے چار سالوں کی اس قید کے شب و روز کا احوال قلم بند کریں۔ جنگجو‘ خطرناک اور کھردرے طرزِ زندگی کے حامل افراد کی قید میں ایلیٹ کلاس کا نازو نعم میں پلا ممی ڈیڈی قسم کا لڑکا کس طرح وقت گزارتا رہا۔ اُس نے کیا کیا دیکھا‘ پڑھنے والوں کے لیے اس میں دلچسپی کا بہت سامان ہوگا۔
مارچ کا خوب صورت دن ہے اور مسلسل بارش کی رم جھم ایک ایک اداسی بھی دل پر اتارتی ہے۔ کالم کا اختتام جالب ہی کے ایک خوب صورت شعر پر ؎
اُس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے
جالب چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم