تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     16-03-2016

راوی ’’ٹھنڈا ٹھار‘‘ لکھتا ہے!

یہ کیسا عالم ہے۔ کہیں کوئی ہلچل ہی نہیں۔ سارا ماحول سندھ کے وزیر اعلیٰ کی نقالی پر تُلا ہوا ہے، یعنی ٹھنڈا ٹھار! کسی گوشے میں کوئی حرکت واقع ہو رہی ہے نہ کوئی معاملہ منطقی انجام تک پہنچتا دکھائی دے رہا ہے۔ 
معاشرے میں بہت کچھ ہونا چاہیے مگر ہو نہیں رہا۔ کیوں؟ سیدھی سی بات ہے‘ ہوتا وہی ہے جو متعلقین کے مفاد میں ہوتا ہے۔ جن کے ہاتھ میں اقتدار اور اختیار ہو‘ وہ اپنی مرضی اور مفاد کے خلاف رونما ہوتے ہوئے کسی بھی واقعے کو روک دیتے ہیں۔ خواہش کرنے والوں کے خواہش کرنے سے کیا ہوتا ہے؟ ہوتا وہی ہے جو اختیار والے چاہتے ہیں‘ اور اس وقت بھی یہی ہو رہا ہے۔ یعنی بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ ہم ''نارمل‘‘ معاشرے میں جی رہے ہیں۔ 
کسی نے خوب لکھا ہے کہ پانی خود بخود اپنی پنسال میں آ جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ بھی پنسال کی عمدہ مثال ہے۔ منتخب حکومتیں آ اور جا رہی ہیں۔ عوام کا کام ووٹ دینا ہے۔ وہ اپنا کام کر رہے ہیں۔ اہلِ سیاست کا کام ہے عوام کو وعدوں پر ٹرخانا اور دعووں کے جال میں الجھائے رکھنا۔ وہ بھی اپنا کام بخوبی کر رہے ہیں۔ دونوں اپنا کام کر رہے ہیں یعنی سیاسی اور جمہوری کاروبار چل رہا ہے۔ ایسے میں کوئی بہتری کیسے آئے گی؟ کئی نئی بات ہو، عام ڈگر سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کی جائے تو کسی بہتری کی امید پیدا ہو، کچھ نیا کر دکھانے کی راہ نکلے۔ اگر سب کچھ اپنے ڈھرّے پر ہو رہا ہو، پرنالے طے شدہ مقام ہی پر بہہ رہے ہوں تو سارے ماحول پر پژمردگی ہی چھائی رہے گی۔ کچھ نہ کرنے کی ٹھانی جائے گی تو یہی ہوگا یعنی کچھ نہیں ہوگا۔ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جائے گا تو یقینی طور پر کچھ ہوتا دکھائی بھی دے گا۔ 
جادو کیا ہے؟ وہ کہ جو ہو مگر دکھائی نہ دے۔ یا جو دکھائی دے رہا ہو وہ درحقیقت نہ ہو۔ اس کسوٹی پر پرکھیے تو ہمارا پورا نظام جادو ہے! بہت کچھ ہے کہ نہیں ہے مگر دکھائی دے رہا ہے۔ یہ ہے وعدوں اور دعووں کا محاذ‘ اور دوسرا بہت کچھ ہے مگر دکھائی نہیں دے رہا۔ اِس معاملے میں کرپشن ایک واضح مثال ہے۔ کرپشن ہے مگر ہمیں دکھائی نہیں دیتی۔ جب کرپشن کے ذریعے مال بٹورنے کا عمل مکمل کر لیا جاتا ہے‘ تب اندازہ ہو پاتا ہے کہ پُلوں کے نیچے سے اچھا خاصا پانی بہہ چکا ہے۔ قوم کی خون پسینے کی کمائی پر ڈاکے ڈالنے کا عمل اِتنی رازداری سے منطق انجام تک پہنچایا جاتا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ متعلقین چُپ سادھے رہتے ہیں۔ زبان صرف اُس وقت کھولی جاتی ہے جب طے شدہ یا سوچا ہوا حصہ نہ ملے اور ملنے کی کچھ آس بھی نہ رہے! 
ریاست نے تمام اہم امور سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹیشن ... کون سا شعبہ ہے جس میں نجی شعبے کو بھرپور کارستانی کا موقع فراہم نہیں کیا گیا؟ کھلے بازار کی معیشت کا اصول اپناتے ہوئے نجی اداروں کو ہر میدان میں کھل کھیلنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تقریباً تمام معاملات میں عوام کو نجی شعبے کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا کرپشن ہی کی ایک شکل ہے۔ تھوڑے سے حصے یا بھتے کے عوض مجموعی ریاستی و عوامی مفاد کو قربان کر دینا یعنی اپنی چند بوٹیوں کے لیے سالم بکرا ذبح کر ڈالنا ریاستی مشینری کے کرپٹ پُرزوں کا پرانا طریقِ واردات ہے۔ ہمارے ہاں اب تک یہی ہوتا آیا ہے اور آثار بتاتے ہیں کہ یہی ہوتا رہے گا۔ 
معاملہ، بلکہ طرفہ تماشا یہ ہے کہ قاتل تو پُرجوش اور سرگرم ہی ہیں مگر ساتھ ساتھ وہ بھی جاں سے گزرنے کو بے تاب رہتے ہیں جنہیں نشانے پر لیا جا چکا ہوتا ہے۔ گویا عوام نے بیشتر معاملات میں آ بیل، مجھے مار والی ذہنیت کو گلے لگا رکھا ہے۔ جنہیں بگاڑ پیدا کرتے رہنے کا ٹاسک دیا گیا ہے اُن کا کام مزید آسان ہوگیا ہے۔ ایسے میں عوام یہ شِکوہ ضرور کر سکتے ہیں ؎ 
میں خود مرنے پہ راضی تھا، قضا کے ہاتھ کیا آیا 
مٹا کر میری ہستی کو فنا کے ہاتھ کیا آیا! 
معاشرے میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، جمہور کے دم قدم سے ہوتا ہے۔ اگر جمہور ہی میں دم خم نہ رہے تو پھر کسی بھی معاملے میں، کسی بھی سطح پر، کسی بھی تبدیلی کی آس کیوں رکھیے؟ پاکستانی معاشرہ ٹھنڈا ٹھار محسوس اور دکھائی دے رہا ہے تو اس لیے کہ عوام پر بھرپور پژمردگی طاری ہو چکی ہے۔ وہ ہمت ہار بیٹھے ہیں۔ ذہنوں میں سوچ کی جگہ اضمحلال در آیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ذہن کے قویٰ مکمل طور پر مضمحل ہو چکے ہیں۔ لوگ دیکھ بھی رہے ہیں کہ سب کچھ داؤ پر لگ گیا ہے‘ مگر پھر بھی طے کیے بیٹھے ہیں کہ صورت حال جوں کی توں رہنی چاہیے، کوئی بھی تبدیلی واقع نہیں ہونی چاہیے۔ جو کچھ بھی 
ہو رہا ہے، میکانیکی انداز سے ہو رہا ہے یعنی ذہن کو زحمت دیئے بغیر، بروئے کار لائے بغیر۔ زندگی یوں گزاری جا رہی ہے کہ جیسے وہ ہمیں گزار رہی ہو۔ اکثریت، بلکہ انتہائی واضح اکثریت نے طے کر لیا ہے کہ اب عمل کے محاذ پر ایسا کچھ بھی نہیں کرنا جس سے کوئی حقیقی، جوہری تبدیلی واقع ہو سکتی ہو۔ بقول خواجہ میر دردؔ ؎ 
ساقیا، یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ 
چل سکے بس جب تلک ساغر چلے 
جب طے کر لیا گیا ہو کہ سب کچھ ٹھنڈا ٹھار چلنا چاہیے تو پھر دلوں کو ایک گونا قرار آ ہی جاتا ہے۔ جب طے کر لیا جائے کہ کسی بھی معاملے میں کسی جوہری تبدیلی کو راہ نہیں دی جانی چاہیے تو معاملات تھم جاتے ہیں اور اُن پر بے عملی کی کائی جم جاتی ہے۔ بہتے پانی کو روک دیجیے تو اس پر کائی جمتی جاتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ بھی اب رکے ہوئے پانی کی مثال ہے۔ ٹھہرا ہوا پانی زندگی کی حرارت سے محروم ہوتا ہے تبھی تو اس پر کائی جمتی ہے۔ ہم بھی ٹھہرے ہوئے، بلکہ سُکون سے بیٹھے ہوئے پانی کی مثال ہوگئے ہیں۔ 
جہاں کچھ نہ کرنے کو بھی کام ہی کی ایک شکل تصور کر لیا جائے وہاں کیا ہو سکتا ہے؟ آپ کہیں گے کوئی حقیقی، مثبت تبدیلی رونما ہونے کی امید نہیں جا سکتی۔ ٹھیک ہے، یہی تو ہو رہا ہے۔ معاشرہ جمود کا شکار ہے۔ جس معاشرے میں تحرّک پایا جائے اُس میں بہت کچھ الٹتا، پلٹتا رہتا ہے۔ ایسے میں بدعنوانی کے مرتکب سزا بھی پاتے ہیں۔ بہت 
سے بُرج الٹتے بھی رہتے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں اختیار ہو وہ اگر طے کر لیں کہ معاشرے کو غیر متحرّک رکھنا ہے تو پھر کسی گوشے میں کوئی ہلچل واقع نہیں ہو رہی ہوتی۔ کسی کا کچھ بھی داؤ پر نہیں لگتا۔ اور جب ایسا ہوتا ہے تو بظاہر کسی کے لیے کوئی الجھن بھی کھڑی نہیں ہوتی۔ یعنی ہر معاملہ ٹھنڈا ٹھار چل رہا ہوتا ہے۔ ہاں، عوام کو مطمئن کرنے کی غرض سے وعدوں اور دعووں کی پیالی میں طوفان اٹھاتے رہنے پر ضرور توجہ جاتی ہے۔ جنہیں کچھ کر دکھانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے انہوں نے چند افراد کو ٹاسک دے رکھا ہے جو میڈیا پر تھوڑی بہت دھماچوکڑی مچا کر عوام کو باتوں میں لگائے رکھتے ہیں تاکہ کسی کا ذہن اصل مسائل کے حل سے متعلق کچھ سوچنے کے قابل نہ رہے۔ 
پاکستانی معاشرہ اِس وقت ایسی ہی کیفیت کے ''مزے‘‘ لُوٹ رہا ہے۔ ''سٹیک ہولڈرز‘‘ نہیں چاہتے کہ کوئی بڑی، بنیادی اور مثبت تبدیلی واقع ہو۔ معاملات کی ٹرین کو بے عملی کے سٹیشن پر روک دیا گیا ہے۔ جو معاشرے کے سیاہ و سفید کے مالک و مختار ہیں‘ وہ نہیں چاہتے کہ معاملات کی ٹرین حقیقی عمل کے سٹیشن تک پہنچے۔ سب کچھ طے شدہ سا لگتا ہے۔ جیسے سکرپٹ کے مطابق شوٹنگ ہو رہی ہو۔ لوگ کام تو کر رہے ہیں مگر کوئی کام ہو نہیں رہا۔ یعنی زندگی گزارے کی سطح پر بسر کی جا رہی ہے۔ 
سندھ میں شاہ سائیں کے ''ٹھنڈا ٹھار‘‘ انداز کی مثال تو ہم نے از راہِ تفنّن پیش کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پورا ملک اِسی ڈگر پر گامزن ہے۔ بنیادی تبدیلی وہ ہوتی ہے جو عوام کے لیے ڈھنگ کے امکانات لے کر آئے۔ اگر ان کے افکار، اعمال، کردار اور شب و روز میں کوئی بڑی اور مثبت تبدیلی رونما نہ ہو رہی ہو تو پھر، کوئی مانے یا نہ مانے، معاشرے میں دکھائی دینے والا ''تحرّک‘‘ ٹھہرے ہوئے پانی پر جمی ہوئی کائی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved