وفاقی وزارت انسانی حقوق کا ترجمان کہتا ہے کہ تحفظ ناموس رسالتؐ قانون میں ردوبدل نہیں کیا جا رہا جبکہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو تحفظ حقوق نسواں ایکٹ پر نظر ثانی کرے گی ۔اس حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن کو بھی یقین دہانی کرائی ہے۔ لیکن حکومت کو تحفظ ناموس رسالتؐ اور تحفظ حقوق نسواں کے حوالے سے وضاحت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ منظوری سے قبل کیوں نہ سوچا؟ ع
کجا کارے کند عاقل کہ بازآید پشیمانی
جب سے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے لبرل پاکستان کی قوّالی شروع کی ہے اسلام آباد قیاس آرائیوں اور افواہوں کی زد میں ہے۔ ممتاز قادری کی پھانسی کے معاملہ پر احتیاط کے تقاضے میڈیا نے خود بھی ملحوظ رکھے اور الیکٹرانک میڈیا نے پہلی بار پیمرا کی ہدایات پر خوشدلی سے عمل کیا مگر کراچی میں درود و سلام کا ورد کرتے‘ ''نہ ہو جو عشق مصطفیؐ یہ زندگی فضول ہے‘‘ ''غلام ہیں غلام ہیں رسول ؐ کے غلام ہیں‘‘ کی صدائیں لگاتے‘ لاکھوں عاشقانِ رسولﷺ کے بلیک آئوٹ کی ہدایات؟ مخالفین کو یہ کہنے سے کون روک سکتا ہے کہ اگلی واشنگٹن یاترا پیش نظر ہے کہ روشن خیال وزیر اعظم میاں نواز شریف ‘بارک اوباماکے سامنے سرخرو ہوں۔
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ کے صاحبزادے سلمان پراچہ کی تقریب ولیمہ میں میاں نواز شریف کے اتحادی اور 12اکتوبر1999ء سے قبل محرم راز بتا رہے تھے کہ اسلام آباد میں ان دنوں قادیانیوں کے حوالے سے 1973ء کے آئین میں دوسری متفقہ ترمیم اور تحفظ ناموس رسالتؐ ایکٹ سے چھیڑ چھاڑ کے طریقے سوچے جا رہے ہیں اور انگاروں سے نہ کھیلنے کا مشورہ دینے والے خیر خواہوں کو یہ کہہ کر خاموش کرا دیا جاتا ہے کہ عوام کالانعام کی فکر چھوڑو‘ ان سو دو سو بڑبولوں کی سنو اور مانو جن کی پذیرائی واشنگٹن‘ لندن‘ اوسلو اور پیرس میں ہے۔ یہ چند سو سڑکوں پر نکل کر ''غلامیٔ رسولؐ میں موت بھی قبول ہے ‘‘کا نعرے لگانے والے شمع رسالتؐ کے پروانوں پر بھاری ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر اس دوست کی بات پر یقین نہیں کیونکہ شریف برادران کے حوالے سے میں تاحال اس خوش گمانی کا شکار ہوں کہ وہ واشنگٹن یاترا کی کامیابی کے لیے آخرت کی راہ کھوٹی نہیں کر سکتے ۔ دوسرے میاں نواز شریف کے بارے میں مشہور ہے کہ عوام کی نبض پر ان کا ہاتھ رہتا ہے اور وہ محض چند وظیفہ خواروں اور خوشامدی مشیروں کی باتوں میں آ کر ملک کے گلی کوچوں میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے والے شہریوں کی سوچ اور عزائم سے بیگانہ نہیں ہو سکتے۔اوباما کے حضور یہ توشہ پیش کرنا گھاٹے کا سودا ہے۔
تحفظ حقوق نسواں ایکٹ پر مشاورت کے لیے جو علماء کرام پنجاب میں اہل اقتدار کے درِدولت پر حاضر ہوئے ان میں سے دو چار کے سوا اکثر کی شہرت مولانا اِدھر علی اُدھر کی ہے‘گنگا گئے تو گنگارام‘ جمنا گئے تو جمناداس۔ بعض جنرل پرویز مشرف کی روشن خیال جدیدیت کے پر زور حامی تھے اور کچھ مرد حر آصف علی زرداری کے دستر خواں کی ریزہ چینی میں مشغول ؎
معشوق مابہ شیوۂ ہر کس برابر است
با ما شراب خوردو بہ زاہد نماز کرد
(میرا محبوب بھی عجب ہرجائی ہے۔ میرے ہمراہ بیٹھ کر مے کشی کرتا اور زاہد کے ساتھ نمازیں پڑھتا ہے)
کل تک شریف برادران کا نام سن کر ان کی جبین شکن آلود ہوتی تھی مگر آج یہ شریک مشاورت ہیں۔ گرل فرینڈ سے جنسی تعلقات کا جواز فراہم کرنے والوں کو تحفظ نسواں بل میں کیا خرابی نظر آ سکتی ہے اور ؎
چوں پیر شدی حافظ از میکدہ بیروں شو
رندی و ہوسناکی‘ در عہد شباب اولیٰ
جن کے ورد زباں ہو ا‘ نہیں بھلا خاندانی نظام کی شکست و ریخت کی کیا فکر۔
اپوزیشن کی نالائقی اور مذہبی جماعتوں کی باہمی چپقلش اور ناعاقبت اندیشی کے طفیل حکومت تاحال کسی بڑے خطرے سے دوچار نہیں ورنہ گزشتہ دو تین ہفتوں میں اس نے جو گل کھلائے وہ عوام کو سڑکوں پر لانے کے لیے کافی تھے۔
مذہبی جماعتوں سے عوام کی بیزاری مختلف وجوہات کی بنا پر ہے لیکن اہم ترین ان کی تنگ نظری اور ملی و نظریاتی مقاصد کے لیے بھی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کی روش ہے۔ ایجنڈا مشترک مگر اجلاس و اجتماعات الگ الگ‘ مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن کی طرف سے بلائے جانے والے الگ الگ اجلاس اور کراچی میں ناموس رسالتؐ ریلی میں عشق رسولؐ کی دعویدار‘ صرف دعویدار کہاں سول ایجنٹ ‘بعض جماعتوں کی عدم شرکت سے کیا پیغام ملا ؟ ؎
دین کافر‘ فکر و تدبیر جہاد
دین مُلاّ‘ فی سبیل اللہ فساد
جولوگ تحفظ ناموس رسولﷺ کے اعلیٰ ترین ایجنڈے پر متحد نہیں ہو سکے‘ ان کی طرف سے عریاں تہذیب‘ اباحیت پسندی‘ مذہب دشمنی بھارت کی ثقافتی یلغار اور فاقہ کش مسلمانوں کے بدن سے روح محمدؐ نکالنے کی عالمی سازش کا مقابلہ؟ ؎
بھولی باتوں پر تِری‘ دل کو یقیں
پہلے آتا تھا اب نہیں آتا
کاروباری رقابت کے سوا مسئلہ کیا ہے؟
پاکستان کے اسلامی تشخص اور 1973ء کے متفقہ آئین کوامریکہ و یورپ کی خواہش کے مطابق تبدیل کرنے کا مطالبہ نیا نہیں ۔سلمان رشدی‘ تسلیمہ نسرین کی حوصلہ افزائی اور گستاخانہ خاکوں کی بار بار اشاعت سے مسلمانوں کو جو پیغام ملا وہ ہر شک و شبہ سے بالاتر تھا۔ پاکستانی آئین اور قوانین میں اکثریتی آبادی کے جذبات و احساسات کے برعکس تبدیلی کی جرات1988ء سے اب تک کسی فوجی اور جمہوری حکومت کو نہیں ہوئی۔ کُتے بغل میں لے کر تصویریں کھنچوانے کے شوقین پرویز مشرف نے معاشرے کا تانا بانا بکھیرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی مگر مچھلی کو پتھر چاٹ کر واپس آنا پڑا۔ پیپلز پارٹی تو خیر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے عطا کردہ آئین میں من مانی ترامیم کا سوچ بھی نہیں سکتی کہ اس کے دامن میں اب بھٹو کی حب الوطنی اور پاکستان و اسلام کے لیے خدمات کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ سارا اثاثہ اس نے اللوں تللوں میں اُڑا دیا۔
میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کا قائد اعظم ؒسے وابستگی کا دعویٰ اپنی جگہ مگر ان دنوں میاں صاحب کا حلقہ مشاورت محدود اور پالیسی سازی میں وہ لوگ دخیل ہیں جو فکر اقبالؒ و قائدؒ سے خار کھاتے اور میاں صاحب کو ان سے بڑا لیڈر باور کراتے ہیں۔ پچھلے دور حکومت میں میاں صاحب نے جمعہ کی چھٹی منسوخ کی۔ قوم کو یقین دلایا کہ معاشی حالات بہتر اور عالمی منڈی سے رابطے مضبوط ہوں گے ‘وہ دن اور آج کا دن قومی معیشت کو استحکام و قرار کبھی نصیب نہیں ہوا۔ کشکول کا سہارا ہے اور قرضوں پر گزارا ۔تحفظ ناموس رسالتؐ قانون اور آئین میں دوسری اور متفقہ ترمیم میں ردوبدل سے پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی‘ اقلیتوں کے تحفظ اور مذہبی شدت پسندی کے خاتمہ میں کس قدر مدد مل سکتی ہے؟ وزیر اعظم جانتے ہوں گے یا ان کے مشیر‘ تحفظ حقوق نسواں ایکٹ سے البتہ انتشار بڑھا اور اب حکومت اپنا تھوکا چاٹنے پر مجبور ہے۔ خواتین کے ساتھ ہونے والی سماجی و قانونی زیادتیوں سے کسی کو انکار ہے نہ نصف بہتر کو تحفظ فراہم کرنے سے کسی کو عار۔ تنازعہ صرف یہ ہے کہ خواتین کو اسلام کے عطا کردہ حقوق واپس لوٹائے جائیں یا مغرب کے نقطۂ نظر سے قوانین نافذ کر کے اپنے خاندانی نظام کا تیا پانچہ کیا جائے۔
خدا کرے کہ وزارت انسانی حقوق کی یقین دہانی حکومت کی سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ اور مولانا فضل الرحمن کے علاوہ پنجاب کے علماء کے ساتھ مشاورت وقت گزاری کا حربہ نہیں‘ نیک نیتی کا اظہار ہو۔ تاکہ درست راستے پر گامزن پاکستان پر ایک بار پھر عدم استحکام کے سائے نہ چھائیں۔ پیپلز پارٹی کو دوران اقتدار بے عملی اور کرپشن لے ڈوبی‘ تین صوبوں میں اس کی حالت ہرچند کہیںکہ ہے‘ نہیں ہے۔ سندھ میں فارورڈ بلاک بننے سے روکنا اور صوبائی حکومت بچانا اس کی کامیابی ہو گی۔ ایم کیو ایم مکافات عمل کا شکار ہے۔ تحریک انصاف جماعتی الیکشن سے جاں بر ہوئی تو سیاست میں کوئی کردار ادا کر پائے گی۔ عوام کے جذبات کو سمجھنے سے وہ قاصر ہے اور تحفظ ناموس رسالتؐ کے معاملہ پر وہ یوں خاموش ہے جیسے عمران خان سمیت کسی کو خبر نہیں۔ این جی او مافیا یہاں بھی موثر ہے ورنہ حلقہ این اے 101 اور 153 میں یہ بازی پلٹ سکتی تھی۔ اگر مسلم لیگ بھی اپنی حماقتوں کی نذر ہو گئی تو المیہ ہو گا۔ پاکستان اس وقت کسی احتجاجی تحریک کا متحمل ہے نہ اس کے آئین اور قوانین میں من مانی ترامیم عوام کے لیے قابل قبول کہ یہ ان کے ایمان‘ تہذیب و ثقافت اور خاندانی نظام کا معاملہ ہے جس سے مغرب دستکش ہو کر تباہ ہوا‘ ہم یہ راستہ اختیار کیوں کریں ؟روز آخرت اپنے رسول شفیع المذنبین رحمت للعالمین ﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے۔