تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     14-03-2016

پاک فوج: کل ، آج اور کل

جنگ زدہ مسلم ممالک، عراق، افغانستان، لیبیا، شام اور ریاستِ پاکستان میں سوائے پاک فوج کے اور کوئی فرق نہیں۔ یہ سخت جان، انتہائی تربیت یافتہ اورپے درپے آزمائشوں سے گزری ہوئی سپاہ ہے۔ اسے بھارت کے ساتھ جنگوں کا تجربہ ہے، مشرقی سرحد پہ ہمیشہ وہ جھڑپوں کا سامنا کرتی رہی۔ افغانستان میں سوویت یونین اور پھر امریکی جنگ کے دو عشروں میں بہت کچھ اسے سیکھنے کو ملا۔ ہمیشہ یہ بقا کے خطرے سے دوچار رہی۔ اسے خود سے چھ گنا بڑے بجٹ والی بھارتی فوج کے مقابل معاشی تنگی کا سامنا رہا۔کم عمری میں سختیوں کا سامنا کرنے والے رفتہ رفتہ ، بتدریج سخت جان ہو جاتے ہیں۔ نوگیارہ کے بعد امریکہ نے افغانستا ن پر حملہ کیا تو اسے تیرہ سالہ جنگ سے گزرنا پڑا۔ دشمن چھپ کے حملہ آور ہوتا اور امریکہ مخالف جذبات کے زیرِ اثر، پاکستان کا ایک طبقہ دہشت گردوں کی حمایت کرتا رہا۔ 
پاکستانی معاشرے ہی کی طرح ہماری صحافت بھی تعصبات کی ماری ہے۔ یہ بات درست ہے کہ سات دہائیوں میں یکے بعد دیگرے پاک فوج نے بعض غلطیوں کا ارتکاب کیا۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی فوج کے نقاد اس کی اصل خرابیوں پہ بات کرنے کی بجائے اپنے اپنے تعصبات کے زیرِ اثر طنز و طعن کے نشتر برساتے رہے۔ تعصب میں پہلا مقتول عدل ہوتا ہے۔ جولائی 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا
اس کی واضح مثال ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ کوئی ذی ہوش، فوجی سربراہ کی جانب سے اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ برتنے کی حمایت نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ حالات کو اس نہج پہ پہنچانے، مظاہرین کے خلاف فوجی جوانوں کو میدان میں اتارنے، مخالفین کے خلاف بدترین آمرانہ ہتھکنڈے استعمال کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کا کردار اس مارشل لا میں سب سے بڑا تھا۔ آج آپ کو ایسے بہتیرے تجزیہ کار مل جائیں گے، جو افغان جہاد کا ذکر طنزیہ پیرائے میں کریں گے۔ حیرت انگیز طور پر یہی لوگ جنرل پرویز مشرف کی طرف سے امریکی جنگ میں شمولیت کو ایک ایسی مجبوری قرار دیں گے، جس سے فرار ہمارے لیے ممکن نہ تھا۔ یہ بات درست ہے مگر اسی طرح سوویت یونین کے خلاف جنگ میں شمولیت بھی اتنی ہی بڑی مجبوری تھی۔ سچ یہ ہے کہ افغانستان میں یکے بعد دیگرے دو عالمی طاقتوں کی آمد نے پاکستان کے لیے بے انتہا مسائل پیدا کیے۔ سچ یہ ہے کہ دونوں دفعہ لا تعلق رہنے کی سہولت ہمیں میسر ہی نہ تھی۔
مارکیٹ میں آج کل ایسے تجزیہ کار بکثرت پائے جاتے ہیں جو مصطفی کمال پہ رائے زنی کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کا ذکر طنزیہ پیرائے میں کرتے ہیں۔ سنگین اور تلخ حقائق کی دنیا سے انہیں کوئی واسطہ نہیں۔ 2011ء میں ان کا کہنا یہ تھا کہ لاہور میں تحریکِ انصاف کا تاریخ ساز جلسہ اسٹیبلشمنٹ نے کرایا ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ نہ حالات تخلیق کر سکتی ہے اور نہ وہ انہیں بدل سکتی ہے۔ یہ حقائق کچھ یوں ہیں:
1۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم ''را‘‘ سے روابط رکھتی ہے۔
2۔2001ء میں الطاف حسین نے نئی دہلی میں برصغیر کی تقسیم کو تاریخِ انسانی کی سب سے بڑی حماقت قرار دیا۔
3۔ ایم کیو ایم نے کراچی میں بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی اور اے این پی نے بھی اس میدان میں قدم رکھا۔ یوں کراچی جرائم کی دلدل میں دھنستا چلا گیا؛ حتیٰ کہ ناجائز دھندوں کی مجموعی سالانہ آمدن 270 ارب روپے تک جا پہنچی۔
4۔ سیاسی پناہ کے بدلے برطانوی پاکستان میں اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہے۔
5۔ 2012ء سے جاری رینجرز آپریشن، عمران فاروق قتل اور منی لانڈرنگ کیس تحقیقات، 2013ء کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کی طرف سے کراچی میں لاکھوں ووٹوں کے حصول اور سب سے بڑھ کرالطاف حسین کی گرتی ہوئی صحت کے پسِ منظر میں ایم کیو ایم میں دراڑیں پیدا ہوئیں۔ یوں اب مصطفیٰ کمال اور الطاف حسین کے دوسرے مخالفین کو میدان میں اترنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ تین برس پہلے وہ یہ سوچ بھی نہ سکتے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ اس ساری صورتِ حال سے خوش ہے۔ ممکنہ طور پر مصطفیٰ کمال کو تھپکی بھی اس نے دی ہوگی لیکن یہ کہنا کہ یہ سب اسٹیبلشمنٹ کا کھیل ہے، صورتِ حال کو حد سے زیادہ سادہ (Over Simplify) بتانے کے مترادف ہے۔ 
دہشت گردی کے خلاف تیرہ سالہ جنگ میں پاکستانی فوج کا حوصلہ برقرار رہا۔ فوجی جوانوں اور افسروں نے میدانِ جنگ سے کبھی راہِ فرار اختیار نہ کی۔ کسی نے پیٹھ پر گولی نہیں کھائی۔ اس کی قربانیوں کے طفیل آج شہروں، نواحی دیہات، قبائلی علاقے، کراچی اور بلوچستان میں حکومتِ پاکستان کا حکم نافذ ہے۔ افسر اور جوان اب تجربہ کار جنگجو ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ حکمت کی اہمیت اس نے سمجھ لی ہے۔ طاقت اور اس کے استعمال سے دشمن سے لڑا جا سکتا ہے۔ دشمن نما دوستوں سے نمٹنے کے لیے حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاک فوج نے صبر کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے۔ طنز اور طعنوں پہ اب وہ خاموش رہتی ہے۔ خاموشی سے مصروفِ عمل رہتی ہے۔ چار سدہ یورنیورسٹی سانحے کے بعد تبرا بازی میں تیزی آئی، جسے اس نے حکمت سے سہہ لیا۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں ہر کہیں کچّے پکّے دفاعی ''تجزیہ کاروں ‘‘ کی فصل اگ آئی ہے، جنہیں سچ کی بجائے داد سے سروکار ہوتا ہے۔ 
پاکستانی فوج کے لیے چیلنجز برقرار ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ چھوٹے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں اور شاہین تھری میزائل کے بعد بھارت کے ساتھ بڑی جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے لیکن سرحدی دبائو ہمیشہ برقرار رہے گا۔ افغانستان کی صورتِ حال میں اتار چڑھائو آتے رہیں گے۔ بھارت کے مقابل انتہائی کمتر دفاعی بجٹ اپنی جگہ ایک چیلنج ہے۔ پاکستانی میڈیا کا ایک طبقہ تبرّا بازی کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحادی پاک فوج سے مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑا کردار چاہتے ہیں، جو ہماری بساط سے بڑھ کر ہے۔ عرب دوستوں کو یہ بتانے کی ضرور ت ہے کہ اپنے عسکری تجربے کی ضرورت میں پاکستان ان کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ خدا نخواستہ سعودی عرب پہ حملے کی صورت میں بھرپور کردار بھی وہ ادا کرے گا لیکن عرب ایران کشمکش میں اترنے کا وہ متحمل نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved