انتخابات میں اپنی کامیابیاں سمیٹنے والے ہمارے حکمران سالہا سال سے ایک ہی رٹ لگائے جا رہے ہیں کہ آئین توڑنے والوںکو آج تک کسی نے بھی نہیں پوچھا کہ تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟ کسی نے کبھی رات کے اندھیرے اور کبھی دن کی روشنی میں نقب لگانے والے ان ''طالع آزمائوں‘‘ کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوشش نہیں کی کہ انہوں نے ترقی اور کامیابی کی راہ پر چلنے والی ایک منتخب اور جمہوری حکومت کو کس آئین اور قانون کی رُو سے ختم کیا؟ یہ حکمران میڈیا سے گفتگو، خصوصی طور پر بلائی گئی پریس کانفرنسوں یا اجلاسوں میں زور شور سے کہتے ہیںکہ جمہوری حکومتوں کو ختم کرنے والوںکو آئین و قانون کی طاقت کے ذریعے روکنا ہوگا۔ لیکن کیا ہمارے یہی حکمران کبھی سوچتے ہیں کہ کاروبار مملکت چلاتے ہوئے وہ خود روزانہ کتنی بار آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہیں؟ کسی طالع آزما جنرل کو آئین کی بے حرمتی کی سزا دینے کے لئے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کٹہرے میں لا کر سزا دینے کی بات تو کی جاتی ہے لیکن کیا 2014ء میں حکمرانوں کی طرف سے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی اجازت کے بغیر انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کو 580 ارب روپے کی (گردشی قرضوں کی مد میں) ادائیگی کے بارے میں بات کیوں نہیں کی جاتی کہ یہ کس قانون کے تحت دیے گئے۔ آئین تو یہ کہتا ہے کہ حکومت کی جانب سے ادا کی جانے والی رقم کے چیکوں پر آڈیٹر جنرل کے دستخط ہوںگے، لیکن آئین و قانون کی صریحاً
خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ رقم گورنر سٹیٹ بینک کے دستخطوں سے ادا کر دی گئی۔کیا ملک کے خزانے کی بندر بانٹ کرنے والوںکے لئے کوئی آئین کی کوئی شق اور قانون کا کوئی ضابطہ نہیں؟ چند لوگ بیٹھ کر فیصلہ کر لیتے ہیں کہ فلاںادارے یا بینک سے تین ارب ڈالر قرضہ لے لیتے ہیں۔ کیا دنیا کے باقی جمہوری ملکوں میں کوئی ایسا کرنے کا تصور بھی کر سکتا ہے؟
کراچی اور دبئی کے جس بھی چھوٹے بڑے کاروباری شخص سے ملاقات ہوئی اس نے ایک ہی سوال کیا کہ ہمارے ملک کا کیا بنے گا؟ ایک بڑے بزنس مین فرمانے لگے، آج کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ورلڈ بینک، آئی ایم ایف سمیت دوسرے ملکوں کا 65 ارب ڈالر کا مقروض ہے، ملکی بینکوں سے حاصل کردہ قرضے اس کے سوا ہیں۔ انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آیا ملک کوقرضوںکی دلدل میں ڈبونے والے معاشیات کا یہ چھوٹا سا اصول بھی نہیں جانتے کہ اتنے زیادہ قرضوں کا نتیجہ بہت بڑی تباہی کی صورت میں سامنے آئے گا؟ دُور جانے کی ضرورت نہیں، کسی چھوٹی سی دکان یا آڑھت کا عام منشی بھی چیخ اٹھے گا کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔ ذرا سوچیے! جب یہ قرضے ہم سے واپس مانگے جائیںگے تو ہم اتنی بھاری رقم کہاں سے ادا کریںگے؟
اس وقت ادائیگیوں اور کاروبار حکومت چلانے کے لئے پاکستان کے پاس دو بڑے سہارے ہیں۔۔۔۔ بیرن ملک مقیم لاکھوں پاکستانیوں کی جانب سے بھیجا جانے والا سالانہ چار ارب ڈالرکا زر مبا دلہ اور ہماری بر آمدات۔ لیکن اب یہ کسی سے بھی اوجھل نہیں رہا کہ برآمدات میں دن بدن کمی آتی جا رہی ہے جو ملک کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ چار ارب ڈالر کا زر مبادلہ بھیجنے والے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ساتھ بیرونی سفارتی عملہ انتہائی گھٹیا سلوک کر رہا ہے۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ایتھنز (یونان) اور سائوتھ افریقہ کے سفارت خانوں کے سامنے اوور سیز پاکستانی 192 دنوں سے بیوی بچوں کے ہمراہ دھرنے دیے بیٹھے ہیں کہ ان کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کیا جائے۔ یہ اوورسیز پاکستانی جب اپنے کسی کام کے سلسلے میں ان سفارت خانوں سے رجوع کرتے ہیں تو ان کا عملہ ان سے گالی گلوچ سے بھی پرہیز نہیں کرتا۔ ملکی برآمدات کی صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ پاکستان کے نامی گرامی گارمنٹ برانڈز جو دن رات کراچی کی فیکٹریوں میں تیار ہوتے تھے آج یہ چین سے تیارکرائے جا رہے ہیں۔ اس وجہ سے ایک جانب ہماری برآمدات کم ہو رہی ہیں تو دوسری طرف گارمنٹ فیکٹریاں بند ہونے سے ملک بھر میں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دبئی میں یہ بات زبان زد ہے کہ پی آئی اے کو ایک خلیجی ملک کی اہم ترین شخصیت، پاکستان کے ایک معروف سابق سینیٹرکے ذریعے خریدنے کے ابتدائی مراحل تقریباً طے کر چکی ہے۔ ہو سکتا ہے پاکستان نے چار ارب ڈالر کی جو قسط اس سال آئی ایم ایف کو ادا کرنی ہے وہ کوئی دوست عرب ملک کسی نہ کسی سودے سے ادا کر دے۔کراچی جم خانہ میں موجود جب ہر کاروباری فرد نے ایک ہی سوال کیا تو ایک معروف کاروباری شخصیت سے بے ساختہ کہا کہ کل ہی تو وزیر اعظم آپ کے پاس آئے تھے، کیا یہ بہتر نہ تھا کہ یہی سوال آپ ان سے کرتے؟
رینجرز نے امن و امان کے حوالے سے کراچی کو بہتر بنا دیا ہے۔ اس عمل میں انہیں بے پناہ محنت کرنا اور قربانیاں دینا پڑیں، پھر کیا وجہ ہے کہ سرمایہ کاروں کا ابھی تک حکومت پراعتماد بحال نہیں ہوا سوائے ان چند سرمایہ کاروں کے جن کے حکمرانوں سے انتہائی قریبی روابط اور کاروباری تعلقات ہیں۔ قرض خواہوں کی ادائیگیوں سے کب تک بھاگا جائے گا؟ آج پی آئی اے، کراچی سٹیل ملز سمیت 38 ملکی ادارے بیچ کر اپنا کچھ قرضہ تو بیشک اتار لیا جائے گا لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ یہ ادارے کون لوگ خریدیںگے؟ ان کے پیچھے کون ہو گا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ سرمائے کی طاقت سے مالا مال کوئی ایسی شخصیت یا شخصیات در پردہ ہمارے قومی اثاثوں کے مالک بن جائیں جن کے دل ہمارے حکمرانوں کے تو بہت قریب ہوں لیکن دماغ پاکستان کے مخالفوںکے قریب؟
آج عالمی مارکیٹ میں تیل کی انتہائی نیچے کی جانب بھاگتی ہوئی قیمتوں نے کاروبار چلانے کے لئے کچھ آسانیاں پیدا کر دی ہیں لیکن جیسا کہ کہا جا رہا ہے، اس سال کے آخر تک عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں دوبارہ ساٹھ ڈالر فی بیرل عبور کر سکتی ہیں، اس وقت ہم کیا کریںگے؟ انسان جب قرض خواہوں کے تقاضوں سے گھبرا جاتا ہے تو وہ اپنے اثاثے بیچنا شروع کر دیتا ہے، اس طرح مارکیٹ اور خاندان میں اس کی ساکھ ختم ہو جاتی ہے۔ پھر ایک وقت وہ بھی آتا ہے کہ ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد انسان خود کشی کرنے یا اپنے گھر کو بھی اونے پونے داموں بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔کبھی کبھی شک سا ہونے لگتا ہے کہ ہمارے ساہوکار جو ہر چھ ماہ بعد ہم پر ایک سے دو ارب ڈالر کا مزید قرض چڑھا رہے ہیں، ان کی نیتیں ہمارے گھر کی جانب تو نہیں؟