تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     14-03-2016

نمائشی کلچر

باقی سارے ماننے کے لئے تیار نہیں۔ سپریم کورٹ نے ذات کے عرفان کا مظاہرہ کیا۔ خود احتسابی کے پیشِ نظر نمود و نمائش کے کلچر میں سب سے پہلے اپنا نام لیا‘ لیکن یہ متعدی بیماری کینسر سے بھی آگے نکل گئی۔
حکمرانوں کو ہی دیکھ لیں۔ کوئی جلسہ، کوئی تقریر، کوئی خطاب ایسا نہیں جس میں کھربوں ڈکارنے والے‘ عوام کو مونگ پھلی کا دانہ دے کر احسان نہ جتلائیں۔ جس کی مثالیں بدنامی کی طرح گلی گلی بکھری پڑی ہیں۔ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا، فیس بُک، گُوگل، یُوٹیوب ایسے ''احسانات‘‘ سے بھرے ہوئے ہیں۔
کوئی کہہ رہا ہے یہ موٹر وے میں نے تمہیں دی۔ بولو ناں! دی یا نہیں دی؟ جو کہتے ہیں ''دی‘‘ وہ ہاتھ کھڑا کر دیں۔ کسی کا دعویٰ ہے میں نے عوام کو نوکریاں دیں، روزگار دیا، ان کی حالت بدل دی۔ ہر احسان پر ہاتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جس کو نوکری ملی وہ ہاتھ کھڑا کر دے۔ کسی کا دعویٰ ہے میں تمہاری شناخت ہوں۔ ایک اور بولا: میں نے تمہیں شعور دیا۔ کسی نے خدائی دعویٰ کر دیا: تمہاری عزت میری وجہ سے ہے!!
کوئی ان بندگانِ شکم سے پوچھے تم نے موٹر وے اپنی جیب سے بنائی؟ یا سرکار کے خرچ پر سکول کالج بنا کر اس پر اپنے نام کی تختی لگا دی؟ ہم تو وہ خوش قسمت ملک ہیں‘ جس میں ڈینگی سپرے کرنے والی سوزوکی پک اَپ پر بھی مچھر کے مقابلے میں لیڈر کی تصویر لگائی جاتی ہے۔ ہیلتھ کارڈ پر صحت کی ہدایات نہیں چیف ایگزیکٹو کا پورٹریٹ چسپاں ہوتا ہے۔ ہماری تشہیری مہم عوامی آگہی کی ہدایات کے بجائے فرمودات اور ارشادات سے بھرپور ہوتی ہے۔ آج ملک کا سب سے بڑا متعدی مرض ذاتی تشہیر یا گلوری فکیشن ہے۔
حلقہ NA-122 کے مقدمے میں محترم چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے درست کہا کہ عدالت کو نہ بتایا جائے اس کے سامنے کھڑا سائل کون ہے؟ چیف جسٹس رُکے نہیں بلکہ اعتراف کیا‘ ججز کو قلم کی امانت اللہ تعالیٰ نے دی۔ جج سوچ سمجھ کر قلم کا درست استعمال کریں۔ہمارے سماج کی دوسری بیماری۔ کوئی ادارہ یا فرد ایسا نہیں جو اپنی غلطی تسلیم کرے‘ یا ادارہ جاتی خامیوں کو سات پردوں میں نہ چھپائے۔ ایسا پہلی دفعہ ہُوا کہ ملک کے چیف جسٹس نے نظامِ عدل کے اندر جھانکا اور وہ بھی ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اندر۔ محترم جسٹس جمالی نے انتہائی خوشگوار مگر دلیرانہ اعتراف کیا۔ فرمایا: آج کل عدالتوں میں لمبے فیصلے اور زیادہ سے زیادہ صفحات لکھنے کا مقابلہ ہے۔ ایک جج 500 صفحات کا فیصلہ لکھتا ہے‘ دوسرے مقدمے میں 2500 صفحات پر مشتمل فیصلہ آتا ہے۔ چیف جسٹس نے ایسے فیصلے کو خود نمائی کے کلچر کا مقابلہ قرار دیا۔جسٹس انور ظہیر جمالی نے عدلیہ کے اچھے دنوں کو بھی یاد کیا۔ بتایا: دنیا بھر میں مختصر فیصلے لکھے جاتے ہیں‘ یہاں بھی بہت کم صفحات کے فیصلے آتے تھے‘ یہ فیصلے موثر بھی تھے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اہلِ زبان بھی ہیں، لطیف پیرائے میں اشارہ دے کر یہ تک کہہ گزرے: کم صفحات پر لکھے گئے موثر فیصلوں کو تسلیم بھی کیا جاتا تھا۔
بر سبیلِ تذکرہ یاد آیا، ماضی قریب میں پاکستان کے اندر باہر، انصاف کے نئے ''ماڈل‘‘ کا چرچا ہوا۔ اسے "Political Justice" یا سیاسی انصاف کا ٹائٹل ملا۔ یہ انصاف کے متلاشی مظلوم عوام کی بدبختی تھی کہ عدل کے ایوانوں میں سیاست دَر آئی۔ سرکاری خرچے پر اس سیاست بازی کی سزا ملک نے بھگتی۔ سارے آئی جی، ڈی پی او، ڈی ڈی او، چیف سیکرٹری، انٹیلی جنس ادارے، قومی اداروں کے سربراہ اور اہم ترین اہلکار بدترین میڈیا ٹرائل کا نشانہ (Victim) بنے۔ نہ لوگوں کو انصاف مل سکا‘ سستا اور مہنگا‘ قانون کے نفاذ کی بھد اُڑ گئی۔ حد تو یہ تھی کہ اعلیٰ ترین عادل کی جیبیں کورٹ رپورٹروں کے کارڈوں سے بھری ہوئی تھیں۔
سپریم کورٹ نے مقدمات کی سماعت کا قبلہ درست کر لیا۔ ساتھ نمائشی کلچر کی مذمت بھی۔ نمائشی کلچر کا ایک اور پہلو وہ ہزاروں اشتہارات ہیں جن میں قبلہ حکیم صاحب، محترم اصل بابا صاحب، اپنے پالے ہوئے جنات کے نام تک جانتے ہیں۔ جن پر بیٹھ کر سات سمندر پار مناسب فیس دینے والوں کا مسئلہ حل کرنے کا دعویٰ بھی۔ محبوب قدموں میں لانے کا وعدہ پرانا ہو گیا۔ اب تو سٹیٹ بینک کے جاری کردہ بانڈز اور نیشنل سیونگز کا نمبر جاننے کے لئے ''جن‘‘ استعمال ہوتے ہیں۔ دنیا سیلولر اور سپیس ٹیکنالوجی کے ذریعے ستاروں پر کمندیں ڈال رہی ہے۔ ہم خود نمائی کے پہاڑ سے نیچے اترنے کے لئے تیار نہیں۔
محسنِ انسانیتﷺ کی حیاتِ طیبہ ریشم اور حریر کے لباس سے کوسوں دور تھی۔ مجلس اہلِ بیت اور صحابہ کرامؓ کے درمیان‘ آج سادگی مساوات کا درس دینے والے زرق برق ملبوس کے ساتھ مچان نما سٹیج پر جا بیٹھے ہیں تاکہ ان کا نورانی چہرہ ہر کونے میں تجلّیاں بکھیر سکے۔ اقبالؒ نے کیا خوب کہا:
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
اس خود نمائی کے قربان جائیے‘ فقیر لکھنے اور علامہ کہلانے والے لینڈ کروزر پر گھومتے ہیں۔ اس دور کا معجزاتی وزیر اعظم ہو یا کوئی اور بڑا‘ ان کا فیض ان کے صاحبزادوں اور ولی عہد سے کبھی باہر نہیں نکل سکا۔
نمائشی کلچر آج کا کامیاب کارپوریٹ کاروبار بھی ہے۔ کارپوریٹ کاروبار یعنی انتہائی منظم۔ جس طرح چکن بیچنے والے کڑاہی سے شروع کر کے پکی پکائی اور بنی بنائی کا مقابلہ کرتے ہیں، ویسے ہی نمائشی کلچر کی ایک مظلوم مرغی عوام ہیں اور باقی اس پر ہاتھ صاف کرنے والے شکم پرور۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نمائشی کلچر کا خاتمہ ہو ورنہ سٹریٹ کرائم ختم ہو سکے گا‘ نہ ہی سنڈیکیٹ کرائم۔ پہلا جرم چھیناجھپٹی سے شروع ہوتا ہے اور اس کی انتہا منظم جرائم بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ ایڈم سمتھ کی معیشت میں Demostration Effect کا لفظ استعمال ہوا۔ جس دفتر یا محلے میں تین حرام خور یا رشوتی کردار کام چوری اور بٹ ماری کی نمائش کرتے ہوں‘ وہاں ہر گھر میں محرومی اور چھین لینے کا احساس پیدا ہونا لازمی ہے۔ آج انتہائی منظم جرائم کو گلیمر بنا دیا گیا۔ پڑوسی ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ہیرو جبکہ ہمارے ہاں مجرم ہیرو ٹھہرے۔ سپریم کورٹ نے اپنا حق ادا کیا۔ قوم انتظار میں ہے‘ پارلیمنٹ مُک مُکا کے علاوہ بھی کچھ کر سکے گی؟ سرکار ذاتی کاروبار سے اوپر اٹھ سکے گی؟
عجیب بات عزیزوں نے ہم سے پوچھی ہے
انہیں یہ کیسے بتائیں فلاں، فلاں سے بچو
ہزار دام نہفتہ ہیں لفظ و معنی میں
خطیبِ شہر کی رنگینیِ بیاں سے بچو
وہ دن گئے کہ چمن کو تھا خطرۂ صیاد
عزیز ہیں گل و لالہ تو باغباں سے بچو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved