ڈاکٹر رُتھ فائو 1929ء میں جرمنی میں پیدا ہوئیں۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کی اور پریکٹس شروع کر دی۔ پھر ایک مذہبی تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی جو قناعت‘ پاک بازی اور اطاعت کا عہد لیتی تھی اور جس کے تحت زندگی کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کرنا ہوتا تھا۔ ڈاکٹر رُتھ فائو نے سُن رکھا تھا کہ ایشیا میں غربت‘ پسماندگی اور بیماریاں بہت ہیں؛ چنانچہ انہوں نے بھارت جا کر مریضوں کی دیکھ بھال کا قصد کیا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ انہیں بھارت کا ویزا نہ مل سکا‘ کسی نے بتایا کہ پاکستان سے یہ ویزا مل جائے گا۔ چنانچہ وہ کراچی پہنچ گئیں۔ یہاں کوڑھ کے مریضوں کی حالت زار اور ان کی رُلا دینے والی بستی دیکھ کر یہیں کام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
ڈاکٹر رُتھ فائو گزشتہ 56 برسوں سے پاکستان میں جزام کے مریضوں کا علاج کر رہی ہیں۔ اُن مریضوں کا بھی علاج کیا جن کے جسم پرکیڑے رینگ رہے تھے اور جسم پر ہی رہتے تھے۔ پانی سے بھری نشیبی بستیوں میں میز پر کھڑے ہو کر بھی مریضوں کی خدمت کی۔ ایسے مریض بھی اٹینڈ کیے جو دونوں پائوں اور دونوں ہاتھوں پر چوپایوں کی طرح چل رہے تھے۔ مقامی ڈاکٹر ان مریضوں کے نزدیک آنے کا بھی حوصلہ نہ رکھتے تھے۔ آج پاکستان میں یہ مرض تقریباً ختم ہو چکا ہے اور اس کے خاتمے میں ڈاکٹر رُتھ فائو کا کردار بنیادی ہے ‘مگر ہم جو بات کرنا چاہتے ہیں وہ اور ہے!
ڈاکٹر رُتھ فائو نے ایک تفصیلی انٹرویو دیا ہے جس میں اہل پاکستان کے بارے میں انہوں نے اپنے 56 سالہ تجربے کا نچوڑ یوں پیش کیا ہے: ''جرمنی میں جب کوئی شخص کسی کام کی ہامی بھرتا ہے تو اسے تکمیل تک پہنچاتا ہے اور اگر اسے کوئی کام نہیں کرنا ہوتا تو وہ فوراً انکار کر دیتا ہے۔ ٹال مٹول نہیں کرتا۔ لیکن پاکستان میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ یہاں اگر کوئی شخص کسی کام کی ہامی بھرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ یہ کام نہیں کرے گا اور اگر انکار کرے تو سمجھ لیں کہ وہ اس کام کو ضرور کرے گا۔ میں آج تک پاکستانیوں کے اس مزاج کو سمجھ نہیں پائی۔ جب میں کسی سے کوئی کام کہتی ہوں تو لوگ کہتے ہیں میڈم یہ کام ہو جائے گا لیکن پھر جب میں ان سے پوچھتی ہوں کہ کام کیوں نہیں ہوا تو جواب ملتا ہے کہ میں نے اس وقت یونہی ہامی بھر لی تھی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ اتنی آسانی سے کیسے جھوٹ بول لیتے ہیں جبکہ جرمنز میں یہ عادت نہیں پائی جاتی!‘‘
ڈاکٹر رُتھ فائو کی اس آبزرویشن پر ہم لاکھ ناک بھوں چڑھائیں‘ آئیں بائیں شائیں کریں‘ بدلے میں کفار کی ہزار برائیاں گنوائیں‘ مغربی معاشرے کے ''خاندان توڑ‘‘ کلچر پر اُچھل اُچھل کر حملے کریں‘ مگر ہم اچھی طرح جانتے ہیں اور دل میں مانتے ہیں کہ بات وہ درست کر رہی ہیں۔ اس سچائی پر ہم میں سے ہر شخص‘ ہر عورت‘ ہر مرد‘ ہر بوڑھا‘ ہر بچہ گواہ ہے! جس دن چھت ڈالنی ہو‘ ہمیں معلوم ہوتا ہے آج راج اور مزدور غائب ہو جائیں گے‘ جو تاریخ ہمیں ٹیلر بتاتا ہے‘ ہمیں یقین ہوتا ہے اُس دن کپڑے نہیں ملیں گے۔ دفتر کا افسر اور اس کا بابو جس دن آنے کا کہتے ہیں‘ ہم اپنے دل میں سو فیصد یقین سے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کام اُس دن بھی نہیں ہو گا! دکاندار بتاتا ہے آپ کا مطلوبہ آئٹم منگل کو موجود ہو گا‘ ہم منگل کو جاتے ہیں‘ اُسے یاد ہی نہیں ہوتا کہ اُس نے وعدہ کیا تھا۔ ہم کسی کے ہاں جانے کا جو وقت متعین کرتے ہیں‘ ہم میں سے ننانوے فیصد اس کی قطعاً پروا نہیں کرتے۔ پھر ہم لوگ ڈھٹائی‘ بے شرمی اور بے حیائی کا مظاہرہ ڈنکے کی چوٹ اُس وقت کرتے ہیں جب یہ کہتے ہیں کہ میں نے وعدہ تو نہیں کیا تھا‘ بس یونہی کہہ دیا تھا۔ جب ہمیں کوئی بتاتا ہے کہ آ رہا ہوں اور لبرٹی چوک یا بندر روڈ یا پشاور موڑ سے گزر رہا ہوں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابھی گھر سے نکلا ہی نہیں! کتنی ہی بار لوگوں سے بحث ہوئی اور معاملہ تلخی تک پہنچا۔ کچھ سال پہلے ایک بچے کی شادی تھی۔ جن مولانا نے نکاح پڑھایا‘ وہ دوست تھے۔ کہنے لگے آج مغرب کے بعد نکاح نامہ مکمل کر کے دے جائوں گا۔ دو دن بعد یاد دلایا تو فرمایا بس آج مل جائے گا! صوفہ ساز کو گھر بلایا‘ متشرع نوجوان تھا۔ کہنے لگا انکل‘ جا کر فون کرتا
ہوں اور متعلقہ شخص کا فون نمبر دیتا ہوں۔ دوسرے دن پوچھا بیٹا تم نے وعدہ نہیں پورا کیا۔ کہنے لگا‘ وعدہ تو کیا ہی نہیں تھا‘ میں نے تو ایک بات کی تھی! دروغ گوئی اور پیمان شکنی کی یہ ''ثقافت‘‘ انفرادی سطح سے بڑھ کر اجتماعی وجود میں بھرپور طریقے سے حلول کر چکی ہے۔ ہماری ایئر لائنوں کا رویہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ لطیفہ یونہی نہیں بن گیا کہ ٹرین وقت پر پہنچی‘ سب خوش ہوئے مگر معلوم ہوا کہ اس نے تو کل اس وقت پہنچنا تھا۔ ایسے لطیفے جاپان‘ جرمنی اور کینیڈا میں کیوں نہیں سننے میں آتے؟ تقاریب میں وزراء اور سربراہ حکومت تاخیر سے آتے ہیں۔ شادیوں کی تقاریب دیکھ لیجیے‘ کس طرح بہترین پوشاکوں میں ملبوس‘ معززین دو روٹیوں کے لیے گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ دل میں میزبان کو سب کوس رہے ہوتے ہیں اورکیا ستم ظریفی ہے کہ تحقیر اور شرمندگی کا یہ کھیل کھیلنے کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ مذہبی جلسوں میں بھی وقت کی پابندی کا کوئی تصور نہیں۔ مسجد کی دیوار پر نماز جمعہ کا وقت ڈیڑھ بجے لکھا ہے مگر وعظ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
ڈاکٹر رُتھ فائو نے ہمارے بازاروں کا تو ذکر ہی نہیں کیا۔ رمضان میں قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ پوری ''کافر‘‘ دنیا میں کرسمس پر قیمتیں گر جاتی ہیں۔ گزشتہ تین دن بارش رہی۔ کل اخبارات دہائی دے رہے تھے کہ پکوڑوں‘ سموسوں اور کباب کی قیمت تاجروں نے بڑھا دی‘ اس لیے کہ بارش کے موسم میں ان کی طلب بڑھی تھی! ملاوٹ‘ ٹیکس چوری‘ چور بازاری‘ تاجروں کا تجاوزات کا کھیل‘ شے بیچتے وقت نقص چھپانا‘ یہ وہ بیماریاں ہیں جن کا ہزار بار تذکرہ ہو چکا اور ہر شخص جانتا اور مانتا ہے اور ساتھ ساتھ ان جرائم میں برابر کا شریک ہے!
اب دوسری طرف دیکھیے! یہ وہی ملک ہے جس کے باشندوں کی عظیم اکثریت ازحد مذہبی ہے۔ ملک ممتاز قادری کے جنازے کو دیکھیے۔ مدارس کی جتنی تعداد پاکستان میں ہے‘ دنیا کے کسی مسلمان ملک میں نہیں‘ قدم قدم پر مسجدیں ہیں اور مدرسے‘ صرف دارالحکومت میں چار سو ایک مدارس کام کر رہے ہیں۔ مدارس سے فارغ التحصیل لاکھوں علماء‘ دین سکھا رہے ہیں۔ گنہگار سے گنہگار پاکستانی بھی جمعہ کی نماز ضرور ادا کرتا ہے اور وعظ سنتا ہے۔ تبلیغی جماعت کا تو مرکز ہی پاکستان ہے۔ لاکھوں جماعتیں تشکیل ہو کر قریہ قریہ‘ گلی گلی‘ تبلیغ کر رہی ہیں۔ لاکھوں پاکستانی چلے کاٹ رہے ہیں‘ وقت لگا رہے ہیں‘ گشت کر رہے ہیں۔ ملک بھر میں مسجدیں شب جمعہ کو بھر جاتی ہیں!
تو پھر جھوٹ‘ وعدہ خلافی‘ چور بازاری‘ ملاوٹ‘ ملمع سازی‘ ٹیکس چوری‘ حرام تجاوزات‘ بیچتے وقت شے کا نقص نہ بتا کر حرام کمائی کا حصول‘ سرکاری دفتروں میں رشوت اور عوام کو اذیت رسانی کا زور! قطع رحمی! لڑائی جھگڑے‘ سڑکوں پر جگہ جگہ مارکٹائی‘ گالی گلوچ‘ کچہریوں میں جھوٹی گواہیوں کی حیران کن کثرت... اس سب کی وجہ کیا ہے؟ یہ ساری تبلیغی سرگرمیاں‘ یہ مدارس سے نکلنے والے لاکھوں علماء کرام‘ یہ جمعہ کے دن وعظ سننے والے کروڑوں سامعین‘ یہ حرمت رسولؐ پر گردن کٹانے کا جذبہ‘ آخر یہ تضاد کیوں؟ اتنی بلندی ہے تو پھر ایسی پستی کیوں ہے؟
اگر آپ غیر جانبدار ہو کر غور کریں تو اس بھیانک تضاد کے آپ کو تین اسباب نظر آئیں گے۔ اوّل : ہمارا اسلام محض عبادات اور عقائد پر مشتمل ہے۔ ہمارے علما عقائد کے اختلافات اور عبادات کی تفاصیل پر زور دیتے ہیں مگر معاملات کی طرف نہیں آتے۔ آپ یوٹیوب پر مختلف مسالک کے علما کی تقریریں سنیں تو اختلافات کی شدت‘ اشتعال انگیزی اور تکفیر کی کثرت پر حیران رہ جائیں گے۔ اذکار‘ نوافل‘ تسبیحات‘ چلہ کشی‘ سب کچھ ہے مگر معاملات سے مکمل غفلت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی کی تعریف کرتے وقت یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں نماز‘ روزے کا پابند ہے؛ حالانکہ حضرت عمرؓ نے ایک شخص کے بارے میں یہ رپورٹ سُنی تو پوچھا کہ وہ معاملات میں کیسا ہے؟
دوم : ہم 'من حیث القوم‘ والدین کی حیثیت سے مجرمانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ سارا الزام علما پر اور اہل تبلیغ پر ڈالنا بھی انصاف پسندی نہیں! ہم بچوں کو یہ سکھا ہی نہیں رہے کہ جھوٹ کسی طور پر نہیں بولنا‘ وعدہ ہر حال میں پورا کرنا ہے‘ قانون نہیں توڑنا! آپ غور کیجیے‘ ہمارے گھروں میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے ان پہلوئوں کی اہمیت صفر کے برابر ہے! ایک امریکی‘ جرمن‘ فرانسیسی یا آسٹریلین گھرانے میں بچہ جھوٹ کے تصور ہی سے ناواقف ہے۔ وہاں پانچ بجے کا مطلب پانچ بجے ہے۔ پانچ بج کر ایک منٹ بھی نہیں! ہمارے حکمرانوں کا کردار بھی شرمناک ہے۔ اگر آج ہمارے وزراء اور ان کے باس جھوٹ اور وعدہ خلافی کو خیرباد کہہ دیں تو ماتحت بھی راتوں رات اپنا رویہ بدل لیں گے۔ سوم : ہمارے علما اور مبلغین عبادات و عقائد پر جو زور دے رہے ہیں‘ وہ بھی دین کا تقاضا ہے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی ترجیحات میں وہ چیزیں بھی شامل ہو گئی ہیں جن کا اصلاً دین سے تعلق ہی نہیں! انہوں نے اپنی ''مصروفیات‘‘ کا دائرہ اتنا وسیع کر لیا ہے کہ معاملات میں عوام کی اصلاح کا وقت ہی کہاں ملتا ہے۔
پھر وہ اپنے سٹینڈ جس طرح تبدیل کرتے ہیں خلق خدا یہ ''تبدیلیاں‘‘ دیکھ کر مذہبی تعلیمات ہی سے برگشتہ ہو رہی ہے۔ سرسید احمد خان کے زمانے میں فتویٰ دیا گیا کہ کرسٹان کے ساتھ کھانا کھانے سے مسلمان کافر ہو جاتا ہے۔ پھر لائوڈ سپیکر پر ایک رائے دی گئی۔ پھر اسے تبدیل کیا گیا۔ آج بھی تضاد کا یہ عالم ہے کہ پاکستان میں لاکھوں کے مذہبی اجتماعات میں نماز باجماعت لائوڈ سپیکر کی مدد سے نہیں بلکہ مکبّرین کی مدد سے ادا کی جاتی ہے؛ حالانکہ حرمین شریفین میں نماز باجماعت لائوڈ سپیکر کی مدد سے ادا کی جا رہی ہے۔ عوام ان تضادات سے کنفیوزڈ بھی ہوتے ہیں اور ان پر ہنستے بھی ہیں! تصویر‘ ٹیلی ویژن اور لباس کے معاملے میں بھی یہی کچھ ہوا۔ مدارس کے طلبہ کو میز کُرسی پر بیٹھنے نہیں دیا جا رہا۔ امریکہ میں ایک مدرسہ میں طلبہ کو میز کُرسیوں پر بیٹھا دیکھ کر ایک پاکستانی عالم دین نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ میز کُرسی کے استعمال میں برکت نہیں ہوتی۔ موقف بدلنے کا یہ عالم ہے کہ ایک بہت بڑے عالم دین نے قرآن پاک کی تفسیر لکھی تو اس میں مسلم خواتین کے پارلیمنٹ میں بیٹھنے کو غیر اسلامی قرار دیا۔ مگر ان کے پیروکاروں نے عملاً ان کی رائے کے پرخچے اڑا دیئے ع
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا!
پنجاب کے حقوق نسواں بل کی مثال لے لیجیے۔ علماء کرام سب کچھ چھوڑ کر اس کے درپے ہیں۔ ایک حضرت نے تکبر سے دعویٰ کیا ہے کہ بل کو اڑا کر رکھ دیں گے۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ شہبازشریف بل منظور کرانے پر معافی مانگیں۔ مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ بل کی کون سی شق‘ قرآن پاک کے کس حکم اور کس حدیث کے خلاف ہے!
اگرچہ علماء کو اس بات کی بالکل پروا نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ عوام کی کثیر تعداد زندگی کے عملی مسائل پر ان کے موقف اور بدلتے موقف پر سنجیدگی سے اب توجہ ہی نہیں دیتی بلکہ مذاق اڑاتی ہے۔
کاش ہمارے علماء اور ہمارے حکمران‘ ڈاکٹر رُتھ فائو کی بات پر سر جوڑ کر بیٹھتے اور قوم کو جھوٹ اور وعدہ خلافی کے گڑھے سے نکالنے کو فوقیت دیتے!