کیا الطاف حسین اپنے قریبی ساتھیوںکی مسلسل بے وفائی کو آسانی سے برداشت کر لیں گے؟ رضا ہارون اور انیس قائم خانی‘ ان کے دست راست تھے۔ دونوں الطاف بھائی کے قریبی ساتھیوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ یوں تو جتنے دیگر حضرات مصطفی کمال کی طرف آئے ہیں‘ وہ بھی پارٹی اور اس کے بانی سربراہ الطاف حسین کے دست و بازو تھے۔ یہ لوگ جتنی تیزی کے ساتھ ایک بے نام پارٹی کی طرف بڑھ رہے ہیں ‘ اسے برداشت کرنا الطاف بھائی کے مزاج کے خلاف ہے۔ اس تیزی سے ساتھیوں کی جدائی برداشت کرنا بھی سہل نہیں۔ الطاف بھائی اس عمل کو کس نظر سے دیکھ رہے ہوں گے؟ میں ان کا مزاج شناس نہیں ہوں۔ ان سے صرف دو یا تین ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ تفصیلی تبادلہ خیال بھی کیا‘ مگر جو کچھ میری سمجھ میں آیا‘ وہ ان کا آمرانہ مزاج تھا۔ وہ کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتے۔ قرآن و حدیث کے حوالے دینے پر اصرار کرتے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ انہوں نے اسلام کو خوب اچھی طرح سمجھ لیا ہے اور وہ عوام کی رہنمائی کے لئے اپنے خیالات کو ضبط تحریر میں ضرور لائیں گے۔ جن ملاقاتوں میں ‘ان کے ارادوں کو انہی کی زبانی سنا‘اس سے تو لگتا تھا کہ اسلام کے بارے میں ان کی متعدد کتابیں منظرعام پر آئیں گی۔ لیکن افسوس کہ اب تک کوئی کتاب مجھ تک نہیں پہنچی اور نہ ہی میری پسندیدہ بک شاپ سے کسی نے ٹیلیفون پریہ بتایا کہ الطاف حسین کی کوئی نئی کتاب آئی ہے۔ الطاف حسین کی سرگرمیاں کیا رہیں؟ ان کی جماعت کی مسماری کا عمل اندر ہی اندر ہوتا رہا۔ مگر جب مصطفی کمال نے اپنی بے نام پارٹی کو منظم کرنا شروع کیا اور اسے بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی‘ تو سیاسی منظر تیزی سے تبدیل ہو گیا۔ اس تبدیلی کے دوران‘ ان کے انتہائی قریبی ساتھی ایک ایک کر کے‘ نئے کارواں میں شامل ہو گئے۔ لیکن خلاف عادت الطاف حسین کی طرف سے کوئی جوابی کارروائی نہیں ہوئی۔ ان کا جو سب سے بڑا عوامی ردعمل سامنے آیا‘ معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ وہ جھاڑو ہے۔
جھاڑو پھیر تحریک کی قیادت‘ ایم کیو ایم کی رنگارنگ شخصیت فاروق ستار بھائی کر رہے ہیں۔ وہ مختلف علامتوں اور تشبیہات کے ذریعے کوئی سیاسی پیغام دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ مگر سچی بات ہے کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ حد یہ ہے کہ جو ورکر یا لیڈر‘ اپنی بیس پچیس سالہ سیاسی زندگی کو ترک کر کے‘ نئے راستے پر چلے ہیں‘ وہ نہ کوئی پروگرام دے سکے ہیں‘ نہ انہوں نے مستقبل کے بارے میں عوام کو اپنے خیالات سے نوازا ہے۔ نہ ہی تنظیمی سرگرمیاں شروع کی ہیں۔ جب بھی کام کرنے بیٹھتا ہوں‘ یہی جستجو رہتی ہے کہ ایم کیو ایم کے اعلیٰ ترین سیاسی ذہن رکھنے والے کارکنوں نے‘ الطاف حسین کے اثر سے نکلنے کی جو کوشش کی ہے‘ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ الطاف حسین کا کوئی سیاسی فلسفہ نہیں ہے۔ انہوں نے لوگوں کو جمع ضرور کیا۔ ان کے اندر کام کی لگن بھی پیدا کر دی۔ مگر کام کیاکرنا ہے؟ یہ وہ تادم تحریر نہیں بتا سکے۔ سیاسی طور پر وہ ہمیشہ اپنی کمزور پوزیشن سے خائف رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حب الوطنی کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ پاکستان کے دشمن‘ بھارت سے بھی مدد حاصل کی۔ اسی احساس کمزوری کے نتیجے میں وہ بار بار مدد کے لئے پاک فوج کی طرف بھی گئے۔ کراچی اور حیدر آباد کے عوام نے الطاف بھائی کی جماعت کو پارلیمنٹ میں ملک کی چوتھی بڑی جماعت بنا دیا۔ اگر وہ اپنے رائے دہندگان پر بھروسہ کرتے‘ جو کہ ان کے ایک لفظ پرجانیں قربان کرنے کو تیار ہو جاتے تھے‘ تو وہ اس طاقت کے ذریعے‘ اپنی سیاسی طاقت میں کافی اضافہ کر سکتے تھے۔لیکن انہوں نے اپنی اور عوام کی طاقت پر کبھی بھروسہ نہیں کیا۔ انجانی قوتوں سے کوئی خوف تھا اور ہے‘ جو انہیں ہمیشہ لاحق رہا۔ میرے نزدیک یہ انجانی قوتیں‘ ان کی اپنی غلطیاں تھیں‘ جن میں سب سے اہم ‘ بھارت کے ساتھ ان کا خفیہ رشتہ اور پاک فوج پر ضرورت سے زیادہ انحصار تھا۔ وہ ہمیشہ انہی دو طاقتوں سے ڈرتے رہے۔ ایک بھارت اور دوسری پاک فوج۔ انہوں نے اس بنیادی تضاد کو اہمیت دیئے بغیر ‘ آنکھیں بند کر کے‘ دونوں سے مدد حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور یہ بھول گئے کہ بیک وقت ان دونوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ ان کی توقعات کے خلاف‘ پاک فوج اور بھارتی ایجنسی ''را‘‘ دونوں ہی ان پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ نہیں کر سکتے تھے اور انہوں نے نہیں کیا۔ پاک فوج‘ بھارت سے خفیہ مالی امداد حاصل کرنے کے معاملے سے بخوبی واقف تھی اور بھارتی جاسوسوں نے بھی اپنی حکومت کو بتا رکھا تھا کہ الطاف بھائی‘ پاک فوج کی خفیہ مدد پر انحصار کرتے ہیں۔ میں درپردہ رازوں سے واقف نہیں ہوں۔ لیکن آج بھی اندازہ کر سکتا ہوں کہ الطاف بھائی بیک وقت تین طاقتوں سے کھیل رہے تھے‘ جو ایک دوسرے کی دشمن ہیں۔ ایک طرف پاک فوج تھی۔ ایک طرف بھارتی ایجنسی اور ایک طرف سرفراز مرچنٹ‘ جس سے انور بھائی نے ‘ان کی لاعلمی میں فائدہ اٹھایا اور یہ بات سرفراز مرچنٹ
نے خود بتائی ہے۔ ابھی تک جو راز سامنے آئے ہیں‘ ان کے مطابق انور بھائی اور متحدہ کے بعض دوسرے معتبرین‘ ان کی لاعلمی میں ان کا کمپیوٹراستعمال کر کے‘ خفیہ رابطے قائم کرتے رہے۔ سرفراز مرچنٹ نے ایک انٹرویو میں شک ظاہر کیا کہ انور بھائی انہی کے ای میل ایڈریس کو استعمال کر کے‘ فنڈز وصول کرتے رہے۔ آج بھی مختلف افراد اور گروہوں میں بحث چل رہی ہے کہ بھائی نے ''را‘‘ سے پیسے کس طرح لئے؟ اور پاکستان میں کس طرح یہ راز چھپا کر‘ وہ آزادانہ سیاسی سرگرمیوں میں کامیاب رہے؟ کوئی نہ کوئی ایسی کمزوری یقینا تھی‘ جس کی وجہ سے وہ خود اپنے ووٹ ہونے کے باوجود سینیٹ یا پارلیمنٹ میں نہیں آئے۔ وہ کون ایسا سیاستدان ہے‘ جو عوام کی ایسی ٹھوس حمایت حاصل کرنے کے باوجود‘ خود کسی سیاسی منصب سے لاتعلق رہے؟ آج بھی وہ اپنی غلطیوں کی پیدا کردہ مشکلات سے دوچار ہیں۔ پاک فوج اب ان پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ کم از کم میرا یہی اندازہ ہے۔ ان کے اپنے آزمودہ ساتھی آج ان سے الگ ہو رہے ہیں اور اپنی پارٹی بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ جتنے حوصلے اور ہمت کے ساتھ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی اپنی پارٹی کے قیام کے لئے سرگرم ہیں اور عوام میں انہیں جو پذیرائی حاصل ہو رہی ہے‘ اسے دیکھتے ہوئے شبہ نہیں رہ جاتا کہ اس مرتبہ الطاف بھائی سے الگ ہونے والوں کو عوامی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ دوسری طرف وزیرداخلہ چوہدری نثار نہایت ہنرمندی سے الطاف بھائی اور ''را‘‘ کے تعلق کا سراغ لگانے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے دیگر اداروں کے علاوہ کچھ افراد کو بھی ذریعہ معلومات بنانے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ اس سلسلے میں وہ ایف آئی کے ذریعے ‘سرفراز مرچنٹ سے تفتیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور انہوں نے مصطفی کمال کے ساتھ بھی رابطہ قائم کیا ہے اور انہیں دعوت دی ہے کہ وہ ''را‘‘ کے ساتھ الطاف بھائی کے رابطوں کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں‘ وہ انہیں بتایا جائے۔ اس تجسس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اپنی رائے قائم کرنے کے بعد‘ اب شواہدجمع کرنے کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ جیسے ہی ٹھوس ثبوت جمع ہو گئے‘ حکومت قانونی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔
مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں نے اپنی پارٹی کو منظم کرنے کا کام بھی‘ آنے والے واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہے۔ انہیں یقینی طور پر معلومات حاصل ہو گئی ہوں گی اور جس ماحول میں وہ رہے ہیں‘ وہاں سے اندازہ کر لیا ہو گا کہ آنے والے دنوں میں الطاف بھائی قیادت کے لئے دستیاب نہیں رہیں گے۔ ان کی صحت کے بارے میں پھیلائی گئی افواہیں یا خبریں بھی اس خیال کی تصدیق کرتی ہیں ۔