تحریر : عامر خاکوانی تاریخ اشاعت     15-03-2016

قراردادِ مقاصد پر اعتراضات کیوں ؟

ہمارے ہاں جن موضوعات پر بہت زیادہ لکھا جاتا ہے، ان میں سے ایک قراردادِ مقاصد بھی ہے۔ اس کے خلاف اس تسلسل سے لکھاجاتا رہا کہ کبھی تو اس پر منظم مہم کا گماں ہونے لگتا ہے۔ لبرل، سیکولر دوست قرارداد مقاصد کو سخت ناپسند کرتے اور اس پر حملہ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے۔ پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کی جو لہر پچھلے چند برسوں سے چل رہی ہے، اس کی ذمہ داری بھی قرارداد مقاصد پر تھوپ دی جاتی ہے۔ یہ سوچ کر بسا اوقات حیرت ہوتی ہے کہ آخر اس میں ایسا کیا پوشیدہ ہے کہ یاردوست اس کے درپے رہتے ہیں؟ قرارداد مقاصد 12 مارچ 1949ء کو منظور کی گئی تھی۔ 12 مارچ کے دن کی مناسبت سے اس بار بھی بعض ویب سائٹس پر قرارداد مقاصد کے خلاف تنقیدی بلاگ شائع ہوئے۔ اس حوالے سے ایک وضاحتی بلاگ میں نے سوشل میڈیا پر لکھا۔ پھر خیال آیا کہ اس موضوع پر اتنا کچھ شائع ہوتا رہتا ہے، مگر اکثر قارئین قرارداد مقاصد کے متن ہی سے ناواقف ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ انہیں اس کا وہ ''خطرناک‘‘ متن پڑھا تو دیا جائے، جو یار لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔
قرارداد مقاصد میں نے متعدد بار پڑھی۔ مجھے تو کبھی سمجھ نہیں آئی کہ اس سے مذہبی انتہاپسندی کیسے پروان چڑھی؟ یہ کیسی انتہاپسندی تھی، جو چالیس، پینتالیس سال بعد اچانک نمودار ہوگئی۔ سب جانتے ہیں کہ پچاس کی دہائی میں پاکستان کے مختلف شہروں میں ایک خاص قسم کا الٹرا لبرل اور کھلا ماحول تھا۔ پرانے صحافی لاہور کے مال روڈ پرواقع ان ہوٹلوں کا قصہ سناتے ہیں جہاں رقص دیکھنے کے ساتھ ہر قسم کے ''مشروبات‘‘ میسر تھے، ان کا تصور کر کے آج بھی بعض لکھنے والوں کے منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ ساٹھ کا عشرہ ایوب خان کا تھا، جو ہماری قومی تاریخ کے لبرل ادوار میں شمار ہوتا ہے۔ اسی دور میں عائلی قوانین کی وہ قانون سازی ہوئی، جسے ہمارا مذہبی طبقہ کبھی مان نہیں سکا۔ ایوب خان تو ملک کا نام بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان سے صرف جمہوریہ پاکستان کرنا چاہتے تھے۔ اس پورے عمل میں قرارداد مقاصد بے چاری آئین کے دیباچے میں لیٹی خاموش، مسکین نظروں سے یہ سب دیکھتی رہی۔ 50ء کی دہائی کا الٹرا لبرل شہری سماجی ماحول اس کے آنے سے تبدیل ہوا اور نہ ہی یہ ایوب خان کے ماڈرن ازم کا کچھ بگاڑ سکی۔ البتہ ایوب خان کے پسندیدہ سکالر ڈاکٹر فضل الرحمن کو اپنی ''دینی اصلاحات‘‘ چھوڑ کر ملک سے جانا پڑا۔ اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ انہوںنے ایک تدریجی عمل کے بغیر ہی پوری مذہبی فکر کو بدلنے کی کوشش کی، جس کے منطقی نتائج انہیں بھگتنا پڑے۔
ستر کی دہائی کا تین چوتھائی حصہ بھٹو صاحب کے نام جاتا ہے، جن کی لبرل اور سیکولرفکر کے بارے میں کسی کو شبہ نہیں ۔ مذہبی شدت پسندی کا عنصر 80ء کے عشرے میں بڑھا، فرقہ وارانہ تنظیمیں بھی باقاعدہ طور پر وجود میں آئیں۔ ان کی وجوہ سب کے سامنے ہیں۔ ایران کا انقلاب، اسے ایکسپورٹ کرنے کی مبینہ کوشش اور اس پر ہونے والا مقامی ردعمل، سب سے بڑھ کر افغانستان میں روسی قبضے کے خلاف دس سال تک جاری رہنے والی تحریک مزاحمت ۔ غیر ریاستی عسکری تنظیمیں اس ملک میں پہلی باربنائی گئیں۔ نوے کی دہائی میں ان تمام تنظیموں کا رخ مغرب کے بجائے مشرق کی جانب ہوگیا۔ پوسٹ نائن الیون منظرنامہ ایک اور طرح سے قیامت خیز ہوا، جب ان جہادی تنظیموں میں سپلنٹر گروپ پیدا ہوئے جو خود پاکستانی اداروں اور ریاست پر حملہ آور ہوگئے۔
سوال یہ ہے کہ مذہبی انتہاپسندی کی ان مختلف مگر جانی پہچانی صورتوں میں قرارداد مقاصد کیا کیا قصور؟ کیا الیاس کشمیری، بیت اللہ محسود، قاری حسین، ملا فضل اللہ وغیرہ نے قرارداد مقاصد پڑھ کر ہتھیار اٹھائے اور ہزاروں افراد کے قتل کا باعث بنے؟ ظاہرہے ایسا نہیں ہے۔ ان میں سے تو کسی نے قرارداد مقاصد کا ایک لفظ تک نہیں پڑھا ہوگا۔ یہ شدت پسند تو سرے سے جمہوریت اور آئین تک کو کفریہ نظام قرار دیتے ہیں۔ اس شدت پسندی، عسکریت پسندی کی جانی مانی واضح وجوہات تھیں، جن پر اب بڑی حد تک اتفاق ہوچکا ہے۔ ریاست اور ریاستی اداروں کی بعض پالیسیاں غلط تھیں، کچھ کے نفاذ میں غلطیاں ہوئیں اور ہر غلطی کی طرح ان کے نقصانات بھی اٹھانے پڑے۔ 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر پھر قرارداد مقاصد سے بعض حلقوں کی ناراضی کیوں؟ جواب پانے کے لئے اس کا متن پڑھنا ہوگا۔
قرارداد مقاصد کا متن
٭ ''اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیر حاکمِ مُطلَق ہے۔ اس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے، وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ مجلس دستور ساز نے جو جمہور پاکستان کی نمائندہ ہے، آزاد و خودمختار پاکستان کے لیے ایک دستور مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
٭ جس کی رُو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔٭ جس کی رُو سے اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔٭ جس کی رُو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔٭ جس کی رُو سے اس امر کا قرار واقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔٭ جس کی رُو سے وہ علاقے جو اب تک پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں، ایک وفاق بنائیں گے جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات و اقتدار کی حد تک خود مختاری حاصل ہوگی۔٭ جس کی رُو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون و اخلاق اجازت دیں، مساوات، حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری، عمرانی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، اظہارِ خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور جماعت سازی کی آزادی شامل ہوگی۔٭ جس کی رُو سے اقلیتوں اور پسماندہ، پست طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔٭ جس کی رُو سے نظامِ عدل گستری کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی۔٭ جس کی رُو سے وفاق کے علاقوں کی صیانت، آزادی اور جملہ حقوق، بشمول خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔٭ تاکہ اہل پاکستان فلاح و بہبود کی منزل پا سکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاصل کریں اور امنِ عالم اور بنی نوعِ انسان کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں‘‘۔
قرارداد مقاصد پڑھ کر اندازہ لگا لیا جائے کہ اس نے آخر کس طرح مذہبی شدت پسندی کو ہوا دی یا پھر اس میں پاکستانی اقلیتیوں کے خلاف آخر کیا پوشیدہ ہے؟ اس میں اسلام کے جمہوریت، حریت، رواداری، مساوات اور عدلِ عمرانی کے اصولوں کے اتباع کی بات کی گئی۔ دو تین جگہوں پر یہ واضح کیا گیا کہ اقلیتوں کے اپنے مذہب پر عمل، عقیدے کے تحفظ اور ثقافت کی آزادی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اعتراض آخر کس بات پر ہے؟ کیا صرف اس جملے پر اعتراض ہے۔۔۔۔ ''اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلاشرکت غیر حاکمِ مُطلَق ہے۔ اس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے، وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا‘‘۔
اگر ایسا ہے تو صرف اسی پر بات کی جائے۔ کھل کر کہا جائے کہ ہم قرارداد مقاصد کے اس لئے مخالف ہیں کہ اس میں خدا کا نام لیا گیا، اسے کائنات کا حاکم مُطلَق مانا گیا ہے۔ 
یہ تو پھر وہی بات ہوئی، اکبر الہٰ بادی نے شعر میں جسے بیان کیا تھا ؎
رقیبوں نے رپٹ لکھائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved