تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     17-03-2016

جمہوریت اور پریس

2002ء میں عنانِ اقتدار جنرل مشرف کے ہاتھ میں تھی، اس وقت سے لے کر اب تک پاکستانی پریس خاصی ترقی کر چکا ہے۔ جنرل صاحب میاں نواز شریف کو برطرف کرکے اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پریس والے جنرل صاحب کو بڑے عزیز ہوا کرتے تھے۔ جنرل صاحب کے مشیر صاحبان اخبارات کا بڑی عرق ریزی سے مطالعہ کرتے‘ اور جہاں کہیں بطورِ ثبوت کوئی ذرا سی بات بھی انہیں نظر آتی‘ وہ جنرل صاحب کے سامنے پیش کر دی جاتی تاکہ جنرل صاحب اسے اقتدار پر اپنے قبضے کے جواز کے طور پر بیان کر سکیں، اور بیان بھی جنرل صاحب ایک سنجیدہ چہرے کے ساتھ دیتے تھے جس پہ کچھ جھلک تشویش کی بھی ہوتی تھی۔ بہت بااخلاص بھی وہ دکھائی دیتے تھے اور عوام کے لئے ان کی باتیں قائل کر دینے والی ہوا کرتی تھیں۔ ریاستی انتظام کے تحت چلنے والے پی ٹی وی پر ایوب خان سے لے کر مشرف تک جتنے بھی آمروں نے قوم سے خطاب کیا‘ ان سب کے خطابات میڈیا کے حوالوں سے پُر ہوتے تھے۔ یوں پریس والوں کو بھی پُرشکوہ لمحات میسر آتے رہے ہیں۔ 2002ء میں جب یو این ڈی پی نے ہیومین ڈویلپمنٹ رپورٹ (HDR) شائع کی‘ تو اس میں بھی منتخب رہنمائوں کی غلط سرگرمیوں کی رپورٹنگ کے حوالے سے پاکستانی پریس کے مثبت کردار کی تصدیق کی گئی تھی۔
ایچ آر ڈی کے شریک مصنف عمر نعمان نے لکھا تھا کہ کرپشن سے پردہ اٹھانے کے سلسلے میں پاکستانی پریس نے بڑا زبردست کردار ادا کیا ہے۔ یو این ڈی پی کے اس پاکستانی نژاد ڈپٹی ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ عوام میں پھیلی عمومی مایوسی اور پریس کی 
جانب سے کرپشن کا پردہ بہترین انداز میں چاک کیا جانا ہی وجہ تھی کہ عام آدمی نے انیس سو ننانوے میں جنرل مشرف کے ہاتھوں نواز شریف کی منتخب حکومت کے خاتمے کا کچھ زیادہ برا نہیں منایا۔ اس کے باوجود ایچ ڈی آر میں فریڈم آف پریس کے کالموں میں پاکستان کا سکور ابتر نظر آرہا تھا۔ فریڈم ہائوس سروے میں پاکستان کو ستاون ویں نمبر پر بتایا گیا تھا۔ اس سروے کے مطابق 0-30 کے سکور کے حامل ممالک میں پریس آزاد تھا، 31-60 کے سکور کے حامل ممالک میں پریس کو جزوی آزادی میسر تھی‘ جبکہ 60-100 کا سکور ان ممالک کا تھا جن میں پریس آزاد نہیں۔ پاکستان میں پرنٹ میڈیا تو متحرک اور آزاد تھا‘ لیکن مسئلہ الیکٹرانک میڈیا (یعنی ٹی وی و ریڈیو) کا تھا‘ جو ریاست کے زیر انتظام تھا اور متعلقہ رینکنگ میں اپنی حیثیت کی بہتری کے لئے ضروری تھا کہ پاکستان اپنے الیکٹرانک میڈیا کو آزاد کرے۔ اب اس کا سہرہ تو جنرل مشرف ہی کے سر جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں متعدد نجی چینلوں کو پنپنے کا موقع دیا۔ آج یہی نجی چینل اشرافیہ طبقے کی کرپشن کو سامنے لانے میں ایک شاندار کردار ادا کر رہے ہیں۔ یو این ڈی پی 1990ء سے ایچ ڈی آر کی اشاعت کے ذریعے اہم مسائل کا جائزہ پیش کر رہی ہے۔ یہ ایچ ڈی آر ماہرین کی ایک آزاد ٹیم کے زیرِ نگرانی مرتب ہوتی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک بار محبوب الحق مرحوم نے بھی اسلام آباد میں ایسی ہی ایک ایچ ڈی آر کی رونمائی کی تھی۔ محبوب الحق مرحوم یو این ڈی پی کے مشیر تھے‘ اور مغرب کی جانب سے اسلحے کی فروخت کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے بارے میں وہ ایچ ڈی آر انہوں نے ہی تحریر کی تھی۔ پاکستان، بھارت اور سعودی عرب اسلحے کے سب سے بڑے خریدار تھے‘ جبکہ اسلحے کی فروخت میں ملوث ممالک میں سرفہرست نام انگلستان اور امریکہ کا تھا۔ یہ یقینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی‘ لیکن ڈاکٹر محبوب الحق نے اس ضمن میں خطرات سے خبردار کرتے ہوئے اشارہ کیا تھا کہ پیسے کی لالچ میں مغربی دنیا برصغیر کے ممالک کو لاحق سلامتی کے خدشات کا استحصال کر کے ان کے جنگی جنون کو ایندھن فراہم کر رہی ہے اور اسلحے کی دوڑ کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے‘ جبکہ باقی ساری دنیا چین کی نیند سور رہی ہے۔ سعودی تو آج بھی اسلحے کے سب سے بڑے خریداروں میں سے ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ہی وہاں جنگی کارروائیوں کا جو میلہ رچا‘ اس کی اخباری تشہیر ملاحظہ کیجئے۔ اس حوالے سے تقریب میں مغربی مہمانوں کے ساتھ ساتھ ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی تشریف فرما نظر آتے ہیں۔ یو این ڈی پی کی سالانہ ایچ ڈی آر میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ عالمی بینک 
اور آئی ایم ایف ووٹنگ کا تقریباً نصف اختیار سات ممالک کے ہاتھ ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں رکنیت اور ووٹ کا حق تو سبھی ممالک رکھتے ہیں‘ لیکن فیصلہ سازی مختصر گروہی اجلاسوں میں ہوتی ہے‘ جن میں رسوخ زیادہ تر کینیڈا، یورپ، جاپان اور امریکہ کا چلتا ہے۔ یو این ڈی پی کے اہلکار برسوں سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان اختیارات کے اس عدم توازن پر بات کرتے آ رہے ہیں اور یہ لوگ یہ کہتے ہیںکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار ختم کر دینا چاہئے‘ اور عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے سربراہان کے چنائو کے عمل کی اصلاح بھی ضروری ہے‘ کیونکہ اس پر بھی کنٹرول امریکہ اور یورپ کا ہے۔ 
ہیومین ڈویلپمنٹ کے شعبے میں طویل المیعاد رجحانات کا اولین بھرپور جائزہ 2010ء کی ایچ ڈی آر میں لیا گیا تھا۔ اس میں زیادہ تر ممالک میں 1970ء کے بعد سے ہیومین ڈویلپمنٹ انڈیکس کے اشاریوں کی جانچ کی گئی تھی۔ اس جائزے کے دوران ترقی پذیر ممالک میں صحت، تعلیم اور زندگی کے بنیادی معیار کے شعبوں میںانتہائی بہتری دیکھی گئی۔ غریب ترین ممالک میں بہترین نتائج ملاحظہ کئے گئے؛ تاہم حاصل شدہ کامیابیوں کے نقشے کی طرز جدا جدا تھی۔ مثال کے طور پر 2002ء کی ایچ ڈی آر کا بنیادی موضوع جمہوریت تھا، اسی پر Deepening Democracy in Fragmented World (یعنی تفرقات کی شکار دنیا میں جمہوریت کی تعمیق) کے عنوان کے تحت ایک مضمون میں روشنی ڈالی گئی۔ مصنفین کا کہنا تھا کہ ''اس عرصے کے دوران حاصل ہونے والا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ عوام کو اپنی زندگیوں کے سنوارنے کا موقع فراہم کرنے میں سیاست کے اہم کردار کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ سیاسی 
ترقی ہیومین ڈویلپمنٹ کا ایک ایسا پہلو ہے‘ جسے بالکل بھلایا جا چکا ہے۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ موضوع ہمارے حالات کے عین موافق تھا۔ (کہیں یہ موضوع چنتے ہوئے یو این ڈی پی نے پاکستان کا ہی تو نہیں سوچا تھا؟) اس وقت پاکستان میں انتخابات کا انعقاد ہونے ہی والا تھا، صرف دو ماہ کا عرصہ باقی تھا اور جمہوریت کا آغاز ہوا ہی چاہتا تھا۔ مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ''تمام ترقی پسند دنیا میں ملائشیا سے لے کر پاکستان تک اور کولمبیا سے لے کر قازقستان تک زیادہ تر عوامی اور آمر حکمران (یہاں جنرل مشرف مراد لیجئے) یہی کہتے رہے کہ عوام کو قومی استحکام اور شخصی آزادیوں میں سے کسی ایک ہی کا چنائو کرنا ہو گا؛ تاہم 2002ء کی ایچ ڈی آر اس دعوے کی مخالفت میں ٹھوس ثوابت پیش کرتی ہے کہ ان غریب ترین ممالک میں امن اور معاشی استحکام کا قیام پہلے اور انسانی حقوق اور جمہوریت کا قیام بعد میں ہونا چاہئے۔‘‘ مارک میلاک برائون‘ جو بعد میں اقوامِ متحدہ میں کافی متحرک ہوئے‘ پہلے ایک صحافی تھے۔ 1985ء میں جب وہ دی اکانومسٹ کے رپورٹر تھے‘ تو چین میں ان سے ہماری ملاقات بھی رہی تھی۔ چودہ برس قبل وہ یو این ڈی پی کے سربراہ تھے۔ اس وقت انہوں نے پاکستان جیسے ممالک کو خبردار کیا تھا کہ ''دہشت گردی ناکام ریاستوں اور ابتر نظاموں میں اور قومی سلامتی کی ناکامیوں پر یکساں طور سے پنپتی ہے۔ ان میں سے کسی ایک مسئلے کو بھی انفرادی طور پر یعنی دوسرے مسئلے سے الگ رہتے ہوئے حل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ ان کا فرمانا بجا سہی لیکن اس وقت بھی ہم نے یہی کہا تھا کہ اگر پاکستان میں 'سٹیٹس کو‘ برقرار رہنے دیا جائے‘ تو اسی صورت میں ہماری ''قومی سلامتی‘‘ کے تحفظ اور بقا کے امکانات زیادہ روشن ہو سکتے ہیں؛ تاہم اگر ہمارے سیاسی نظام کو پھر سے جمہوری کر دیا جائے‘ تو اس بات کی کیا ضمانت ہو گی کہ کرپشن اور بدانتظامی پھر سے اسی طرح عود نہیں کر آئے گی جیسا کہ ماضی میں مسلسل ہوتا آیا ہے؟ اس ضمن میں دی واشنگٹن پوسٹ کی پبلشر آنجہانی کیھترین گراہم کا تجزیہ زیادہ دیانت دارانہ تھا۔ 1988ء میں سی آئی اے میں بھرتی ہونے والوں سے ایک خطاب کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ''ہم ایک گندی اور خطرناک دنیا میں رہ رہے ہیں۔ بعض چیزیں ایسی ہیں جو عوام کے لئے جاننا ضروری نہیں اور انہیں جاننا بھی نہیں چاہئے۔ میرا خیال ہے کہ جمہوریت تبھی پنپتی ہے جب حکومت اپنے رازوں کو اخفا میں رکھنے کے لئے باجواز اقدامات کر سکتی ہو اور جب پریس بھی یہ فیصلہ کر سکتا ہو کہ آیا جو اس کے علم میں وہ اسے چھاپنا بھی چاہئے؟‘‘
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی میڈیا آج بڑے بڑے سیاسی سکینڈلوں کو منظرِ عام پہ لے آئے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved