تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     15-03-2016

ایک ہنگامی دور کا خاتمہ

لوگ دھڑا دھڑ دبئی اور لندن سے واپس اپنے وطن آرہے ہیں‘ لیکن یہ واپسی صرف سیاست کی طرف ہے‘ وطن کی طرف نہیں۔ وہ ایک نئے حقیقی سیاسی عمل کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ایک کوشش حکمران طبقوں نے کی‘ جو روایتی تھی کہ پارٹی میں پھوٹ ڈال کے لوگ‘ انہی نعروں کے ساتھ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائیں اور الطاف بھائی کے بغیر‘ الطاف بھائی والی سیاست کریں۔ ظاہرہے یہ ممکن نہیں تھا۔جن لوگوں نے پارٹی سے الگ ہونے کا اعلان کر کے‘ اسی پارٹی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی‘ ان کا وہی انجام ہونا تھا‘ جو ہوا۔ اس مرتبہ سازش نہیں کی گئی۔ پارٹی کے باخبر اور سمجھدار لوگ‘ عوام کے رجحان کو دیکھ کر‘ انہی کی طرف آرہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ الطاف حسین اور ان کی کوزہ بند سیاست اب کسی کام کی نہیں رہی۔خود ایم کیو ایم سے ٹوٹنے والے رہنما‘ ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ الطاف حسین کو اپنی سیاست کے لئے مسلسل لاشیں درکار ہیں۔ ہم لوگوں سے لاشیں چھین چھین کر‘ جناح باغ میں لا کر نمائش کے لئے رکھتے رہے۔ ان کے عزیز و اقارب‘ موت پر آنسو بہا رہے ہوتے‘ خواتین بین کررہی ہوتیں لیکن الطاف حسین کے حکم پر‘ لاش کی نمائش کر کے‘نعرے بازی کی جاتی ۔الطاف بھائی مصنوعی آنسو بہا کر مرنے والے کے اہل خانہ کوبظاہر دلاسہ دیتے مگر حقیقت میں یہ ایک ڈرامہ ہوتا‘ جس میں مرنے والے کا مصنوعی ماتم کر کے‘ عوام کے دلوں میں موجود جذبہ ء انسانیت کو بیدار کر کے‘دکھاوا کیا جاتا جیسے ناگہانی موت کے ذمہ دار الطاف حسین کے دشمن ہیں اور اس شخص کی موت پر الطاف حسین کا دل لہو لہو ہو گیا ہے۔ان کی سیاست کیا ہے؟ اس پر زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
قارئین ‘صرف ایک منظر کو یاد کر کے‘ سیاسی اداکاری کی حقیقت دیکھ سکتے ہیں۔جب ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل ہوا تو الطاف حسین نے کیمرے کے سامنے بیٹھ کر ‘غمزدگی کا جو دردناک منظر عوام کے سامنے پیش کیا‘ وہ قابل دید تھا۔الطاف حسین ثابت کر رہے تھے کہ انہیں اپنے دست راست کے قتل کا بہت زیادہ صدمہ ہے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔عورتوں کی طرح بین کر رہے تھے اور یوں ظاہر کر رہے تھے جیسے عمران فاروق کا قتل ‘ان کے دشمنوں نے کیا ہے۔ بعدازاں تحقیقات کے نتیجے میں ‘جو حقائق سامنے آئے اور پھر آتے چلے گئے‘ ان سے ظاہر ہوا کہ قتل کا اصل ذمہ دار تو وہی ہے‘ جو سب سے زیادہ رو پیٹ رہا تھا۔ ظاہر ہے اس کا ثبوت تو ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکا لیکن سکاٹ لینڈ یارڈ نے جو تحقیقات کی ہیں‘ وہ کسی اور ہی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔سکاٹ لینڈ یارڈ پر دنیا کو یقین ہے کہ وہ اصل قاتل کا پتہ‘ یقیناً لگا کر چھوڑے گی۔ ان کا ریکارڈ ہے کہ جرم کا جو بھی کیس‘ سراغ لگانے کے لئے ‘ اس کے سپرد کیا جا تا ہے‘ اس میں سمجھوتے کا ڈر نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ سکاٹ لینڈ یارڈ مجرموں سے مک مکا کر کے‘ معاملہ رفع دفع کر دے گی۔سکاٹ لینڈ یارڈ کی جستجو‘ اس وقت تک جاری رہے گی‘ جب تک وہ اپنی شہرت اور نیک نامی کو برقرار رکھنے کے لئے اس مقدمے کے مجرموں کا سراغ نہیں لگا لیتی۔ عام خیال یہی ہے کہ سکاٹ لینڈ یارڈ نے ساری چھان بین کر کے‘ اصل قاتل کا پتہ چلا لیا ہے لیکن ریاست کی ضروریات اور مصلحتوں کی وجہ سے‘ حقائق پوری طرح منظر عام پر نہیں لائے جا رہے اور یہ کسی بھی حکومت اور اس کی ایجنسیوں کا فرض ہوتا ہے کہ ریاستی مفادات کے تقاضے پورے کرنے کے لئے‘ رازوں کو سربستہ رکھا جائے اور جب مصلحتیں اور ضرورتیں ختم ہو جائیں‘راز منظر عام پر لائے جائیں۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے راز بھی وقت آنے پر کھل جائیں گے۔ یہ وقت جب آیا‘ تب الطاف بھائی کی بے رحم سیاست کا بھرم بھی کھل جائے گا اور پھر ہم دیکھیں گے کہ الطاف بھائی‘ ٹی وی پر ماتم کا منظر کس طرح پیش کرتے ہیں؟ اور ان کی ایم کیو ایم کا کیا بنے گا؟ مصطفی کمال نے‘ جب ایم کیو ایم سے دوری کا اظہار کرتے ہوئے اعلان 
کیا کہ وہ پارٹی سے علیحدگی اختیار کر کے‘ اپنی علیحدہ سیاست کے لئے الگ راستہ اختیار کرنے والے ہیں‘ تو لوگوں کو یوں لگا‘ جیسے وہ کسی انفرادی شکایت پر پارٹی سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں۔ تھوڑے ہی دنوں میں ان کا غصہ ختم اور عوام کا تجسس ماند پڑ جائے گا اور وہ ہمارے سیاسی حلقہ احباب کی ایک اوربھولی بسری کہانی بن کر رہ جائیں گے‘لیکن مصطفی کمال سیاست میں چھوٹے ہونے کے باوجود‘ دوسروں کی نسبت ‘وقت کے صحیح نبض شناس ثابت ہوئے اور جس طریقے سے وہ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں‘ اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ایم کیو ایم کو اس کے فطری انجام کی طرف دھکیل د یں گے اور ایک نئی پارٹی معرض وجود میں آجائے گی۔
1992ء میں سرکاری اہلکاروں نے ایم کیو ایم کے اندر سے ایک نئی پارٹی نکالنے کی جو کوشش کی تھی‘ وہ سیاسی حرکیات کے اصولوں سے بیگانہ تھی۔وہ ماضی کی سرکاری کوششو ں کی طرح ایک پھسپھسی اور بے بنیاد سازش تھی‘ جسے آخر کار دم توڑنا تھا اور وہ دم توڑ گئی۔ اس مرتبہ ایم کیو ایم کے اندر سے جو نیا گروپ نمودار ہو رہا ہے‘ وہ وقت کی رو سے بالکل یوں تھا جیسے بغاوت کا پھل عین اپنے وقت پر پک چکا ہو۔ اس پکے ہوئے پھل کو اپنے پیڑ سے الگ ہونا ہے۔ الطاف حسین کا موسم رخصت ہونے کو ہے۔الطاف حسین کے ڈراموں کا راز‘ ان کے وارفتگان پر کھل چکا ہے۔ یہ اردو بولنے والے مہاجروں کا المیہ تھا کہ سماجی طو رپر انہیں‘ جس مضحکہ خیزی کا نشانہ بنایا جا تا تھا اور ان کے اندر ہراسانی کے جذبات میں جو شدت آتی جا رہی تھی‘الطاف حسین نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ مہاجر قومیت کا نعرہ بلند کر دیا اور پھر لسانی اور تہذیبی بنیادوں پر ‘جو سیاسی پلیٹ فارم مہیا کیا‘ اسے معاشرے کے ستائے ہوئے مہاجرین نے اپنے لئے طاقت کا وسیلہ سمجھا‘ جبکہ الطاف حسین نے یہ نعرہ اپنی سیاسی طاقت منظم کرنے کے لئے 
استعمال کیا۔ مہاجر کسی بھی طرح علیحدہ قوم نہیں تھے۔ وہ تقسیمِ ہند کے ابتدائی ایام میں اندھی جذباتیت کا ہدف بن کرگھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور انہوں نے ہجرت کا فیصلہ کرتے ہوئے سوچا کہ مسلمانوں کے لئے بنایا گیا نیا ملک‘ ان کے لئے قسمت آزمائی کا بہترین ذریعہ ثابت ہو گا۔ ترک وطن کر کے پاکستان میں آنے والے مہاجرین کی دو اقسام تھیں۔ ایک طرف پڑھے لکھے‘ مہذب اورہنر مند لوگ تھے اور دوسری طرف محنت کش اور دکھ درد کے مارے ہوئے‘ جن پر ہندو اور سکھ انتہا پسندوںنے‘ حملے شروع کر دیے تھے اور انہیں جان بچانے کے لئے پاکستان آنا پڑا۔ جس تعلیم یافتہ اور ہنر مند طبقے کا میں نے ذکر کیا‘ اسے پاکستان آتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ پاکستان میں بینک‘ انشورنس کمپنیاں‘ ریلوے اور جدید دور کی دیگر کمپنیوں کو چلانے کے لئے افرادی قوت درکارتھی۔ یہ کمی بھارت سے آنے والے اہل لوگوں نے پوری کی۔اچھی آمدنی کے باعث‘ ان لوگوں کا طرز زندگی بھی معیاری تھا۔ مقامی لوگوں میں محض چند افراد تعلیم حاصل کر پائے تھے جبکہ جاگیردار خوشحال اور دولت مند تھا۔یہ خوشحال مقامی طبقہ‘ خوشحال مہاجرین کے ساتھ گھل مل گیا اور معاشرے میں ایک نئی بالائی تہہ معرض وجود میں آگئی لیکن وہ مہاجر جو عام ہنر مندیوں کے مالک تھے‘ انہیں نچلے درجے کی ملازمتیں ملیں لیکن مقامیوں نے ہر درجے کے مہاجروں کے ساتھ ایک جیسی بدسلوکی کا رویہ اپنا لیا۔ یہی وہ رویہ تھا‘ جسے الطاف حسین نے اپنی طاقت بنانے کی خاطر‘ مہاجرین کی محرومیوں کا ڈھول بجایا اورحقیقی‘ اقتصادی اور معاشرتی وجوہ کا سراغ لگانے کے بجائے‘ جذباتی نعروں کا سہارالیا۔ متعصب جاگیرداروں نے اسے مہاجرین کی طاقت سمجھتے ہوئے‘ مقامی لوگوں کو تعلیم اور اچھی ملازمتوںکی طرف متوجہ کیا اور انہیں سماجی طور پر الگ تھلگ کرنا شروع کر دیا۔یہ رویہ الطاف حسین کا سیاسی اثاثہ بنا اور اسی بنیاد پر انہوں نے مہاجرین کی سیاست کا نیا نعرہ بلند کیا جو کافی مقبول ہوا ۔ مہاجروں کی اکثریت نے اپنی علیحدہ سیاسی شناخت کواپنی نجات کا وسیلہ سمجھا لیکن دو عشرے پورے ہونے سے پہلے پہلے‘ مہاجروں پر یہ راز کھل گیا کہ کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کا کوئی عقیدہ یا کلچر نہیں ہوتا۔اصل میں ناجائز دولت کمانے والے ‘کسی بھی تہذیب سے تعلق رکھتے ہوں یا کوئی بھی زبان بولتے ہوں‘ طبقاتی طور پر ان کی حیثیت وہی ہے جو انہیں مقامیوں اور مہاجروں میں تقسیم کر کے‘ سیاسی فوائد حاصل کرتی ہے۔ ممتاز بھٹو نے تعلیم گاہوں اور ملازمتوں میں مقامیوں کو ترجیح دینے کی پالیسی اختیار کر کے‘ مہاجروں کو دیوار سے لگا دیا۔ اس کا فائدہ بھی الطاف حسین نے اٹھایا۔سیاسی نعرے حقائق کو نہیں بدل سکتے۔اقتصادی حقائق نے جلد ہی حقیقی سماجی رشتوں کی سچائی ثابت کرنا شروع کر دی۔ مصطفی کمال اسی سچائی اور حقائق کی بنیاد پر‘ نئی سیاسی تنظیم قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ اردو بولنے والی قوم کا مصنوعی نعرہ ختم ہونے والا ہے۔ اس کے ساتھ ہی الطاف حسین کی سیاست بھی ختم ہو جائے گی۔ آنے والے دور کی سیاست ‘اصل تضادات سے جنم لے گی۔ ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرنے والے رہنما سیاست کے نئے تقاضوں کو پورا کرنے میں کامیاب رہے تو یہ ملک و قوم کی بہتری کا ذریعہ بنے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved