عجیب حاکم ہمیں نصیب ہوئے ہیں۔ قومی ایجنڈا وہ اجنبیوں کی آرزُو پر تشکیل دیتے ہیں۔ وہ ہمارے اعمال کی سزاہیں۔
تحفظ حقوقِ نسواں بل نے پاکستانی معاشرے کے فعال طبقات کا کھوکھلا پن واضح کر دیا۔ اس قانون سے کس کا بھلا ہونے والا ہے کہ ہمارے سیکولر اس کے پیچھے ڈٹ کر کھڑے ہیں؟ ادھر، کوئی عالم دین اور مذہبی سیاسی لیڈرسمجھا نہیں کر سکا کہ اس کی کون سی شق غیر اسلامی ہے۔
نیا قانون یہ کہتا ہے کہ خاتون خانہ کے شکایت پر مرد کو پکڑ لیا جائے گا۔ سرکاری گاڑی اس کے لیے گھر جائے گی۔ اگلے ہی دن جج اس مقدمے کی سماعت فرمائے گا‘ تب اس کی ضمانت ممکن گی۔ ظاہر ہے کہ لوٹ کر اُسی گھر میں جائے گا جہاں سے وہ گرفتارہوا تھا۔ اضلاع میں قائم ہونے والے مراکز میں اس خاتون کو پناہ دی جائے گی۔ ایک نئی قسم کے دارالامان یا وہی پرانے۔ ایسے مرد کو جس نے بار بار تشدد کیا ہو، ایک چپ لگائی جائے گی کہ وہ خرابی پر تلا رہے تو اس پر نگاہ رکھی جا سکے۔
سبحان اللہ! خاتون کے ٹیلی فون پر کون سا تھانہ پرچہ درج کرے گا۔ سنی ان سنی کر دی جائے گی۔ وہاں مرد براجمان ہیں۔ یہ وہ پولیس ہے جس سے انصاف کی امید صرف بارسوخ ہی کر سکتے ہیں یا مٹھی گرم کرنے والے۔ نو برس ہوتے ہیں‘ مشرق بعید سے تعلق رکھنے والی ایک نیک طینت خاتون نے ایک پاکستانی سے شادی کی۔ اسلام قبول کیا اور اس کی خاطر ہجرت کر کے پاکستان آئی۔ وہ نکما اور نکھٹو۔ ایک شریف آدمی کے ادارے میں، جہاں ماحول شائستہ اور ضابطوںکی پاسداری کی جاتی ہے، ملازمت کر کے وہ بچے پال رہی تھی۔ شکی آدمی اسے زچ کیے رکھتا۔ ایک دن ادارے کے سربراہ نے اس ناچیز سے کہا کہ کیا اس کی مدد کی جا سکتی ہے؟ضلع کچہری میں ڈی آئی جی انوسٹی گیشن کے دفتر میں پہنچا۔ اول تو طنزیہ انداز میں انہوں
نے پوچھا کہ فلاں اخبار چھوڑ کر میں دوسرے اخبار سے کیوں وابستہ ہو گیا۔ طنز ان کا نظر انداز کیا۔ گزارش کی ذاتی معاملات میں اس طرح کی دخل اندازی شاید مستحسن نہیں۔ پھر ایک انسپکٹر سے ملنے کو کہا۔ بہت دیر اس نے انتظار کرایا۔ شکایت کی تو بولے: تمہاری کیا لگتی ہے۔ وضاحت کرنے کی کوشش کی تو بدتمیزی کے ساتھ اس نے اپنا سوال دہرایا۔ یہ تک جاننے کی کوشش نہ کی کہ کون اس سے بات کر رہا ہے۔ ایسے گنوار سے بات کرنے کا فائدہ ہی کیا تھا۔ رنجیدہ میں وہاں سے اٹھا‘ ڈی آئی جی کا دروازہ کھول کر کہا: بدتمیزی کا شکریہ۔ وہ اپنے انسپکٹر سے کم جاہل نہ تھا۔ دفتر پہنچ کر سید عباس اطہر مرحوم سے ذکر کیا تو وہ بگڑے اور کہا: ابھی اس کا بندوبست ہواجاتا ہے۔ لعنت بھیجئے، میں نے کہا: کس کس گنوار کو آپ سبق سکھائیں گے۔ بھول جانا ہی اچھا ۔ انتقام کے خوگر اپنی زندگیاں برباد کرتے ہیں۔
پہلے ہی مرحلے پر بے حسی کا اندیشہ ہے۔ گاڑی کون بجھوائے گا۔ وہ گاڑیاں ہیں کہاں! کون اس خاتون کو دارالامان لے جائے گا۔ بچوں سے الگ وہ کیونکر رہے گی۔ مقدمات کے انبار پہلے ہی عدالتوں میںپڑے ہیں۔ گھر کے اندر سے گواہی کون دے گا۔ کیا بچے، اور اگر مشترکہ خاندان ہو تو کیا مرد کے والدین یا بہن بھائی؟ ایک آدھی پیشی پر تو فیصلہ ہو گا نہیں۔ وکیل کا بندوبست ظاہر ہے کہ سرکار کرے گی۔ کیا اس کے لیے وکلاء کی فوج بھرتی ہو گی؟ وکیل حضرات کو ہم خوب جانتے ہیں اور کچہریوں کے ماحول کو بھی۔ پہلے ہی وکلاء منفی ہتھکنڈوں کے عادی تھے۔ مقدمات کو ٹالنے ‘جھوٹی شہادتوں کا بندوبست کرنے اور تاخیری حربے اختیار کرنے والے۔ 2007ء کی وکلاء تحریک میں اپنی قوت انہوں نے دریافت کر لی۔ جج حضرات اب ان سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ ماتحت عدالتوں میں انصاف کا حصول آسان نہیں۔ خواتین کے پاس روپیہ اکثر نہیں ہوتا، پھر وہ اس طرح کے حربوں کا ادراک بھی نہیں رکھتیں۔ جہاں تک ''کڑے‘‘ کا تعلق ہے، خطرناک آدمی کے لیے تجویز ہوا ہے، بار بار جو قانون توڑے اور وحشت کا مظاہرہ کرے۔ غیر اسلامی اس میں کچھ نہیں، قطعاً نہیں۔ مذہبی، سیاسی جماعتیں البتہ ڈٹ کر اسے غیر شرعی قرار دے رہی ہیں۔ دونوں بڑی پارٹیوں کے لیڈر پختون خوا سے تعلق رکھتے ہیں، وہاں کے دیہی اور قبائلی علاقوں سے، جن کا اپنا ایک خاص ماحول ہے۔ خواتین کو ووٹ کا حق دینے پر وہ آمادہ نہیں ہوتے چہ جائیکہ ہر میدان میں مساوات ؎
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
اس قانون کی تجویز امریکہ سے آئی اور اس وقت جب وزیر اعظم پر لبرل ازم کا بھوت سوار ہے۔ سیکولر کی اصطلاح پر ہم ایسوں کو بھی اعتراض ہے۔ 1895ء میں ایک معزول پادری نے یہ تراشی تھی، چرچ کی خواہش پر جسے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ اسے انجیل کا ایک قابل قبول ایڈیشن مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ریاضت اور مشق کے بعد اس نے معذرت کر لی۔ زندان خانے میں انتقامی جذبہ جاگا تو چرچ ہی نہیں، اس میں مذہبی تعلیمات سے نفرت ٹوٹ پڑی۔ ماحول سازگار تھا؛ چنانچہ بہت مقبولیت اسے ملی اور اس نئی اصطلاح کو بھی۔قائد اعظم اسی زمانے میں بیرسٹری کا امتحان پاس کرنے بعد لندن سے لوٹے تھے۔ برطانوی ماحول سے وہ خوب واقف تھے۔ عمر بھر انہوں نے یہ لفظ برتنے سے گریز کیا۔ شاید اس لیے بھی کہ پادری ہولی اوک کے مطابق سچا سیکولر وہی ہو سکتا ہے جو اللہ کے وجود سے انکار کرے۔ ہاں مگر لبرل کی اصطلاح برتنے میں کیا حرج ہے۔ مغرب میں اس سے مراد کشادہ روی، رواداری اور حقِ اختلاف کا وسیع دائرہ ہی تو ہے۔ ہمارے مذہبی طبقات ہر مغربی اصطلاح سے بدکتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ مذہب جب واقعی نافذ ہو تو مذہبی طبقے کا الگ سے وجود نہیں ہوتا۔
رانا ثناء اللہ نے ایک بے موقع بیان دیا کہ قانون میں ترمیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب کہ وزیر اعظم وعدہ کر چکے اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو مولانا فضل الرحمن کی ڈانٹ ڈپٹ سننا پڑی۔ یہ عبرت کی جا ہے۔ وزیر اعظم نے خود بھی ایک بے محل بات کہی: خواتین کی شرکت کے بغیر قائد اعظم کا پاکستان وجود نہیں پا سکتا۔
غیر اسلامی تو ہرگز نہیں مگر قانون ناقص ہے اور مغرب سے آیا ہے۔ مقامی نہیں، امریکہ میں مقیم کچھ عاصمہ جہانگیریں بھی شاید اس شعبدہ بازی میں شامل ہیں، جس سے انکل سام کو کچھ حاصل ہو گا نہ مظلوم خواتین اور نہ ہی ریاکار حکومت کو، مجبور خواتین سے جسے ہرگز ہمدردی نہیں۔ ایک قابل اعتماد ذریعے کو اصرار ہے کہ حسین حقانی سے وزیر اعظم کا رابطہ ہے۔ ان کے بقول، ان ہستیوں کے نام بھی وہ بتا سکتے ہیں، جو اس رابطے کی ذمہ دار ہیں۔ انکل سام کے دیس میں یہ ایک کاروبار ہے۔ اپنے اپنے ملکوں میں امریکی ایجنڈہ نافذ کرنے کی کوشش۔ سنا ہے دام ملتے ہیں اور اچھے دام۔ این جی اوز بھی ایک کاروبار ہے۔ اپنے وطن میںمغربی ایجنڈے کا نفاذ۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ تقریباً ہر وہ اخبار نویس اس بے تکے قانون کا وکیل ہے، جس کی جیب میں ایک این جی اورکھی ہے۔
شریف خاندان اور نون لیگ کی بدقسمتی پر تعجب ہے جو مولانا فضل الرحمن کے ہاتھوں پٹ رہی ہے۔ حکمران پارٹی جھکی جاتی ہے، معذرت خواہ ہے، پیچھے ہٹنے پر آمادہ ہے مگر وہ مسلسل اسے پھٹکار رہے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف خوبیوں سے خالی نہیں مگر ان کا کبھی کوئی نظریہ تھا نہ ایجنڈا۔ افراد کی طرح نظریات کو بھی وہ اقتدار کے لیے استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ کل وہ اسلام کے علمبردار تھے، آج لبرل ازم کے۔ 1990ء میں وہ بھارت کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑے تھے، آج اس کا تابع مہمل بننے پر آمادہ ۔ جب داد طلبی، دولت اور اقتدار ہی ایجنڈا ہو تو اس کے سوا کیا ہو گا۔
سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: دنیا کی محبت ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ ان سے محبت کرنے والے اس جلیل القدر امتی اقبالؔ نے کہا تھا ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
صلواعلیہ وآلہ۔ دکھاوا نہیں، خواتین کی واقعی داد رسی ہونی چاہیے۔ اس کا راستہ مگر دوسرا ہے اور اس پر بات پھر کبھی۔ عجیب حاکم ہمیں نصیب ہوئے ہیں۔ قومی ایجنڈا وہ اجنبیوں کی آرزو پر تشکیل دیتے ہیں۔ وہ ہمارے اعمال کی سزاہیں۔